مہینوں تک چلنے والے ایون فیلڈ کے ریفرنس میں میڈیا نمائندگان کو عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ کا حق حاصل رہا، کیوں کہ ساری کارروائی کھلی عدالت میں چلتی رہی۔
احتساب عدالت کا رویہ سراسر متنازعہ رہا مگر آج یہ جعلی عدالت جس طرح قوم کا سامنا کرنے سے بھاگ رہی ہے اس سے اس کی غیر جانب داری اور معیار عدل کی قلعی کھل رہی ہے۔
جیو نیوز کے اینکر طلعت حسین نے احتساب عدالت کی تشبیہ رویت ہلال کمیٹی سے دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح مفتی منیب الرحمان چاند دیکھے جانے کی شہادتوں کے بعد گھنٹوں قوم کو لٹکائے رکھتے ہیں اور رات گئے چاند کے دیکھے جانے یا نہ دیکھے جانے کا اعلان کیا جاتا ہے، اسی طرح کا رویہ آج کی احتساب عدالت نے روا رکھا ہے، جب میڈیا کو کمرہ عدالت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی، جو اندر موجود تھے ان کو باہر نکال دیا گیا۔
سب سے دلچسپ بات یہ کہ فیصلہ دن کے ساڑھے بارہ بجے سنایا جانا تھا۔ پھر بہانہ بنایا کہ فیصلے کی فوٹو کاپی کروانی ہے (جیسے پاکستان کے عوام اتنے جاہل ہیں کہ ان کو پتہ ہی نہیں کہ فوٹو کاپی کتنی دیر میں ہوتی ہے، اور جیسے پاکستان کے سارے لوگ دیہاتی اور جاہل ہیں، جن کو کبھی کسی بڑے ادارے میں کام کا تجربہ نہیں جہاں سینکڑوں صفحات روزانہ کی بنیاد پر فوٹو کاپی کیے جاتے ہیں)۔ تو جناب یہ حال ہے ہماری نااہل جعلی عدلیہ کا۔ ان کے بہانے دیکھیے آپ! یہ فوٹو کاپیاں تو ایک ہفتہ پہلے ہو جانی چاہیے تھیں، پھر دن کے 12:30 سے 4:30 تک فوٹو کاپیاں ہی ہوتی رہیں گی؟
یہ کیوں نہیں کہتے کہ بقول کیپٹن صفدر یہ دیکھنا ہے کہ یہ فیصلہ کسی جج نےلکھا ہے یا کسی (فوجی) جنرل نے؟
میرے مطابق ابھی مک مکا چل رہا ہے۔
نواز لیگ اور فوجی مافیا کے مابین بات چیت چل رہی ہے۔ بلیک میلنگ ہو رہی ہے۔ دونوں فریقین کے پاس ترپ کے پتے ہیں۔ اگر فیصلہ نواز کے خلاف آئے گا تو کیا نواز چپ رہے گا؟ کیا وہ وردی مافیا کی پولیں نہیں کھولے گا؟ ایک ٹریلر ممبئی حملوں کے حوالے سے وہ دے چکا ہے۔
تو میرے عزیز ہموطنو۔ یہ ہے آپ کا ملک، جہاں چور پولیس کی آنکھ مچولی چل رہی ہے۔ فیصلہ نواز کے حق میں آئے یا خلاف، وہ بہرحال متنازعہ ہوگا۔
احتساب عدالت کی آج کی آنکھ مچولی نے بار بار تاخیر کر کے اور اپنی مشکوک حرکات سے اس فیصلے کو سنائے جانے سے پہلے ہی متنازعہ بنادیا ہے۔
احتساب عدالت کا رویہ سراسر متنازعہ رہا مگر آج یہ جعلی عدالت جس طرح قوم کا سامنا کرنے سے بھاگ رہی ہے اس سے اس کی غیر جانب داری اور معیار عدل کی قلعی کھل رہی ہے۔
جیو نیوز کے اینکر طلعت حسین نے احتساب عدالت کی تشبیہ رویت ہلال کمیٹی سے دیتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح مفتی منیب الرحمان چاند دیکھے جانے کی شہادتوں کے بعد گھنٹوں قوم کو لٹکائے رکھتے ہیں اور رات گئے چاند کے دیکھے جانے یا نہ دیکھے جانے کا اعلان کیا جاتا ہے، اسی طرح کا رویہ آج کی احتساب عدالت نے روا رکھا ہے، جب میڈیا کو کمرہ عدالت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی، جو اندر موجود تھے ان کو باہر نکال دیا گیا۔
سب سے دلچسپ بات یہ کہ فیصلہ دن کے ساڑھے بارہ بجے سنایا جانا تھا۔ پھر بہانہ بنایا کہ فیصلے کی فوٹو کاپی کروانی ہے (جیسے پاکستان کے عوام اتنے جاہل ہیں کہ ان کو پتہ ہی نہیں کہ فوٹو کاپی کتنی دیر میں ہوتی ہے، اور جیسے پاکستان کے سارے لوگ دیہاتی اور جاہل ہیں، جن کو کبھی کسی بڑے ادارے میں کام کا تجربہ نہیں جہاں سینکڑوں صفحات روزانہ کی بنیاد پر فوٹو کاپی کیے جاتے ہیں)۔ تو جناب یہ حال ہے ہماری نااہل جعلی عدلیہ کا۔ ان کے بہانے دیکھیے آپ! یہ فوٹو کاپیاں تو ایک ہفتہ پہلے ہو جانی چاہیے تھیں، پھر دن کے 12:30 سے 4:30 تک فوٹو کاپیاں ہی ہوتی رہیں گی؟
یہ کیوں نہیں کہتے کہ بقول کیپٹن صفدر یہ دیکھنا ہے کہ یہ فیصلہ کسی جج نےلکھا ہے یا کسی (فوجی) جنرل نے؟
میرے مطابق ابھی مک مکا چل رہا ہے۔
نواز لیگ اور فوجی مافیا کے مابین بات چیت چل رہی ہے۔ بلیک میلنگ ہو رہی ہے۔ دونوں فریقین کے پاس ترپ کے پتے ہیں۔ اگر فیصلہ نواز کے خلاف آئے گا تو کیا نواز چپ رہے گا؟ کیا وہ وردی مافیا کی پولیں نہیں کھولے گا؟ ایک ٹریلر ممبئی حملوں کے حوالے سے وہ دے چکا ہے۔
تو میرے عزیز ہموطنو۔ یہ ہے آپ کا ملک، جہاں چور پولیس کی آنکھ مچولی چل رہی ہے۔ فیصلہ نواز کے حق میں آئے یا خلاف، وہ بہرحال متنازعہ ہوگا۔
احتساب عدالت کی آج کی آنکھ مچولی نے بار بار تاخیر کر کے اور اپنی مشکوک حرکات سے اس فیصلے کو سنائے جانے سے پہلے ہی متنازعہ بنادیا ہے۔