جسٹس طارق جہانگیری ڈگری کیس،عدالت کا ایف آئی اے کو انکوائری روکنے کا حکم

tarii11.jpg


اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری کے معاملے پر سندھ ہائیکورٹ نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو انکوائری کرنے سے روک دیا گیا۔

ذرائع کے مطابق جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری کے حوالے سے کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر عامر نواز وڑائچ کی درخواست پر سندھ ہائیکورٹ نے تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے ایف آئی اے کو اس معاملے کی انکوائری سے روکنے کا کہہ دیا ہے۔

سندھ ہائیکورٹ نے آج کیس کی سماعت کے دوران پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو ہدایت جاری کی ہے کہ کراچی یونیورسٹی کی ان فیئر مینز کمیٹی کے فیصلے کی بنیاد پر خبر نشر نہیں ہونی چاہیے۔ کراچی یونیورسٹی سینڈیکیٹ اور ان فیئر مینز کمیٹی کی طرف سے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری کو غیرموثر قرار دیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار عامر نواز وڑائچ نے موقف اختیار کیا کہ ایف آئی اے سندھ ہائیکورٹ کی طرف سے حکم جاری ہونے کے باوجود انکوائری کر رہی ہے۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف اگر کوئی شکایت ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل کا فورم موجود ہے اس لیے ایف آئی اے کو اس معاملے کی انکوائری جاری نہیں رکھنی چاہیے۔

عامر نواز وڑائچ کا کہنا تھا کہ 5 ستمبر 2024ء سے سندھ ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کو کسی بھی کارروائی سے روک رکھا ہے اور جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف یہ مہم اس لیے چلائی جا رہی ہے کیونکہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھنے والے ججز میں شامل تھے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو جسٹس طارق محمود جہانگیری ودیگر ججز نے خط لکھ کر عدالت کے معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت بارے آگاہ کیا تھا۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے افسران نے انکوائری اپنے مینڈیٹ سے ہٹ کر کی ہے جو کہ معزز جج کو بدنام کرنے کی کوشش ہے کیونکہ صرف سپریم جوڈیشل کمیشن انکوائری کر سکتا ہے۔ یونیورسٹی سینڈیکیٹ اور ان فیئر مینز کو بھی ججز ڈگری کیخلاف انکوائری کا اختیار نہیں ہے، ان کے خلاف انکوائری عدلیہ پر حملے کے مترادف ہے، یہ مہم روکی نہ گئی تو عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑ جائے گی۔

واضح رہے کہ متعدد صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے مبینہ طور پر سندھ ٹرانسپیرنسی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2016ء کے تحت معلومات حاصل کرنے والی درخواست کے جواب میں جاری کیا گیا ایک خط شیئر کیا ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ 1991ء میں طارق محمود نے انرولمنٹ نمبر 5968 کے تحت بیچلر آف لاز (ایل ایل بی) کی ڈگری حاصل نہیں کی۔

خط میں ڈگری کو بوگس قرار نہیں دیا گیا بلکہ غلط قرار دیا گیا ہے اور اس پر وضاحت کی گئی ہے کہ پوری ڈگری پروگرام کے لیے یونیورسٹی کی طرف سے ایک انرولمنٹ نمبر جاری کیا جاتا ہے، یعنی کسی طالبعلم کا دو انرولمنٹ نمبر رکھنا ناممکن ہے۔ طارق محمود نے ابتدائی طور پر 1988ء میںان رولمنٹ نمبر 7124 کے تحت ایل ایل بی پارٹ ون کی تعلیم کے لیے داخلہ لیا تھا۔
 

ranaji

(50k+ posts) بابائے فورم
قاضئ فراڈ عیسئی ایکسٹنشن لے کر مافیا کا پالتو وفادار بن کر سارے ایماندار ججز کو فکس کردے گا یہ فراڈ عیسئی مرنے سے پہلے جسٹس منیر اور جسٹس قیوم دونوں کی بدروحیں اپنے ساتھ ملاکر عدلیہ کو پوری طرح گھوڑے لگوا کر ہی مرے گا ورنہ اس سے پہلے اگر موت کا فرشتہ آگیا تو یہ فراڈ عیسئی ملک الموت کو بھی بلیک میل کرکے اس سے بھی اپنی ایکسٹنشن لے کر اپنا مشن پورا کرے گا
 

Nebula

Minister (2k+ posts)
When faiz Essa or other chief not gave any way out then public will take things on their own hands.
 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)
The court is unnecessary showing leniency to FIA and Karachi University syndicate and Uni VC. All thee people should be called in question that how dare they canceled the degree of a sitting judge after 35 years??