آصف جیلانی
جون کی 3 تاریخ کو تقسیم ہند کے اُس منصوبے کے تاریخی اعلان کو 65 سال پورے ہوگئے جس کے تحت 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا اور 15 اگست 1947ء کو ہندوستان کو آزادی حاصل ہوئی۔ 3 جون 1947ء کو برطانوی ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے آل انڈیا ریڈیو پر تقسیم ہند کے اس منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ اسی رات لندن میں بی بی سی کی ہوم سروس میں لارڈمائونٹ بیٹن کی تقریر کا ریکارڈ نشر کیا گیا۔ اس تقریر کے تعارف میں برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ ایٹلی نے کہا کہ برطانیہ جس کے دورِ حکمرانی میں ہندوستان صدیوں کی چپقلش اور تفریق کے بعد پہلی بار متحد ہوا تھا، یہ چاہتا تھا کہ یہ اتحاد برقرار رہے، لیکن ہندوستان کے سیاسی رہنماؤں کے درمیان متحدہ ہندوستان کو اقتدار کی منتقلی کے بارے میں کوئی اتفاقِ رائے نہیں ہوسکا، لہٰذا ہندوستان کی تقسیم ناگزیر متبادل ہے۔ یہ سب اتنی سرعت سے ہوا کہ اُس زمانے میں بہت سے لوگوں کو یقین نہیں آتا تھاکہ یہ حقیقت ہے یا خواب۔ اس سرعت اور عجلت کے پسِ پشت کئی عوامل کارفرما تھے۔ سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ دوسری عالم گیر جنگ کے بعد برطانیہ کی معیشت کھوکھلی ہوچکی تھی جس کی وجہ سے اُس کے لیے ہندوستان پر اپنی حکمرانی برقرار رکھنے کے لیے اپنی فوج کے بھاری اخراجات برداشت کرنے ممکن نہیں رہے تھے۔ ایک طرف پاکستان کا مطالبہ زور پکڑ رہا تھا اور دوسری جانب کانگریس اقتدار کے حصول کے لیے بے تاب تھی۔ اسی کے ساتھ ہندو مسلم کشیدگی پُرتشدد فسادات کی صورت اختیار کررہی تھی اور پورے برصغیر میں خانہ جنگی کے مہیب سائے منڈلا رہے تھے۔ برطانوی فوج اور پولیس امن و امان برقرار رکھنے میں بے بس نظر آتی تھیں۔ عوام پر یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ہندوستان پر فوج کا بھرپور کنٹرول ہے، فلیگ مارچ کی طرح فوجیوں کی ایک ٹرین کلکتہ اور پشاور کے درمیان چلائی جاتی تھی۔ اسی دوران فروری 1946ء میں بمبئی میں رائل انڈین نیوی کے جوانوں کی بغاوت نے برطانوی حکومت کے ہوش اڑا دیے تھے۔ یہ بغاوت آگ کی مانند کراچی اور کلکتہ میں بحریہ کے جوانوں میں بھی پھیل گئی، اور تینوں بندرگاہوں میں لنگرانداز 78 جہاز اور بحری فوج کی تنصیبات میں 20 ہزار سے زیادہ بحریہ کے جوان اور ملازمین اس بغاوت میں شامل تھے۔ علاوہ ازیں اُس زمانے میں امریکا کا بھی اپنے طویل المیعاد مفادات کی خاطر برطانوی حکومت پر دباؤ تھا کہ برصغیر کو آزادی دی جائے۔ ان وجوہات کی بناء پر برطانیہ کی لیبر حکومت کی کوشش تھی کہ جلد از جلد ہندوستان سے نجات حاصل کی جائے۔ 20 فروری 1947ء کو جب وزیراعظم ایٹلی نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی ہندوستان کے آخری وائسرائے کے عہدے پر تقرری کا اعلان کیا تو اُس وقت انہوں نے واضح کیا تھا کہ برطانوی حکومت جون 1948ء تک کیبنٹ مشن پلان کے تحت متحدہ ہندوستان کو اقتدار منتقل کردے گی۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے24 مارچ 1947ء کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور اس کے فوراً بعد انہوں نے اقتدار کی منتقلی کے بارے میں ہندوستان کے سیاسی رہنمائوں سے مذاکرات کا جو سلسلہ شروع کیا اس میں بھی ان کی بھرپور کوشش یہی تھی کہ ہندوستان کو متحد رکھا جائے اور پاکستان کا مطالبہ کسی صورت میں تسلیم نہ کیا جائے۔ پچھلے چند برسوں کے دوران جو خفیہ دستاویزات، رپورٹس اور کاغذات منظرعام پر آئے ہیں ان سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ وزیراعظم ایٹلی نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان کی قسمت کے فیصلے کے سلسلے میں نہایت وسیع اختیارات دیے تھے۔ برطانوی کابینہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اگر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کیبنٹ مشن پلان کے تحت ہندوستان میں وحدانی حکومت کے قیام اور دستور ساز اسمبلی کی تشکیل پر سیاسی اتفاقِ رائے حاصل نہ کرسکیں تو پھر یکم اکتوبر 1947ء کو وہ برطانوی کابینہ کو سفارش کریں کہ جون 1948ء تک اقتدار کی منتقلی کے بارے میں کیا اقدامات کیے جائیں۔ وائسرائے کے ان وسیع اختیارات کے بارے میں ہندوستان کے کسی رہنما کو علم نہیں تھا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے دلّی پہنچتے ہی اپنے عملہ کے ایک اعلیٰ ہندوستانی عملدار رائے بہادر وی پی مینن کو ہدایت کی تھی کہ وہ تین الگ منصوبے تیار کریں۔ ایک منصوبہ متحدہ ہندوستان کو کیبنٹ مشن پلان کے تحت اقتدار کی منتقلی کا تیار کیا گیا۔ نام اس کا ’’یونین‘‘ پلان تھا۔ دوسرا ’’بلقان پلان‘‘ تھا جس کے تحت یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ اقتدار الگ الگ ہندوستان کے صوبوں کو منتقل کیا جائے اور یہ ان پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ کس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ اس پلان کا بھی مقصد پاکستان کے مطالبے کو رد کرنا تھا۔ تیسرا منصوبہ البتہ تقسیم ہند کا ’’پارٹیشن پلان‘‘ تھا۔ لیکن ہندوستان کے سیاسی رہنمائوں سے مذاکرات میں لارڈ مائونٹ بیٹن کی بھرپور کوشش یہی تھی کہ ’’یونین پلان‘‘ منظور کرایا جائے۔ پاکستان کے مطالبے کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کھلم کھلا ’’پاگل پن‘‘ قرار دیتے تھے اور چاہتے تھے کہ ہندوستان ایک مضبوط مرکز کے تحت متحد رہے۔ اقتدار ایک متحد ہندوستان کو منتقل کرنے کے برطانوی حکومت کے مؤقف کے پس پشت کئی عوامل تھے جن میں سب سے اہم عنصر شمال کی طرف سے سوویت یونین کا خطرہ تھا۔ برطانیہ کی رائے تھی کہ ایک مضبوط اور متحد ہندوستان ہی اس خطرے کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ پھر برطانیہ کی خواہش تھی کہ ہندوستان دولتِ مشترکہ میں برقرار رہے تاکہ نہ صرف برصغیر میں برطانیہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات کا تحفظ کیا جاسکے بلکہ ہندوستان کے راستے آسٹریلیا کا دفاع بھی مضبوط بنایا جاسکے۔ دلّی آنے کے اٹھارہ دن بعد ہی لارڈ مائونٹ بیٹن پر یہ بات آشکارا ہوگئی کہ پاکستان کے مطالبے میں مسلم لیگ اور اس کے قائداعظم ایسی چٹان کی طرح اٹل ہیں جس کو کسی صورت میں نہیں ہلایا جاسکتا۔11اپریل 1947ء کو لارڈ مائونٹ بیٹن کی قائداعظم سے ملاقات فیصلہ کن تھی۔ اس ملاقات میں انہوں نے قائداعظم کو پاکستان کا مطالبہ ترک کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے اپنے تمام دلائل اور حربے استعمال کیے، اور آخرکار یہ دھمکی دی کہ اگر انہوں نے کیبنٹ مشن پلان تسلیم نہ کیا اور پاکستان کا مطالبہ ترک نہ کیا تو برطانیہ یکے بعد دیگرے الگ الگ صوبوں کو اقتدار منتقل کردے گا۔ یہ اشارہ ’’بلقان پلان‘‘ کی طرف تھا۔ اس کے جواب میں قائداعظم نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر پاکستان کا مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا اور اقتدار برصغیر میں صرف دو مملکتوں میں منتقل نہ کیا گیا تو پھر مسلم لیگ ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوجائے گی۔ پاکستان کے حصول کے لیے مسلح جدوجہد کی یہ وارننگ قائداعظم نے پہلی بار نہایت واضح الفاظ میں خود وائسرائے کو دی تھی۔ اسی روز لارڈ مائونٹ بیٹن پر یہ حقیقت واضح ہوگئی تھی کہ پاکستان کے قیام کے علاوہ ہندوستان کے سیاسی بحران کا کوئی حل نہیں ہے، اور اسی روز انہوں نے برطانوی حکومت کو مطلع کیا کہ وہ متحدہ ہندوستان کو اقتدار کی منتقلی کے سلسلے میں کوئی سمجھوتا حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، اور تقسیم ہند ہی واحد حل ہے۔ 17 اپریل 1947ء کو کانگریس کے صدر اچاریہ کرپلانی نے لارڈ مائونٹ بیٹن کو مطلع کیا کہ کانگریس تقسیم ہند پر اس شرط پر راضی ہوجائے گی کہ اسی بنیاد پر پنجاب اور بنگال کو بھی تقسیم کیا جائے۔ کانگریس کا یہ فیصلہ زیادہ تعجب خیز نہیں تھا کیونکہ لارڈ مائونٹ بیٹن کی دلّی آمد سے ایک سال پہلے مارچ 1946ء میں کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے باقاعدہ ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں پنجاب اور بنگال کو مسلم اور غیر مسلم اکثریت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ کیبنٹ مشن کے سربراہ برطانوی وزیر سر اسٹیفورڈ کرپس کو بھی پنڈت نہرو نے یہ عندیہ دیا تھا کہ کانگریس پاکستان کا مطالبہ صرف اسی صورت میں ماننے پر آمادہ ہوسکتی ہے اگر پنجاب اور بنگال کا بھی بٹوارہ ہو۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے بھی قائداعظم سے بعد کی ملاقاتوں میں پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے سلسلے میں یہ استدلال اختیار کیا کہ جس بنیاد پر وہ پاکستان کا مطالبہ کررہے ہیں اور ہندوستان کی تقسیم چاہتے ہیں اسی بنیاد پر لازمی ہے کہ پنجاب اور بنگال کو بھی تقسیم کیا جائے۔ اسی کے ساتھ لارڈ مائونٹ بیٹن نے آسام اور صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کی شرط رکھی۔ آخرکار یکم مئی کو لارڈ مائونٹ بیٹن نے برطانوی حکومت کو تقسیم ہند کی باقاعدہ سفارش پیش کی، جس کی بنیادپر برطانوی کابینہ نے 23 مئی 1947ء کو تقسیم ہند کے منصوبے کی منظوری دی۔ 2 جون کو لارڈ مائونٹ بیٹن نے سیاسی رہنمائوں کا اجلاس طلب کیا جس میں مسلم لیگ کی طرف سے قائداعظم، لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر شریک ہوئے، اور کانگریس کی طرف سے پنڈت نہرو، سردار پٹیل اور اچاریہ کرپلانی کے ساتھ سکھوں کے نمائندے سردار بلدیو سنگھ شامل ہوئے۔ دو گھنٹے تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں لارڈ مائونٹ بیٹن نے تقسیم ہند کا منصوبہ پیش کیا جس میں پنجاب اور بنگال کے بٹوارے کے ساتھ آسام اور سرحد میں ریفرنڈم کی تجویز شامل تھی۔ اس اجلاس میں لارڈ مائونٹ بیٹن نے تمام سیاسی رہنمائوں سے کہا کہ وہ اس منصوبے کا مسودہ اپنے ساتھ لے جائیں اور اپنی اپنی جماعتوں سے صلاح مشورہ کرکے نصف شب تک اپنے ردعمل سے مطلع کریں۔لارڈ مائونٹ بیٹن کی یہ غیر معمولی عجلت بہت سے لوگوں کے لیے باعث ِحیرت تھی، لیکن درحقیقت لارڈ مائونٹ بیٹن جلد از جلد برطانیہ واپس جاکر برطانوی افواج کے سربراہ فرسٹ سی لارڈ کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے سخت بے تاب تھے۔ 1914ء میں اس عہدے پر اُن کے والد فائز تھے، لیکن وہ چونکہ جرمن نژاد تھے اور ملک میں جرمنی کے خلاف شدید ردعمل تھا لہٰذا شاہ جارج پنجم نے انہیں نہایت ہتک آمیز انداز سے اس عہدے سے برطرف کردیا تھا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن اپنے والد کی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے اس عہدے پر فائز ہونا چاہتے تھے اور اسی وجہ سے وہ برصغیر کی آزادی کے لیے وزیراعظم ایٹلی کی مقرر کردہ تاریخ جون 1948ء سے ایک سال قبل تقسیم ہند کا فیصلہ کرنا چاہتے تھے۔ غرض دوسرے دن 3 جون کو سیاسی رہنمائوں کے اجلاس میں لارڈ مائونٹ بیٹن نے تقسیم ہند کے منصوبے پر عمومی اتفاقِ رائے کا اعلان کیا اور اسی شام آل انڈیا ریڈیو پر تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان کیا، جس کے بعد پنڈت نہرو، قائداعظم اور سردار بلدیو سنگھ نے تقریریں کیں۔ پنڈت نہرو نے اپنی تقریر میں کہا کہ نسلوں سے ہم نے ایک آزاد اور متحدہ ہندوستان کا خواب دیکھا ہے اور اس کے لیے جدوجہد کی ہے۔ اس منصوبے کے تحت ہندوستان کے بعض علاقے اس سے جدا ہوجائیں گے جس کے بارے میں سوچنا بھی ہمارے لیے تکلیف دہ ہے، لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ صحیح فیصلہ ہے۔ قائداعظم نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ یہ منصوبہ ہمارے نقطہ نگاہ سے بعض پہلوئوں پر پورا نہیں اترتا اور ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم اس سے مطمئن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 9 جون کو مسلم لیگ کی کونسل اس منصوبے پر غور کرے گی اور حتمی فیصلہ کرے گی، لیکن دلّی میں مسلم لیگ کے رہنمائوں کی رائے میں یہ منصوبہ قابلِ قبول ہے۔ قائداعظم نے اپنی تقریر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے پر ختم کی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ یہ نعرہ آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوا۔ یوں پورے 65 سال قبل 3 جون کو ہندوستان کی تقسیم کے منصوبے کا تاریخی اعلان ہوا جس نے بر صغیر کا سیاسی نقشہ یکسر بدل دیا، اور اس سرزمین پر مسلمانوں کا اپنا ایک الگ وطن
معرضِ وجود میں آیا…گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را۔
معرضِ وجود میں آیا…گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را۔
http://www.jasarat.com/epaper/index.php?page=03&date=2012-06-03