Amal
Chief Minister (5k+ posts)

مجھے پروفیسر فیض اللہ خان کے بیٹے سے اپنی ملاقات کبھی نہیں بھول پائے گی، جو ایس ای کالج بہاولپور میں ایف ایس سی کے سپیشل سیکشن ڈی میں میرا کلاس فیلو تھا، اور اس کے ابو ہمارے کیمسٹری کے ٹیچر تھے۔ مال روڈ پر ہماری ملاقات ہوئی اور میں اسے تب فاطمہ جناح روڈپر واقع نوائے وقت کے دفتر لے آیا۔ اس نے بتا یا کہ وہ بہت دکھی ہے، واپڈا ہاؤس میں جاب کر تا ہے اور جاب کے دوران پی ایچ ڈی کرنے امریکہ چلا گیا، جہاں سے اس نے آبدوزوں کی جدید ٹیکنالوجی پر پی ایچ ڈی کی اور اب شدید ڈپریشن میں تھا کہ واپسی پر اس کی پروموشن کرنے کی بجائے اسے سٹور کا انچارج بنادیا گیا ہے۔
میں نے اس سے بڑا ڈرتے ڈرتے ہوئے پوچھا کہ "جہاں تک میری معلومات ہیں، واپڈا والوں سے تو اپنے میٹر نہیں بنتے وہ سیّد بھائیز اور پیل والوں سے بنے بنائے لیتے ہیں، آپ کو کس اندر کے آدمی نے بتایا تھا کہ عنقریب لاہور میں واپڈا سمندر کا آغاز کر کے اس میں آبدوزیں بھی چلائے گا اور آپ ہی کو ان کی مرمت اور ان میں جدید ٹیکنالوجی متعارف کرنے کا اعزاز بخشا جائے گا؟"
"واپڈا اور آب دوز؟" اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور پوچھا، "آپ پہلے آدمی ہیں جو واپڈا کو برا بھلا کہنے کی بجائے بڑی معصومیت سے تیروں کا رخ میری طرف کر رہے ہیں۔"
میں نے قریباً ہنستے ہوئے پوچھا "آپ کے پاس کوئی ایسا سرکاری خط ریکارڈ میں تو ضرور ہو گا کہ جس میں واپڈا نے آپ سے ریکوئسٹ کی ہو کہ جائیں جا کر آبدوزوں پر پی ایچ ڈی کر کے آئیں، ہم اس حوالے سے قحط الرجال کا شکار ہیں اور بجلی کی ترسیل اور انتظامات کے مسائل کا مکمل حل آبدوزوں کی ٹیکنالوجی جاننے اور ان کی مرمت کرنے میں ہی پوشیدہ ہے۔ آپ کی واپسی پر ایک ا علا ترین انتظامی عہدہ آپ کا منتظر ہو گا۔"
"آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟" اس نے نہ سمجھنے والی نظروں سے مجھے دیکھا، میں نے چائے کے ساتھ کچھ اور بسکٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا اوّل تو یہ پی ایچ ڈی کرنا بنتی ہی نہیں تھی، کر لی تھی تو وہاں سے واپسی کی کیا تک تھی اور آہی گئے ہیں تو کراچی رک جاتے، وہاں سمندر ہے، کبھی نہ کبھی تو کوئی آبدوز خراب ہوتی اور آپ کی ضرورت محسوس ہوتی، آپ کو مشورے کے لیے بھی بلا لیا جاتا؟ یہاں لاہور میں اور وہ بھی مال روڈ پر واقع واپڈا ہیڈ آفس میں کوئی آپ کی ہمت افزائی اور حوصلہ بڑھائی کے لیے آبدوز کہاں سے لائے، آپ کی پی ایچ ڈی کا واپڈا ہی کیا کوئی اور بھی کیا کرے؟
یہ حیران کن منظر میں نے کئی ممالک میں دیکھا، نوٹ کیا، مگران عید کی چھٹیوں میں پہلی بار اس پر لکھنے اور کسی ایسے نتیجے تک پہنچنے کا موقع ملا جس کا ہمارے نوجوانوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ مجھے مختلف اوقات میں قطر، ملائیشیا، سعودی عرب، مصر اور ترکی جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ وزٹ سیر سپاٹے کے لیے نہیں تھے، اس لیے ملاقاتوں اور مشاہدات کے نوٹس لیتا رہا۔میں ہر جگہ اس بات کو سمجھنے اور اس راز کی ٹوہ میں لگا رہا کہ ان ممالک میں بھارت کے نوجوان کیسے نوکریاں پاتے ہیں، کیسے ترقی کرتے ہیں؟ یہ ایم اے ایم فل، پی ایچ ڈی والی بھیڑ چال ان کے ہاں ہماری طرح نہیں ہے،وہ بہت ہی سمجھداری سے ٹیکنیکل مضامین کی طرف متوجہ ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک کے اعلیٰ تعلیمی ادارو ں کی زیادہ کمائی بیرونی طالب علموں کی فیسوں سے جڑی ہے۔ ہمارے اکثر بچے واپس آکر بھی اکثربے روز گار کے بے روزگار ہی رہتے ہیں، ظاہر ہے جو وہ پڑھ کر آتے ہیں، ان کا یہاں کے ماحول اور ضرورت سے کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ پی ایچ ڈی عام طور پر اعلیٰ ترین ڈگری مانی جاتی ہے مگر صرف پڑھانے اور ریسرچ کروانے کے لیے۔ پکی سرکاری نوکریوں میں ایک سکیل آگے جانے والے ٹول سے زیادہ نہ تو کوئی ان کا استعمال ہے اور نہ ہی تعلق واسطہ، اسی لیے ہماری یونیورسٹیا ں غیر متعلق موضوعات پر پی ایچ ڈی کرنے والوں سے بھری پڑی ہیں اور مجال ہے اس علم کا کوئی رتّی برابر فائدہ اس ملک قوم اور معاشرے کو ہو جائے۔ مثلاََ اب غالب کی پنشن پر آپ چار بندوں کو پی ایچ ڈی کروالیں۔
ریسرچ کروانے والے ایڈوائزر کو جرمانہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ بھائی صاحب آپ نے ایچ ای سی سے لمبا مال کما لیا، سپروائزر ہونے کا اعزاز بھی کما اور پالیا مگر یہ تو بتایئے کہ کہیں باڈی آف دا نالج کو تو کوئی فائد ہ نہیں ہو نے دیا ناں جس کے لیے یہ پی ایچ ڈی کروائی تھی ؟ یہ اعلیٰ ٹرین ڈگری کر کے بھی وہ ملک اور اعلیٰ تعلیم کے کسی کام کا نہیں۔ ایسے میں پی ایچ ڈی اور اسی طرح کے ناموں والے ایم اے کرنے والے کیا بیچیں گے۔ وہ اپنی ڈگری اور ریسرچ تک کو جسٹیفائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے جبکہ ان کو روزگار بہترین سے کم نہیں چاہیے ہوتا، ملک چھوڑیں کوئی ڈھنگ کی کمپنی بھی انہیں کوئی آفر نہیں کر سکتی کہ ان کا اور ان کی ڈگری کا سرے سے کوئی استعمال ہی نہیں ہوتا جو ان کے یا کسی اور کے کام ہی آسکے
غور سے دیکھیے انڈیا کے لوگ کیا کر رہے ہیں۔ انڈیا والے آپ کو سو بار اچھے نہ لگیں وہ وقت سے پہلے سوچنے لگے ہیں۔ یہ بات سمجھ نہ آئے تو ان کی تازہ ترین فلم ٹیوب لائیٹ دیکھ لیں، ہمارے ہاں کوئی انڈیا سے دوستی کا سوچ بھی نہیں سکتا چاہے وہ دل سے اس کا کتنا ہی قائل اور اسے ملک وقوم کے لیے بہتر سمجھتا ہو۔ انہوں نے چین سے حالت جنگ میں ہونے کے باوجود چین سے دوستی پر فلم بنا ڈالی، وہ بھی سلمان خاں سٹار، سوچ دیکھیے، اس کی ٹائمنگ پر غور کیجیے۔ اسی طرح زندگی میں ترقی کرنی ہے، کارپوریٹ میں اپنے کام سے نام اورزیادہ پیسہ کمانا ہے تو غور سے دیکھیے انڈیا کے لوگ کیا کر رہے ہیں،وہ کئی برسوں سے اس نسخے کو اپنی جانوں سے لگائے ایمان کی طرح مان رہے ہیں اور عمل کررہے ہیں۔ کسی عر ب ریاست میں چلے جائیں، دوبئی، کویت، قطر،وہاں ہر ہوٹل، ہر دکان اور ہر کارخانے یہاں تک کہ کاروں میں گیس گھر گھر پہنچانے والوں میں، ملیالم کے لوگ نظر آئیں گے۔ ساؤتھ کے یہ کالے،
سانولے ینگ لڑکے سکولنگ مکمل کرتے ہی آجاتے ہیں اور آنے سے قبل اس بات کو یقینی بنا کر آتے ہیں کہ وہ آسانی سے انگلش سن، سمجھ اور بول سکیں۔ انہیں آتے ہی دو سے اڑھائی ہزار کی جاب مل جاتی ہے، جسے وہ ہنسی خوشی کر لیتے ہیں۔ ان کی کونسلنگ ایسی عمدہ اور عملی کی جاتی ہیں کہ اگلے چھ ماہ میں وہ عربی روانی سے بولنے لگ جاتے ہیں اور پہلے سال کے اندر اپنا ڈرائیونگ لائسنس بنوا لیتے ہیں اور یاد رکھیے ان کی عمر اس وقت ہوتی ہے بیس سے بائیس برس۔ ہمارا بچہ اس عمر میں کالج سے یو نیورسٹی جانے کے خواب دیکھ رہا ہوتا ہے اور عملاََکچھ نہیں کر رہا ہوتا۔
یہ ہندوستانی لڑکے عام طور پر ایک دوسرے کے ساتھ کسی تعصب کے بنا تعاون کرنے کے عادی ہیں۔ دوحہ میں اپنے عزیز دوست خالد بھٹی صاحب، جو نوری نت کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں، کی معیت میں ادریس انور صاحب کی کمپنی میں آتے جاتے، شیر محمد صاحب کے کاروباری دوستوں سے ملتے، اپنے ہوٹل میں قیام کے دوران ملیالم، تامل ناڈو اور ساؤتھ کے جتنے لوگوں سے مجھے ملنے کا اتفاق ہوا اس نے مجھے تجسس میں ڈال دیا۔ ہوٹل کی راہداریوں میں، استقبالیہ پر، لانڈری، شاپ ککنگ،انہیں جہاں موقع ملا ایڈجسٹ ہو گئے، اگلے برس وہ کسی نہ کسی کورس میں داخلہ لے چکے ہوتے ہیں۔ بنیادی کورسز۔۔۔یہ ڈگری کورسز نہیں ہوتے، سکل بیسڈ ہوتے ہیں، سافٹ سکلز، کمیونی کیشنز سکلز آفس مینجمنٹ، ایٹی چیوڈ ٹریننگ اور ساتھ ساتھ اس شعبے میں جس میں وہ کام کر رہے ہو تے ہیں، اپنی صلاحیت کو مسلسل بڑھاتے ہیں،
دودوکام تو ایوریج لڑکے کرتے ہیں۔ یہ ہندوستانی لڑکے عا م طور پر ایک دوسرے کے ساتھ کسی تعصب کے بنا تعاون کرنے کے عادی ہیں ایک دوسرے کا حامی اور مددگار ہوتے ہیں۔ ان کے مزاج میں نرمی،، تابعداری اور سخت محنت کی عادت شامل ہے۔ عام طور پر یہ دھوکہ نہیں دیتے، مالی طور پر یا جذباتی طور پر آپ کا ملازم آپ کو تکلیف نہ دے تو کسی کو بھی نہیں برا لگتا۔ سال سے پہلے ہی اس کو ترقی بھی ملتی ہے،کوئی بھی ملازم آپ کا عزیز ہو یا کسی اور قوم اور برادری کا اگر آپ کو اس پر یقین ہے کہ وہ آپ کو چیٹ نہیں کرتا،دھوکہ نہیں دیتا، آپ کے اعتبار اور اعتماد پر پورا اترتا ہے اور آپ کی باتیں کہیں اور جا کر نہیں کرتا، نگاہ اور نیت کا بھی اچھا ہے تو اس کا مذہب، رنگ اور شکل بالکل ہی میٹر نہیں کرتا، اس کا ساتھ ہمیشہ لمبا چلتا ہے۔یہ گُر اور راز اُن سب نے پا لیا ہے۔ عملاََ صورت یہ ہے کہ تمام گھروں میں کام کرنے والی لڑکیاں فلپائن کی ہیں،چھوٹے کام کرنے کا بہت بڑا شیئر بنگلہ دیش کے لوگوں نے لے لیا ہے، وائیٹ کالر جاب کے لیے ہر کسی کو تین چار سال کا تجربہ درکار ہوتا ہے۔جب ہمارا ایم اے پاس جاکر وہاں نوکری کی درخواست دیتا ہے
تو پہلا سوال ہی تجربہ کا ہوتا ہے جو زیرو ہے۔ پھر وہ وہاں کے ڈرائیونگ لائسنس کا پوچھتے ہیں جس کا ابھی سوچا ہی نہیں ہوتا،ہمارے لڑکے کی اوسط عمر اس وقت 27 برس ہوتی ہے۔اس کو تنخواہ ملے گی قریباََ دو ہزار ریال اور ہندوستانی کو سات سے آٹھ ہزار۔
میری خوش قسمتی یہ رہی ہے کہ اخباری ادارہ ہو یا کاروباری، اعلیٰ تعلیمی ادارہ ہو یا پبلک سروس کمیشن کے انٹرویوز گزشتہ دو دہائیوں سے افراد کار کی سلیکشن اور انتخاب کا حصہ بن رہا ہوں۔ پہلی بات جو عام طور پر ہر جگہ مشترک ہے وہ یہ ہے کہ امیدوار کا سی وی ہی غلط اورجھوٹی معلومات لیے ہوتا ہے۔ پوچھا جائے تو علم ہوتا ہے کہ خود نہیں بنایا تھا، خود نہیں بنایاکسی اور سے بنوایا۔ دونوں صورتوں میں محنت کرنے کی بجائے فارمیٹ کہیں سے اٹھایاا اور کاپی پیسٹ کرلیا۔ نام بدلنے سے سی وی نہیں بنتا، یہ آپ کا اصلی چہرہ ہوتا ہے، اسے تو پوری محنت اور توجہ سے خود بنانا چاہیے۔ کتنے واقعات کا تو میں خود گواہ ہوں کہ تعارف کروایا تو ابو جی کا نام الطاف احمد بتا یا، سی وی پر لکھا ہوا تھا جمال خان۔ پوچھا کہ اصل ابا کون ہے، شرمندگی سے سر نہیں اٹھتا جب بتانا پڑتا ہے کہ کسی کے سی وی پر نام اور پتہ بدل کر بھیج دیا تھا۔ دوحا کے کاروباری کمیونٹی کے دوستوں نے بتایا کہ ایسا سی وی دیکھ کر وہ بجا طور پر سوچتے ہیں
کہ اس لڑکے کی سیریس نیس کا عالم یہ ہے کہ اپنا سی وی تک بنانے میں وقت صرف نہیں کیا، اسے دوبارہ ڈھنگ سے پڑھا تک نہیں،اس کا لیٹسٹ فارمیٹ تک بنانا نہیں آتا،اسی بے دھیانی میں اپنے باپ کا نام تک بدل دیا، اس لڑکے کو کیسے کوئی اہم اور وائیٹ کالر جاب یا ٹاسک دینے کا رسک لیا جا سکتا ہے؟
دوسری بات یہ ہے کہ باہر کی دنیا میں ڈگری کو بڑا سیریس لیا جاتا ہے، اسی لیے اس کی تنخواہ اور پروٹوکول اچھا اور مختلف ہوتا ہے، ہمارے بچے نے جس مضمون میں ڈگری لی ہوتی ہے اسی کے بارے میں لاعلم ہوتے ہیں۔ انٹرویو میں پوچھے گئے سوال کاعام جواب ہوتا ہے پڑھے کافی عرصہ ہوگیا، اب تو کچھ یاد نہیں، اور حیران کن بات یہ ہوتی ہے کہ یہ عرصہ ایک آدھ سال ہی ہوتا ہے۔ اس مضمون میں جدید ترین ریسرچ کیا ہورہی ہے، معلوم نہیں، کوئی نئی کتاب اور نیا مصنف جس نے اسی مضمون کی باڈی آف دی نالج میں کچھ نیا شامل کیا ہو،اضافہ کا باعث بنا ہو، جواب نفی میں ہوتا ہے اس مضمون میں زیادہ کام کس نے کیا، کس کی کتابیں پڑھ کر ڈگری مکمل کی، جوا ب ہوتا ہے کتاب ایشو تو کروائی تھی پوری طرح سے پڑھ نہیں سکا وقت ہی نہیں ملا،
اگر کچھ پڑھی بھی تھی تو مصنف کا نام کبھی نہیں دیکھا، عام طور پر تو استاد کے نوٹس ہی لے لیتے تھے۔ شاید ہی کوئی اتناسمجھدار ہو کہ انٹرویو کی تیاری کے لیے چند گھنٹے گوگل بابا کے ساتھ گزار کر آیا ہو، وہاں تو تازہ بہ تازہ معلومات ہی اتنی ہوتی ہیں کہ دل خوش ہو جاتا ہے۔
تیسری بات ہمارے بچوں کے انٹرویوز عام طور پر اچھے نہیں ہو پاتے،اس کی وجہ کوئی اور نہیں انٹرویو دینے والے خود ہوتے ہیں۔زبان کا مسئلہ سب سے بڑا مسئلہ ثابت ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ زیادہ افسوس ناک بات یہ ہوتی ہے کہ اپنی بات، زندگی کے مقاصد اور اپنی خوبیاں تک نہیں بتاپاتے۔یہاں تک کہ یہ تک نہیں کہہ سکتے کہ سر موقع ملا تو میری جلد سیکھنے کی چاہت دیکھ کر آپ حیران ہو جائیں گے، میں ایک قابل بھروسہ ورکر بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہوں۔جاب دینے والوں کا لازمی خیال یہی ہوتا ہے کہ یہ اتنا لتھارجک یا سست اور کاہل ہے کہ کوئی بھی ذمہ داری نبھانے میں اسے مشکل ہوگی،کسی ٹارگٹ کو کیسے پورا کرے گا، کوئی چیلنج قبول ہی کیسے کرے گا، ملٹی ایتھنک کلچر(مختلف مذاہب اور زبانوں کا کلچر) میں اس کا گزارا ہو بھی سکے کہ نہیں۔
دوسروں کی رائے اور مزاج کا ہی نہیں مذہب کابھی فرق ہو گا تو یہ کیسے ا یڈجسٹ ہوگا، مخلوط ماحول بھی کسی سے بات کر بھی سکے گایا نہیں کسی کو کام کیسے کہے گا، کیسے کروائے گا، انگریزی زبان کیسے بولتا ہے، ایکسپوژر کتنا ضروری اور کس قدر ا ہم ہو جائے گا اسی روز پتا چلتا ہے جب گنوانے کو کچھ نہیں ہوتا۔ ہمارے الزامی سیاسی کلچر سے جانے والے بچے سب سے زیادہ پریشان ہوتے ہیں جب وہ حسب عادت اپنے تعلیمی ادارے اور تعلیمی نظام کو اپنے بیوقعت تبصروں کی زد پر رکھ لیتے ہیں جو ان کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جب یہ سب ہو رہا ہوتا ہے انڈیاوالا لڑکا بھی وہاں انٹرویو کے لیے موجود ہوتا ہے۔ وہی 27 برس کی عمر اور پانچ برس کا تجربہ۔ اسے اسی وقت بڑی آسانی کے ساتھ سات آٹھ ہزار ریال مل جاتے ہیں، تجربہ، زبان، ڈرائیونگ لائسنس اور مینجمنٹ سے متعلق کورسز،یہ سب اس کے پلس پوائنٹس ہوتے ہیں۔
اسی لیے میں پورا زور دے کر کہتا ہوں کہ اپنے خاندان کی حالت بدلنی ہے توانٹر کے بعد ہر صورت باہر چلے جاؤ ،آٹھ دس سال لگاؤ، دل لگ جائے تو ٹھیک ہے ورنہ واپس آجانا۔ ملک اور معاشرے کو آپ کے جانے میں زیادہ فائدہ ہے نہ کہ یہاں بے روزگاری اور بے سمتی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا۔ اگر آپ خوش بخت ہیں تو جاتے ہوئے زندگی کا مقصد ساتھ لے کر جائیے، ڈٹ کرکام کیجیے،دوسروں کی خدمت کریں، اداروں میں اپنی جگہ بنائیے اور اپنے مزاج اور کردار کا ان کو گرویدہ بنا کر اپنے جیسا بنانے کی کوشش بھی کریں۔ آپ کا دین کا فہم اور سمجھ آپ کو ایکٹو رکھے گی اور ہمیشہ غلط کاموں اور لوگوں سے بچنے اور اچھا کرنے کی طرف جانے میں مدد کرے گی۔اسی لیے آپ کا اندر سے مضبوط ہونا، اپنے رب سے جڑا ہونا، آ نحضور ﷺ کی محبت سے سر شار ہونا اور ایک اچھی زندگی بسر کر کے اپنے والدین، اور پھر اپنی اولاد کے لیے آسودگی کا باعث بننا آپ کو ایک کارآمد انسان بنا دے گا،
براہ کرم وہاں جا کر کسی فرقے اور برادری کی نمائیدگی مت کیجیے گا۔ ایک پریکٹیکل مسلمان کے طور پر ایک صاف دل معاون، نرم مزاج اور مخلص انسان کی پہچان پائیے گا۔ پاکستان کی بدنامی اور رسوائی کا کبھی باعث مت بنئے گا،آپ کا قابل تعریف رویہ وطن عزیز کا اچھا اور عمدہ چہرہ پینٹ کرے گا۔
سعودی عرب میں دونوں مقدس مقامات کو چھوڑ کر ہندوستان سے آنے والے لوگ اس قدر زیادہ ہیں کہ حیرت ہوتی ہے، جدہ، دمام،ریاض ہر جگہ اور ہر پوزیشن پر، وہ صرف اپنے آپ سے بلکہ اپنے لوگوں سے آخری حد تک مخلص ہیں اور کام میں بھی۔ ان کی محنت اور لگن کی کی مثالیں دی جاتی ہیں،ان کی محنت اب جاپانیوں اور چینیوں کی طرح مشہور ہو رہی ہے۔ ا ن کی کارکردگی یورپ اور امریکہ میں بھی بہت اچھی جا رہی ہے اور وہاں وہ معمولی اور چھوٹی پوزیشنز پر نہیں ہیں۔ دنیا کے دس بڑے سی ای اوز کا تعلق بھارت سے ہے اور وہ ایک نئے ورک ایتھکس کی وجہ اور پہچان بن رہے ہیں
جبکہ خلیجی ملکوں میں ہمارے لوگوں کے لیے راستے اور ویزے بند ہو رہے ہیں کہ ہم نہ ان کی ضرورت سمجھ رہے ہیں اور نہ ہی اداروں کے مزاج کو سمجھنے کی اہمیت کو محسوس کر رہے ہیں، ہم ہر جگہ اپنی غلطی ماننے کی بجائے کبھی نظام کو برا بھلا کہنے بیٹھ جاتے ہیں اور کبھی میرٹ سسٹم کی خرابیاں گنوانے کی بے نتیجہ مہم چلانے لگتے ہیں، جبکہ اس دوران دنیا تھوڑا اور آگے بڑھ چکی ہو تی ہے اور ہم کیریئر کی دوڑ میں تھوڑا اور پیچھے۔
یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ ملک اور بیرون ملک نوکری کے لیے جانے والے مسترد کیے جانے کے بعد ہمارے اکثر نوجوان میرٹ کا بڑا رونا روتے ۔ بابا! میرٹ وہ نہیں ہوتا جو آپ کے ذہن میں ہے، میرٹ جاب دینے والے ادارے کی ضرورت اور مطلوبہ صلاحیت اور ہنر ہو تا ہے، اچھے رویّے اور عمدہ طرز عمل سے جڑا ہوتا ہے، آپ کے سیکھنے کی اہلیت اور اکٹھے کام کرنے اور دوسرے کو برداشت کرنے کی خوبی ہوتی ہے، اداروں میں صرف کسی ڈگری کے کم زیادہ نمبروں کو میرٹ نہیں کہا اور سمجھا جاتا بلکہ ادارے کے مقاصد اور اہداف کو حاصل کر سکنے کی صلاحیتوں کو میرٹ گردانا جاتا ہے۔ وہ کسی بھی مذہب، ذات اور برادری کا ہو، اس کا رنگ گہرا ہو یا کم گہرا اس سے فرق ہی نہیں پڑتا۔
ویسے غور فرمائیں تو اللہ جی کی دنیا کا یہی نظام اور مزاج ہے، اس کی پسند اور قربت کے پیمانے بھی ہم سے بہت فرق ہیں جو فرد یا ادارہ انہیں سمجھ لیتا ہے وہی کائنات کے ساتھ ہم آہنگ ہوپاتاہے، جاپان اور چین کے بعد اہل بھارت نے یہ راز پا لیا ہے اور جگہ جگہ اپنی دنیاوی کامیابی کے جھنڈے گاڑھے جا رہے ہیں اور ہم بادشاہ لوگ ہیں دوسروں کی کامیابی میں کیڑے نکالنے اور ان پر غصہ کرنے سے ہی فرصت نہیں ملتی، اورمستقبل سازی اور مستقبل بینی کی منزل کافی دور کھڑی مسکراتی رہتی ہے ۔
https://daleel.pk/2017/09/06/56466
- Featured Thumbs
- http://i.imgur.com/1LlIOQY.jpg
Last edited by a moderator: