آخری وقت اشاعت: جمعرات 5 ستمبر 2013 ,* 10:49 GMT 15:49 PS
گزشتہ ہفتے مصری حکام نے جاسوسی کے شبہہ میں ایک بگلے کو پکڑ لیا اور اس پر نقل مکانی پر نظر رکھنے کے لیے جو ڈیجٹل چپ لگی تھی اسے جاسوسی کا آلہ سمجھ لیا گیا۔
حقیقت میں وہ بگلا معصوم تھا لیکن جیسے برسوں سے بہت سے دیگر چرند و پرند کو جاسوسی کے غلط الزام میں پکڑا جاتا رہا ہے وہی سلوک اس کے ساتھ بھی ہوا۔
دو ہزار گيارہ میں سعودی حکومت نے بلند پروازی کرنے والے ایک گدھ کو اس شبہہ میں گرفتار کیا تھا کہ شاید وہ اسرائیلی ایجنسی موساد کے لیے فضاء میں اڑ رہا ہے۔
دو ہزار دو میں بحر احمر کے قریب مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں ایسے شارک نے کئی بار حملے کیے جن میں انہیں ٹریک کرنے کے لیے جی پی ایس نصب تھے اور ایک ٹی وی چینل نے اس کے لیے بھی اسرائیل کو یہ کہہ کر ذمہ دار ٹھہرایا کہ وہ مصر کی سیاحتی شعبہ کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔
ایران نے بھی کئی بار ایسے جانوروں سے خطرہ محسوس کیا ہے۔ دو ہزار سات میں ایرانی فوج نے چودہ گلہریوں کے ایک گروپ کو پکڑا جو اس کے جوہری تنصیب کے پاس پائی گئی تھیں۔
اس سے متعلق ایرانی حکام نے کہا ’اس سے پہلے کہ وہ کوئی کارروائی کر پاتیں‘ انہوں نے مشکوک گلہریوں کو پکڑ لیا۔ جانوروں کی جاسوسی سے متعلق اس طرح کی تمام رپورٹ تو درست نہیں تاہم ان کا استعمال جاسوسی کے لیے ہوتا بھی رہا ہے۔
فوج میں چرند و پرند کا اس طرح کا استعمال سنہ انیس سو آٹھ سے ہی ہوتا رہا ہے جب جرمنی نے پہلی بار فضاء سے تصاویر لینے کے لیے کبوتروں میں کیمرے نصب کیے۔
امریکہ نے بلیوں کو بھی جاسوسی کے لیے استعمال کیا لیکن یہ تجربہ کامیاب ثابت نہیں ہوا
اس سلسلے میں بعض پروگرامز دوسروں کے بہ نسبت زیادہ کامیاب رہے۔ امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے ایک بار سننے والے آلے ایک بلی میں نصب کیے، جس کا نام ’آپریشن آکیسٹک کٹی‘ رکھا گيا۔
لیکن واشنگٹن میں واقع روسی سفارتخانے کے باہر اس بلی کو ایک کار نے روند ڈالا جس سے یہ آپریشن پہلے ہی دن ناکام ہوگيا۔ ایک تخمینے کے مطابق اس پروجیکٹ میں ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈالر کا خرچ آیا تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران اسی طرح امریکہ کا ایک اور ناکام پروجیکٹ ’بیٹ بم‘ بھی تھا۔ اس کے تحت چمگادڑوں کو ایک چھوٹی ڈیوائس میں لپیٹ کر جاپان پر گرانا تھا۔
اس کے تحت سوچ یہ تھی کہ جاپان کی لکڑی کی عمارتوں کو آگ سے اڑانے سے پہلے چمگادڑ پہلے اس میں اپنا بسیرا بنا لیں۔ لیکن بالآخر یہ کوشش ناکام رہی اور ایٹم بم زیادہ موثر ثابت ہوئے۔
جاسوسی کرنے کی مناسبت سے شاید سب سے زیادہ کامیاب جانور اب تک ڈولفن ثابت ہوئی۔ امریکہ اور روس دونوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کے پاس ایسے جانوروں کی تربیت کا پروگرام موجود ہے۔
اس کے تحت ڈولفن اور سیلز کو پانی کے اندر باردوی سرنگیں پتہ کرنے اور دشمن تیراکوں کو ناکام بنانے کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔
لیکن نوجوان فوجیوں کی طرح ڈولفن میں بھی ہارمون ہوتے اور وہ جنسی تلذذ کی تلاش میں کبھی بھی دھوکا دیکر نکل سکتے ہیں۔
اسی برس مارچ میں یوکرین کی وزارت دفاع نے ان خبروں کی تردید کی تھی کہ اس کے تین فوجی ڈولفن فرار ہوکر بحر اسود میں سیکس کی تلاش میں سرگرداں ہیں
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2013/09/130905_animals_spies_arrest_sz.shtml