ے" عمران خان کی تعریف وحمایت پر جمعیت علماء اسلام اور ن لیگ والوں نے اس قدر گالم گلوچ کی، بازاری لوگ جس کا تصور بھی نہیں کرسکتے- "ے
یہ شکوہ معروف مبلغ مولانا طارق جمیل نے پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں کیا
سن کرافسوس ہوا مگر حیرت نہیں- سیاسی تالاب تو کب کا جوہڑ تھا، سوشل میڈیا کی آمیزش نے اسی کی گندگی کئی گنا بڑھا دی- بے نام وبے چہرہ مشینیں سکرینوں کی پشت پر ایستادہ ہیں، مخالفین کی عزتیں اچھالنا جن کے لیے مشغلہ سے بڑھ کرکچھ نہیں
جمہوری معاشرے کے برعکس ہمارے ہاں تنقید برداشت کرنے کا کلچر ابھی پیدا نہیں ہوا- غیرسیاسی قوتوں کے علاؤہ، سیاسی جماعتوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے جنھوں نے کارکن نہیں، عقیدت مند اور پیروکار پروان چڑھاۓ- ہرسیاسی جماعت، پارٹی کم فرقہ زیادہ ہے- ہر لیڈر کی اپنی کلٹ فالیونگ ہے- لیڈر کی خامی میں بھی جنھیں خوبی دیکھائی دیتی ہے- ایسی ایسی دلیلیں تراشی جاتی ہیں، سن کر عقل دنگ اور زہن ماؤف ہوجاتا ہے- کارکنوں کو اپنے جیسے لوگوں کے حالات پر کم، لیڈر کے خاندان اور اس کے مفاد کی زیادہ فکر لاحق رہتی ہے
سوشل میڈیا کے ظہور سے یہ امید بندھی تھی کہ پرنٹ والیکڑانک میڈیا تک رسائی نہ رکھنے والے بھی صداۓ احتجاج بلند کرسکیں گے- حکمران جو اب تک بڑے اخبارات اور چینلوں کو ساتھ ملا کر وارداتیں ڈالتے تھے، انہیں براہ راست سوشل میڈیا پر آئینہ دیکھانا ممکن ہوسکے گا- حکمرانوں نے مگر اس کا بھی توڑ نکال لیا- سرکاری سوشل میڈیا ونگ تشکیل دئیے- یونیورسٹیوں کے بے روزگار آئی ٹی گریجویوٹس کو بھرتی کیا اور انہیں اپنے ناقدین کی ہجو پر لگا دیا- ایک نے یہ قبیح بدعت شروع کی اور دیگر نے تقلید
آج اصل ایشو حکمرانوں کی بدعنوانی وبے ضابطگی نہیں، نوجوان کے سرپرسوار اپنے پسندیدہ حکمرانوں سے عشق کا بھوت اتارنا ہے- گلے میں ڈلے غیرمرئی طوق اور زہن پر لگے پارٹی قفل توڑنے ہیں، دل ودماغ کو نادیدہ بیڑیوں سے نجات دلانا ہے جو نام نہاد لیڈران نے ڈال رکھی ہیں
تنقید کی جگہ جب حکمرانوں کی تعریف ہونے لگے تو ان کے دماغوں پر کرپشن، اقرباء پروری، بےجا نوازنے اور کاہلی کی چربی چڑھنے لگتی ہے
عوامی احتساب کا ڈر ختم ہو جاۓ تو وہ اپنے نظریات پر مصلحت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں- مفادپرست گروہ انہیں گھیر لیتے ہیں- حکمران عوامی طاقت پر بھروسہ کم اور کاروباری وسماجی مافیاز پر زیادہ کرنے لگتے ہیں
سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کریں تاکہ سیاست بہتری کی جانب گامزن ہو اور حکمران اپنے طے شدہ منشور سے نہ ہٹیں
یہ شکوہ معروف مبلغ مولانا طارق جمیل نے پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں کیا
سن کرافسوس ہوا مگر حیرت نہیں- سیاسی تالاب تو کب کا جوہڑ تھا، سوشل میڈیا کی آمیزش نے اسی کی گندگی کئی گنا بڑھا دی- بے نام وبے چہرہ مشینیں سکرینوں کی پشت پر ایستادہ ہیں، مخالفین کی عزتیں اچھالنا جن کے لیے مشغلہ سے بڑھ کرکچھ نہیں
جمہوری معاشرے کے برعکس ہمارے ہاں تنقید برداشت کرنے کا کلچر ابھی پیدا نہیں ہوا- غیرسیاسی قوتوں کے علاؤہ، سیاسی جماعتوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے جنھوں نے کارکن نہیں، عقیدت مند اور پیروکار پروان چڑھاۓ- ہرسیاسی جماعت، پارٹی کم فرقہ زیادہ ہے- ہر لیڈر کی اپنی کلٹ فالیونگ ہے- لیڈر کی خامی میں بھی جنھیں خوبی دیکھائی دیتی ہے- ایسی ایسی دلیلیں تراشی جاتی ہیں، سن کر عقل دنگ اور زہن ماؤف ہوجاتا ہے- کارکنوں کو اپنے جیسے لوگوں کے حالات پر کم، لیڈر کے خاندان اور اس کے مفاد کی زیادہ فکر لاحق رہتی ہے
سوشل میڈیا کے ظہور سے یہ امید بندھی تھی کہ پرنٹ والیکڑانک میڈیا تک رسائی نہ رکھنے والے بھی صداۓ احتجاج بلند کرسکیں گے- حکمران جو اب تک بڑے اخبارات اور چینلوں کو ساتھ ملا کر وارداتیں ڈالتے تھے، انہیں براہ راست سوشل میڈیا پر آئینہ دیکھانا ممکن ہوسکے گا- حکمرانوں نے مگر اس کا بھی توڑ نکال لیا- سرکاری سوشل میڈیا ونگ تشکیل دئیے- یونیورسٹیوں کے بے روزگار آئی ٹی گریجویوٹس کو بھرتی کیا اور انہیں اپنے ناقدین کی ہجو پر لگا دیا- ایک نے یہ قبیح بدعت شروع کی اور دیگر نے تقلید
آج اصل ایشو حکمرانوں کی بدعنوانی وبے ضابطگی نہیں، نوجوان کے سرپرسوار اپنے پسندیدہ حکمرانوں سے عشق کا بھوت اتارنا ہے- گلے میں ڈلے غیرمرئی طوق اور زہن پر لگے پارٹی قفل توڑنے ہیں، دل ودماغ کو نادیدہ بیڑیوں سے نجات دلانا ہے جو نام نہاد لیڈران نے ڈال رکھی ہیں
تنقید کی جگہ جب حکمرانوں کی تعریف ہونے لگے تو ان کے دماغوں پر کرپشن، اقرباء پروری، بےجا نوازنے اور کاہلی کی چربی چڑھنے لگتی ہے
عوامی احتساب کا ڈر ختم ہو جاۓ تو وہ اپنے نظریات پر مصلحت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں- مفادپرست گروہ انہیں گھیر لیتے ہیں- حکمران عوامی طاقت پر بھروسہ کم اور کاروباری وسماجی مافیاز پر زیادہ کرنے لگتے ہیں
سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کریں تاکہ سیاست بہتری کی جانب گامزن ہو اور حکمران اپنے طے شدہ منشور سے نہ ہٹیں