تپڑ ہو تو بجلی بہت
وسعت اللہ خانبی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
انگوچھے کو یا تو مداری چادر میں بدل سکتا ہے یا پھر کوئی وزیرِ با تدبیر۔ اب بجلی کو ہی لے لیں۔ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں کم از کم رمضان کے مہینے میں بجلی کی روزانہ ضرورت 20 ہزار میگاواٹ سے کم نہیں ہوسکتی۔
آپ کچھ بھی کرلیں پاکستان میں اس وقت بجلی کی پیداوار 15 ہزار میگاواٹ سے آگے نہیں بڑھ سکتی پھر بھی خوش امید وزیرِاعظم ہوں کہ دو وزارتوں (وزارتِ دفاع و پانی و بجلی) سے عقد شدہ خواجہ آصف ہوں کہ بڑک سے بجلی پیدا کرنے کے کوشاں وزیرِ مملکت برائے بجلی عابد شیر علی سب کا خیال ہے کہ 15 ہزار میگاواٹ کو کھینچ کھانچ کے 20 ہزار میگاواٹ بنایا جاسکتا ہے۔
اگر تو بجلی چیونگم ہوتی تو اسے لمبا کرنے سے مسئلہ حل ہو جاتا۔اگر عوام بے صبرے نہ ہوتے تو بھی مسئلہ حل ہو جاتا اور اگر ذمہ دار وزرا تھوک سے پن چکی چلانے کی عادتِ لاحاصل میں مبتلا نہ ہوتے تو بھی مسئلہ حل ہو جاتا مگر ایسا کچھ بھی نہیں اسی لیے عوام سڑک پر ٹائر جلا کے روشنی پیدا کر رہے ہیں۔
لائن مین ٹائپ لوگ افسروں کی گالیوں سے توانائی کشید کر رہے ہیں اور افسر لوگ وزرا کے سامنے ’یس سریا‘ رہے ہیں اور وزرا خجل ہتھیلیوں کو مل کے چقماق بنانا چاہ رہے اور چھچھورے میڈیا کے من و رنجن کے لیے ’گھبرائیں نہیں بحران پر جلد قابو پا لیا جائے گا کا ورد‘ کر رہے ہیں اور میڈیا ہے کہ جلتی پر تیل چھڑک کر پاور جنریشن میں لگا ہوا ہے۔
مگر شیدے کا بلب پھر بھی نہیں جل رہا، مودے کا پنکھا پھر بھی نہیں چل رہا، بس دل جل رہا ہے اور جل رہا ہے۔
ضیا الحق کے دور میں کچھ جوشیلے سائنسداں کم از کم جنات سے بجلی پیدا کرنے کی مشق تو کر رہے تھے لیکن اب تو یوں ہے کہ بجلی ہی جِن بن گئی ہے، ہے مگر نہیں ہے۔
لیکن وہ حکومت ہی کیا جو جی ہار دے۔ چنانچہ اب خوابوں سے بجلی پیدا کرنے کے تجربات ہو رہے ہیں۔ یہ منصوبہ اگلے سال مکمل ہوجائے گا، وہ منصوبہ اس سے اگلے سال مکمل ہو جائے گا۔ سورج سے بجلی سنہ 2018 تک مل جائے گی اور ایٹمی بجلی سنہ 2022 میں سسٹم میں داخل ہو جائے گی اور ہوا سے بجلی فلانے فلانے سن تک لیکن اس وقت کا پسینہ کیسے خشک ہو ؟ یہ کوئی نہیں بتا رہا۔ تسلیوں کی گاجر جانے کے برس سے عوام کے آگے لٹکی ہوئی ہے۔ نہ گاجر پے منہ پڑتا ہے نہ گدھے کا سفر تمام ہوتا ہے۔
مزید برقی نمک وہ سرکاری اشتہارات چھڑک رہے ہیں جن میں مشورہ دیا جا رہا ہے کہ بجلی بچائیے کل کام آئے گی، ایئرکنڈیشنڈ 26 درجے پر چلائیے، فالتو روشنیاں گل کر دیجیے، جرمانے سے بچنے کے لیے بل کی ادائیگی بروقت کیجیے، بجلی چوروں کی نشاندھی کے لیے فلاں نمبر پر فون کیجیے یعنی وہ
چیز بیچی جا رہی ہے جو ہے ہی نہیں۔
ایک صاحب ہوا کر تے تھے شہباز شریف جالب۔ اب سے چار برس پہلے ان کا خیال تھا کہ وفاقی حکومت جان بوجھ کر بجلی فراہم نہیں کرتی لہذا انھوں نے وفاقی حکومت کے خلاف ’بجلی نافرمانی‘ کی تحریک شروع کردی اور مینارِ پاکستان کے سائے میں خیمہ دفتر لگا لیا اور ہاتھ میں کھجور کا پنکھا رکھ لیا تاکہ بجلی سے محروم عوام سے اظہار یکجہتی ہوسکے۔ ذرا پتہ تو کریں آج کل
وہ کہاں ہیں اور لوڈ شیڈڈ وفاقی حکومت کے بارے میں ان کے کیا خیالات ہیں ؟
ہاں بجلی کا بحران کل شام تک آدھا ہوسکتا ہے اگر پورے پاکستان میں لازمی اداروں کو چھوڑ کے تمام
سرکاری و نجی دفاتر اور بازاروں پر انرجی ایمرجنسی نافذ کرکے پابند کردیا جائے کہ صبح آٹھ بجے سے شام چھ بجے تک کام ہوگا اس کے بعد سب بند ورنہ کاروباری علاقے کی بجلی بند لیکن اس کے لیے ریاستی تپڑ چاہیے اور کوئی طریقہ اگر ہو تو مجھے بھی بتائیے گا کہ 15 ہزار میگاواٹ میں 20 ہزار میگاواٹ کی ضرورت کیسے پوری ہوتی ہے؟
http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/06/150628_baat_sy_baat_rwa
وسعت اللہ خانبی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
انگوچھے کو یا تو مداری چادر میں بدل سکتا ہے یا پھر کوئی وزیرِ با تدبیر۔ اب بجلی کو ہی لے لیں۔ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان میں کم از کم رمضان کے مہینے میں بجلی کی روزانہ ضرورت 20 ہزار میگاواٹ سے کم نہیں ہوسکتی۔
آپ کچھ بھی کرلیں پاکستان میں اس وقت بجلی کی پیداوار 15 ہزار میگاواٹ سے آگے نہیں بڑھ سکتی پھر بھی خوش امید وزیرِاعظم ہوں کہ دو وزارتوں (وزارتِ دفاع و پانی و بجلی) سے عقد شدہ خواجہ آصف ہوں کہ بڑک سے بجلی پیدا کرنے کے کوشاں وزیرِ مملکت برائے بجلی عابد شیر علی سب کا خیال ہے کہ 15 ہزار میگاواٹ کو کھینچ کھانچ کے 20 ہزار میگاواٹ بنایا جاسکتا ہے۔
اگر تو بجلی چیونگم ہوتی تو اسے لمبا کرنے سے مسئلہ حل ہو جاتا۔اگر عوام بے صبرے نہ ہوتے تو بھی مسئلہ حل ہو جاتا اور اگر ذمہ دار وزرا تھوک سے پن چکی چلانے کی عادتِ لاحاصل میں مبتلا نہ ہوتے تو بھی مسئلہ حل ہو جاتا مگر ایسا کچھ بھی نہیں اسی لیے عوام سڑک پر ٹائر جلا کے روشنی پیدا کر رہے ہیں۔
لائن مین ٹائپ لوگ افسروں کی گالیوں سے توانائی کشید کر رہے ہیں اور افسر لوگ وزرا کے سامنے ’یس سریا‘ رہے ہیں اور وزرا خجل ہتھیلیوں کو مل کے چقماق بنانا چاہ رہے اور چھچھورے میڈیا کے من و رنجن کے لیے ’گھبرائیں نہیں بحران پر جلد قابو پا لیا جائے گا کا ورد‘ کر رہے ہیں اور میڈیا ہے کہ جلتی پر تیل چھڑک کر پاور جنریشن میں لگا ہوا ہے۔
مگر شیدے کا بلب پھر بھی نہیں جل رہا، مودے کا پنکھا پھر بھی نہیں چل رہا، بس دل جل رہا ہے اور جل رہا ہے۔
ضیا الحق کے دور میں کچھ جوشیلے سائنسداں کم از کم جنات سے بجلی پیدا کرنے کی مشق تو کر رہے تھے لیکن اب تو یوں ہے کہ بجلی ہی جِن بن گئی ہے، ہے مگر نہیں ہے۔
لیکن وہ حکومت ہی کیا جو جی ہار دے۔ چنانچہ اب خوابوں سے بجلی پیدا کرنے کے تجربات ہو رہے ہیں۔ یہ منصوبہ اگلے سال مکمل ہوجائے گا، وہ منصوبہ اس سے اگلے سال مکمل ہو جائے گا۔ سورج سے بجلی سنہ 2018 تک مل جائے گی اور ایٹمی بجلی سنہ 2022 میں سسٹم میں داخل ہو جائے گی اور ہوا سے بجلی فلانے فلانے سن تک لیکن اس وقت کا پسینہ کیسے خشک ہو ؟ یہ کوئی نہیں بتا رہا۔ تسلیوں کی گاجر جانے کے برس سے عوام کے آگے لٹکی ہوئی ہے۔ نہ گاجر پے منہ پڑتا ہے نہ گدھے کا سفر تمام ہوتا ہے۔
مزید برقی نمک وہ سرکاری اشتہارات چھڑک رہے ہیں جن میں مشورہ دیا جا رہا ہے کہ بجلی بچائیے کل کام آئے گی، ایئرکنڈیشنڈ 26 درجے پر چلائیے، فالتو روشنیاں گل کر دیجیے، جرمانے سے بچنے کے لیے بل کی ادائیگی بروقت کیجیے، بجلی چوروں کی نشاندھی کے لیے فلاں نمبر پر فون کیجیے یعنی وہ
چیز بیچی جا رہی ہے جو ہے ہی نہیں۔
ایک صاحب ہوا کر تے تھے شہباز شریف جالب۔ اب سے چار برس پہلے ان کا خیال تھا کہ وفاقی حکومت جان بوجھ کر بجلی فراہم نہیں کرتی لہذا انھوں نے وفاقی حکومت کے خلاف ’بجلی نافرمانی‘ کی تحریک شروع کردی اور مینارِ پاکستان کے سائے میں خیمہ دفتر لگا لیا اور ہاتھ میں کھجور کا پنکھا رکھ لیا تاکہ بجلی سے محروم عوام سے اظہار یکجہتی ہوسکے۔ ذرا پتہ تو کریں آج کل
وہ کہاں ہیں اور لوڈ شیڈڈ وفاقی حکومت کے بارے میں ان کے کیا خیالات ہیں ؟
ہاں بجلی کا بحران کل شام تک آدھا ہوسکتا ہے اگر پورے پاکستان میں لازمی اداروں کو چھوڑ کے تمام
سرکاری و نجی دفاتر اور بازاروں پر انرجی ایمرجنسی نافذ کرکے پابند کردیا جائے کہ صبح آٹھ بجے سے شام چھ بجے تک کام ہوگا اس کے بعد سب بند ورنہ کاروباری علاقے کی بجلی بند لیکن اس کے لیے ریاستی تپڑ چاہیے اور کوئی طریقہ اگر ہو تو مجھے بھی بتائیے گا کہ 15 ہزار میگاواٹ میں 20 ہزار میگاواٹ کی ضرورت کیسے پوری ہوتی ہے؟
http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/06/150628_baat_sy_baat_rwa