تُم آؤ تو سہی۔
تمہیں کیا لگتا ہے کہ وہ متوسط طبقہ جو دہائیوں سے ہیجان میں مبتلا زندگی گزار رہا ہے وہ اب بھی تمہاری چلاکیاں اور مکاریاں دیکھ کر چپ رہے گا ۔ وہ جو آنکھ کھولتے ہی زندگی کی دوڑ کے سارے مرحلے کسی نا کسی طرح طے کرتا ہے اور جب وہ کسی قابل ہو جاتا ہے تو تم جیسے گدھ اس کی بوٹی بوٹی نوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ کماتا وہ ہے اور کھاتے تم ہو، سڑکوں کی خاک چھانتا وہ ہے اور اسی کی کمائی سے تُم پروٹوکول کے مزے لیتے ہو۔ شب و روز کی عرق ریزی سے وہ اپنی اولاد کو کسی قابل کرتا ہے تو تمہارے مافوق الفطرت اور ناکام بچے اُس کے بچوں کے حق پر براجمان ہو جاتے ہیں۔ساری زندگی کسمپرسی اور نفسیاتی دباؤ میں گزارتا ہے اور تُم ایک شاہانہ زندگی گزارتے ہو۔ اگر تمہیں لگتا ہے کہ وہ اب بھی چُپ رہے گا تو تم آؤ۔
تُم آؤ تو سہی،،
اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم اب پھر آؤ گے ، عوام کو جمہوریت کی قربا نی کے لئے تیا ر کرو گے۔ اپنے بچوں کو لندن کے محلات میں رکھو گے اور میرے بچوں کو قربانی کا بکرا بناکر جمہوریت کا درس دو گے ۔ اگر تمہیں ایسا لگتا ہے تو تُم آؤ۔
تُم آؤ تو سہی،،
اگر تم سمجھتے ہو کہ میری بیوی ، بہن ، بیٹی انسان نہیں بلکہ انسان صرف وہ ہیں جو تمہارے گھر میں آنکھ کھولتے ہیں۔ یہ تو سڑک پر بھی بچے پیدا کر سکتی ہیں لیکن ان کےلئے لندن کے ہسپتا ل ہیں۔ اگر تم صر ف خود کو انسان سمجھتے ہو تو تم آؤ۔
تُم آؤ تو سہی،،
اچھا تو تُم یہ سمجھتے ہو کہ عوام جا ہل ہے، شعور اور ادراک سے عاری ہے۔ تم ایک منشی کو اٹھاؤ گے اور اسے وزیر خزانہ بنا دو گے ۔وہ ملک کا ستیاناس کرے گا اپنی جائیدادیں بنائے گا اور بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے فرار ہو جائے گا۔ وہ مسئلہ جس نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا تھا اس مسئلے کے حل کے لئے تم ایک مخبوط الحواس بندے عابد شیر علی کو وزیر بنا دو گے اور اگر عوام اس بات پر احتجاج کرے گی تو تم عوامی شعور کو خلائی مخلوق کی سازش کا نام دو گے ۔ ملکی اداروں کے خلاف سازشیں کرو گے اور عوام پھربھی تمہارا ساتھ دیں گے۔ اگر ایسا ہے تو تم آؤ۔
تُم آؤ تو سہی،،
تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ یہ زمانہ بھی وہ زمانہ ہے جب تم اخبار کی ہیڈ لائن ہوتے تھے۔ لوگ تمہیں سقراط اور ارسطو سمجھتے تھے۔ تمہارے کرائے کے ٹٹو تمہاری تقریریں لکھتے تھے اور لوگ سمجھتے تھے کہ تم واقعی ایک بہت بڑے مقرر ہو۔تمہیں کیوں نہیں سمجھ آ رہا کہ اب تمہاری اصلیت عیاں ہو چکی ہے اور لوگوں کو پتہ چل چکا ہے کہ تم نا صرف نااہل ہو بلکہ مکار اور بے شرم بھی ہو۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ لوگ ابھی بھی بے وقوف ہیں تو تم آ ہی جاؤ۔
ہاں تم آ ہی جاؤ،،
اب جب تم آؤ گے، تو تم ہر جگہ مجھے پاؤ گے۔ہر گلی ہر محلے میں، بھیڑ میں تنہائی میں۔ تم دیکھو گے کے میرے ایک ہاتھ میں مٹی کا تیل ہے۔ میں وہ تیل پہلے اپنے اوپر پھینکوں گا پھر تمہارے اوپر۔ پھر آگ لگاؤں گا ۔ کیونکہ میں نے اپنی زندگی تو گزار ہی لی لیکن اپنی دھرتی ماں اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کر جاوٗں گا۔ اس لئے آؤ، ہاں تم آ ہی جاؤ۔
فکرِ سودو زیاں تو چھوٹے گی
منت این و آں تو چھوٹے گے
خیر دوزخ میں مے ملے نا ملے
شیخ صاحب سے جاں تو چھوٹے گی
@Gultasab
تمہیں کیا لگتا ہے کہ وہ متوسط طبقہ جو دہائیوں سے ہیجان میں مبتلا زندگی گزار رہا ہے وہ اب بھی تمہاری چلاکیاں اور مکاریاں دیکھ کر چپ رہے گا ۔ وہ جو آنکھ کھولتے ہی زندگی کی دوڑ کے سارے مرحلے کسی نا کسی طرح طے کرتا ہے اور جب وہ کسی قابل ہو جاتا ہے تو تم جیسے گدھ اس کی بوٹی بوٹی نوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ کماتا وہ ہے اور کھاتے تم ہو، سڑکوں کی خاک چھانتا وہ ہے اور اسی کی کمائی سے تُم پروٹوکول کے مزے لیتے ہو۔ شب و روز کی عرق ریزی سے وہ اپنی اولاد کو کسی قابل کرتا ہے تو تمہارے مافوق الفطرت اور ناکام بچے اُس کے بچوں کے حق پر براجمان ہو جاتے ہیں۔ساری زندگی کسمپرسی اور نفسیاتی دباؤ میں گزارتا ہے اور تُم ایک شاہانہ زندگی گزارتے ہو۔ اگر تمہیں لگتا ہے کہ وہ اب بھی چُپ رہے گا تو تم آؤ۔
تُم آؤ تو سہی،،
اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم اب پھر آؤ گے ، عوام کو جمہوریت کی قربا نی کے لئے تیا ر کرو گے۔ اپنے بچوں کو لندن کے محلات میں رکھو گے اور میرے بچوں کو قربانی کا بکرا بناکر جمہوریت کا درس دو گے ۔ اگر تمہیں ایسا لگتا ہے تو تُم آؤ۔
تُم آؤ تو سہی،،
اگر تم سمجھتے ہو کہ میری بیوی ، بہن ، بیٹی انسان نہیں بلکہ انسان صرف وہ ہیں جو تمہارے گھر میں آنکھ کھولتے ہیں۔ یہ تو سڑک پر بھی بچے پیدا کر سکتی ہیں لیکن ان کےلئے لندن کے ہسپتا ل ہیں۔ اگر تم صر ف خود کو انسان سمجھتے ہو تو تم آؤ۔
تُم آؤ تو سہی،،
اچھا تو تُم یہ سمجھتے ہو کہ عوام جا ہل ہے، شعور اور ادراک سے عاری ہے۔ تم ایک منشی کو اٹھاؤ گے اور اسے وزیر خزانہ بنا دو گے ۔وہ ملک کا ستیاناس کرے گا اپنی جائیدادیں بنائے گا اور بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے فرار ہو جائے گا۔ وہ مسئلہ جس نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا تھا اس مسئلے کے حل کے لئے تم ایک مخبوط الحواس بندے عابد شیر علی کو وزیر بنا دو گے اور اگر عوام اس بات پر احتجاج کرے گی تو تم عوامی شعور کو خلائی مخلوق کی سازش کا نام دو گے ۔ ملکی اداروں کے خلاف سازشیں کرو گے اور عوام پھربھی تمہارا ساتھ دیں گے۔ اگر ایسا ہے تو تم آؤ۔
تُم آؤ تو سہی،،
تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ یہ زمانہ بھی وہ زمانہ ہے جب تم اخبار کی ہیڈ لائن ہوتے تھے۔ لوگ تمہیں سقراط اور ارسطو سمجھتے تھے۔ تمہارے کرائے کے ٹٹو تمہاری تقریریں لکھتے تھے اور لوگ سمجھتے تھے کہ تم واقعی ایک بہت بڑے مقرر ہو۔تمہیں کیوں نہیں سمجھ آ رہا کہ اب تمہاری اصلیت عیاں ہو چکی ہے اور لوگوں کو پتہ چل چکا ہے کہ تم نا صرف نااہل ہو بلکہ مکار اور بے شرم بھی ہو۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ لوگ ابھی بھی بے وقوف ہیں تو تم آ ہی جاؤ۔
ہاں تم آ ہی جاؤ،،
اب جب تم آؤ گے، تو تم ہر جگہ مجھے پاؤ گے۔ہر گلی ہر محلے میں، بھیڑ میں تنہائی میں۔ تم دیکھو گے کے میرے ایک ہاتھ میں مٹی کا تیل ہے۔ میں وہ تیل پہلے اپنے اوپر پھینکوں گا پھر تمہارے اوپر۔ پھر آگ لگاؤں گا ۔ کیونکہ میں نے اپنی زندگی تو گزار ہی لی لیکن اپنی دھرتی ماں اور اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کر جاوٗں گا۔ اس لئے آؤ، ہاں تم آ ہی جاؤ۔
فکرِ سودو زیاں تو چھوٹے گی
منت این و آں تو چھوٹے گے
خیر دوزخ میں مے ملے نا ملے
شیخ صاحب سے جاں تو چھوٹے گی
@Gultasab