جناب جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں مجھے معلوم ہے کے آپ کی ناگواری قانون کی ناگواری ہے اور قانون کی ناگواری چھترول دن میں تین بار اور کئی مہینے ہیں
جناب میں تو قانون کو حرکت میں لانے کے لئے پولیس کی مٹھی گرم کرنے یا پھر عدلیہ کے دامادوں کی فیس ادا کرنے جتنی بھی اوقات نہی رکھ سکتا جناب
اب مجھے ایک بات کرنی ہے لیکن میری اوقات نہی کیوں کے
ملزم جتنا چھوٹا ہو سزا اتنی سخت ہوتی ہے اور ملزم جتنا بڑا ہو اتنے ہی جج کو فیصلہ کرنے سے پہلے سٹنٹ ڈلوانے پڑتے ہیں
جناب ہرگز کسی جانب اشارہ ہے نہ کوئی نشتر نہ ہی کوئی طنز یہ تو میں نے محاورہ ابھی ابھی بنایا ہے
تعریف کا نہی تو کم از کم درگزر کا خواستگار ہوں جناب
جتنا اس توہین عدالت سے در لگتا ہے اتنا اگر الله سے ڈرتا تو قسم سے والی الله ہوتا
لیکن الله کس نے دیکھا سر آپ کا انصاف تو روز دیکھتا ہوں
بس صاحب آپ کی تو آنکھوں میں بھی دیکھنے سے سزا واجب ہو جاتی ہے تو فریاد کیسے کر پاؤں گا
لیکن میں نے سوچا کچھ مہینے سرکار کی روٹی کھا آتے ہیں
تو عرض یہ کرنا تھی جناب
ملک کے اندر جو قانون رائج ہے نہ جی
اس قانون کا ستر فیصد قانون آج تک عمل میں لایا ہی نہی گیا
میں ابھی پڑھ رہا تھا کے تقریبن چوالیس برس پرانا یہ قانون آج بھی صرف تیس فیصد عمل میں لیا گیا ہے
یعنی کے ستر فیصد قوانین کے حوالے سے آج تک سزائیں ہی نہی ہوئیں
اور تیس فیصد میں سے بھی تقریبن سترہ فیصد کسرت سے استمعال ہوا اور باقی شاذ و نادر
آپ کھبی کسی وکیل کی دکان پر جائیں گے تو بیش بہا کتابیں دیکھیں گے لیکن ان کے استمعال میں محض چند کتابیں ہوں گی باقیوں پر مکڑی کے جالے اور گردوغبار ہوگا
مجھے تیس فیصد سے شکایت ہے نہ ستر فیصد سے ہمدردی میں تو ایک قانون پڑھا تھا
سائنس کا قانون ہے کے جو چیز جتنی استمعال ہو گی اتنا ہی اس کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا
تو جناب یہ جو قانون شریف ہیں یہ بھی کند ہو چکے ہیں
ججز اور وکلا نے بس چند نمبرز یاد کئے ہوے ہیں
باقی سب سے غافل
یہ ہی تو وجہ ہے کے قانون مفلوج نظر اتا ہے
یعنی اس کی چند انگلیاں تو زیر استمعال رہیں لیکن اکثر نہ استمعال ہونے کی وجہ سے ساقط
تو جناب یہ سب کچھ کرا کرایا ہے وکلا اور ججز کی ملی بھگت کا
یہ جو پچھلے دنوں ایک بہت بڑے سارے جج نے سعد رفیق سے جج کی کرسی پر بیٹھ کر معافی مانگی نہ
یہ اب مفلوج قانون کے ثمرات آنا شروع ہو گئے
دیکھو نہ جناب یہ تو دنیا میں مثال نہی ملتی
اصل میں وو بڑا آدمی تھا اس نے چھوٹے سے جج کو ڈانٹ پلا دی
اور اس نے معافی مانگ li
لیکن میں تو چھوٹا سا آدمی ہوں
اور یہ برے برے ججز میری تو شامت پکی
اب اتنی گستاخیاں ہو ہی گئی ہیں تو
میں اپنی پٹائی تو ہلال کر لوں
ملک کے اندر ہونے والے انتشار بد نظمی لوٹ مار کے ذمے دار ملک کے قانون کو مفلوج کرنے والے عہدے داران ہیں
آج ملک عدلیہ دہشت کی علامت ہے
عام اور خاص دونوں ہی ڈرتے ہیں
ملزم کی حثیت سے نہی مدعی کی حثیت سے
مزرم نہی ڈرتے وو تو ججوں سے اعلی الیلان معافیاں منگوا لیتے ہیں
آخر میں ایک چھوٹا سا سوال تھا
اب میرا جی چاہتا ہے کے میں امیر شہر کا گریبان پکڑ لوں اس کی غلطی پر
میرا دل چاہتا ہے میں قاضی کے غلط فیصلے پر اسے للکار دوں
میں نے سنا تھا یہ سب اسلام کی شان ہے اور اصحاب کرام کی عدالتوں میں یہ سب ہوتا تھا
تو اگر اب مجھے یہ سب کچھ دیکھنا ہو تو میں کدھر جاؤں؟
امریکا؟؟؟ وہاں وو گھسننے دیں گے ؟
جناب میں تو قانون کو حرکت میں لانے کے لئے پولیس کی مٹھی گرم کرنے یا پھر عدلیہ کے دامادوں کی فیس ادا کرنے جتنی بھی اوقات نہی رکھ سکتا جناب
اب مجھے ایک بات کرنی ہے لیکن میری اوقات نہی کیوں کے
ملزم جتنا چھوٹا ہو سزا اتنی سخت ہوتی ہے اور ملزم جتنا بڑا ہو اتنے ہی جج کو فیصلہ کرنے سے پہلے سٹنٹ ڈلوانے پڑتے ہیں
جناب ہرگز کسی جانب اشارہ ہے نہ کوئی نشتر نہ ہی کوئی طنز یہ تو میں نے محاورہ ابھی ابھی بنایا ہے
تعریف کا نہی تو کم از کم درگزر کا خواستگار ہوں جناب
جتنا اس توہین عدالت سے در لگتا ہے اتنا اگر الله سے ڈرتا تو قسم سے والی الله ہوتا
لیکن الله کس نے دیکھا سر آپ کا انصاف تو روز دیکھتا ہوں
بس صاحب آپ کی تو آنکھوں میں بھی دیکھنے سے سزا واجب ہو جاتی ہے تو فریاد کیسے کر پاؤں گا
لیکن میں نے سوچا کچھ مہینے سرکار کی روٹی کھا آتے ہیں
تو عرض یہ کرنا تھی جناب
ملک کے اندر جو قانون رائج ہے نہ جی
اس قانون کا ستر فیصد قانون آج تک عمل میں لایا ہی نہی گیا
میں ابھی پڑھ رہا تھا کے تقریبن چوالیس برس پرانا یہ قانون آج بھی صرف تیس فیصد عمل میں لیا گیا ہے
یعنی کے ستر فیصد قوانین کے حوالے سے آج تک سزائیں ہی نہی ہوئیں
اور تیس فیصد میں سے بھی تقریبن سترہ فیصد کسرت سے استمعال ہوا اور باقی شاذ و نادر
آپ کھبی کسی وکیل کی دکان پر جائیں گے تو بیش بہا کتابیں دیکھیں گے لیکن ان کے استمعال میں محض چند کتابیں ہوں گی باقیوں پر مکڑی کے جالے اور گردوغبار ہوگا
مجھے تیس فیصد سے شکایت ہے نہ ستر فیصد سے ہمدردی میں تو ایک قانون پڑھا تھا
سائنس کا قانون ہے کے جو چیز جتنی استمعال ہو گی اتنا ہی اس کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا
تو جناب یہ جو قانون شریف ہیں یہ بھی کند ہو چکے ہیں
ججز اور وکلا نے بس چند نمبرز یاد کئے ہوے ہیں
باقی سب سے غافل
یہ ہی تو وجہ ہے کے قانون مفلوج نظر اتا ہے
یعنی اس کی چند انگلیاں تو زیر استمعال رہیں لیکن اکثر نہ استمعال ہونے کی وجہ سے ساقط
تو جناب یہ سب کچھ کرا کرایا ہے وکلا اور ججز کی ملی بھگت کا
یہ جو پچھلے دنوں ایک بہت بڑے سارے جج نے سعد رفیق سے جج کی کرسی پر بیٹھ کر معافی مانگی نہ
یہ اب مفلوج قانون کے ثمرات آنا شروع ہو گئے
دیکھو نہ جناب یہ تو دنیا میں مثال نہی ملتی
اصل میں وو بڑا آدمی تھا اس نے چھوٹے سے جج کو ڈانٹ پلا دی
اور اس نے معافی مانگ li
لیکن میں تو چھوٹا سا آدمی ہوں
اور یہ برے برے ججز میری تو شامت پکی
اب اتنی گستاخیاں ہو ہی گئی ہیں تو
میں اپنی پٹائی تو ہلال کر لوں
ملک کے اندر ہونے والے انتشار بد نظمی لوٹ مار کے ذمے دار ملک کے قانون کو مفلوج کرنے والے عہدے داران ہیں
آج ملک عدلیہ دہشت کی علامت ہے
عام اور خاص دونوں ہی ڈرتے ہیں
ملزم کی حثیت سے نہی مدعی کی حثیت سے
مزرم نہی ڈرتے وو تو ججوں سے اعلی الیلان معافیاں منگوا لیتے ہیں
آخر میں ایک چھوٹا سا سوال تھا
اب میرا جی چاہتا ہے کے میں امیر شہر کا گریبان پکڑ لوں اس کی غلطی پر
میرا دل چاہتا ہے میں قاضی کے غلط فیصلے پر اسے للکار دوں
میں نے سنا تھا یہ سب اسلام کی شان ہے اور اصحاب کرام کی عدالتوں میں یہ سب ہوتا تھا
تو اگر اب مجھے یہ سب کچھ دیکھنا ہو تو میں کدھر جاؤں؟
امریکا؟؟؟ وہاں وو گھسننے دیں گے ؟
- Featured Thumbs
- http://sahebnews.ir/files/uploads/2015/02/IMG10293678.jpg
Last edited by a moderator: