Amal
Chief Minister (5k+ posts)
بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
توبہ ان ہی کی قبول ہوتی ہے جو توبہ کے ساتھ نیک عمل بھی کریں
وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا (71)
الفرقان 71
"اور جو توبہ کرتا اور اچھا عمل کرتا ہے(اس کو مطمئن ہونا چاہیے )،اس لیے کہ وہ پوری سرخ روئی کے ساتھ اللہ کی طرف لوٹتا ہے۔"(الفرقان 71)
اس آیت میں توبہ کرنے والوں کے لئے دنیا اور آخرت دونوں میں اللہ کی سرپرستی کی بشارت ہے۔
توبہ کا اصل مطلب ہے اللہ کی طرف پلٹنا۔ احساس شرمندگی، اپنے رویے کے غلط ہونے کا احساس کر کے اللہ کی طرف پلٹنے کو توبہ کہتے ہیں۔ توبہ ان کی قبول ہوتی ہے جو توبہ کے ساتھ نیک کام بھی کرتے ہیں۔
اللہ کی طرف پلٹنے سے مراد ہے کہ انسان توبہ کے بعد دوبارہ گناہ کی طرف نہ پلٹے اور واقعی دل سے اپنے گناہ پر شرمندہ ہو۔ اور اپنے گناہ پر معافی کے ساتھ تلافی کی بھی کوشش کرے۔
معاملہ چاہے اللہ کے حقوق کا ہو یا بندوں کے حقوق کا، صرف معافی مانگنا کافی نہیں ہوتا معافی کے ساتھ ساتھ جو نقصان کیا گیا ہے اس کو بھی پورا کیا جائے یعنی تلافی یا اصلاح بھی ضروری ہوتی ہے۔
"پھر ان کے لئے جو جذبات سے مغلوب ہو کر برائی کر بیٹھیں، پھر اس کے بعد توبہ کر لیں اور اپنی اصلاح کر لیں تو اس کے بعد، تمہارا پروردگار اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بڑا ہی بخشنے والا اور ان پر رحمت کرنے والا ہے۔"(النحل 119)
معافی، تلافی اور اصلاح کے بعد اگلا مرحلہ شروع ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو نیکی کے راستے پر قائم کیسے رکھا جائے۔ اس کے لئے قرآن نے یہ طریقہ بتایا ہے کہ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرنی چاہیے جو خود بھی نیک ہوں اور دوسروں کو بھی نیکی کی طرف راغب کرتے ہوں۔ انسان کمزور پیدا ہوا ہے لہذا آس پاس کا ماحول اس پر بہت جلدی اثر انداز ہوتا ہے۔
"اے ایمان والوں!(ان غلطیوں سے بچنا چاہتے ہو تو )اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔"(119 توبہ )
اس کے علاوہ انسان دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے اپنے آپ پر تنقید کرے تو اپنی برائیوں کی نشاندہی کر کے انہیں صحیح کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔
اگر کسی انسان کی توبہ میں احساس شرمندگی، تلافی اور اصلاح کا جذبہ شامل نہیں تو پھر وہ دن بھر میں ایک لاکھ بھی استغفار کی تسبیح پڑھے بے فائدہ ہے۔
توبہ کا اصل مطلب ہے اللہ کی طرف پلٹنا۔ احساس شرمندگی، اپنے رویے کے غلط ہونے کا احساس کر کے اللہ کی طرف پلٹنے کو توبہ کہتے ہیں۔ توبہ ان کی قبول ہوتی ہے جو توبہ کے ساتھ نیک کام بھی کرتے ہیں۔
وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا (71)
الفرقان 71
"اور جو توبہ کرتا اور اچھا عمل کرتا ہے(اس کو مطمئن ہونا چاہیے )،اس لیے کہ وہ پوری سرخ روئی کے ساتھ اللہ کی طرف لوٹتا ہے۔"(الفرقان 71)
اس آیت میں توبہ کرنے والوں کے لئے دنیا اور آخرت دونوں میں اللہ کی سرپرستی کی بشارت ہے۔
توبہ کا اصل مطلب ہے اللہ کی طرف پلٹنا۔ احساس شرمندگی، اپنے رویے کے غلط ہونے کا احساس کر کے اللہ کی طرف پلٹنے کو توبہ کہتے ہیں۔ توبہ ان کی قبول ہوتی ہے جو توبہ کے ساتھ نیک کام بھی کرتے ہیں۔
اللہ کی طرف پلٹنے سے مراد ہے کہ انسان توبہ کے بعد دوبارہ گناہ کی طرف نہ پلٹے اور واقعی دل سے اپنے گناہ پر شرمندہ ہو۔ اور اپنے گناہ پر معافی کے ساتھ تلافی کی بھی کوشش کرے۔
معاملہ چاہے اللہ کے حقوق کا ہو یا بندوں کے حقوق کا، صرف معافی مانگنا کافی نہیں ہوتا معافی کے ساتھ ساتھ جو نقصان کیا گیا ہے اس کو بھی پورا کیا جائے یعنی تلافی یا اصلاح بھی ضروری ہوتی ہے۔
"پھر ان کے لئے جو جذبات سے مغلوب ہو کر برائی کر بیٹھیں، پھر اس کے بعد توبہ کر لیں اور اپنی اصلاح کر لیں تو اس کے بعد، تمہارا پروردگار اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بڑا ہی بخشنے والا اور ان پر رحمت کرنے والا ہے۔"(النحل 119)
معافی، تلافی اور اصلاح کے بعد اگلا مرحلہ شروع ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو نیکی کے راستے پر قائم کیسے رکھا جائے۔ اس کے لئے قرآن نے یہ طریقہ بتایا ہے کہ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرنی چاہیے جو خود بھی نیک ہوں اور دوسروں کو بھی نیکی کی طرف راغب کرتے ہوں۔ انسان کمزور پیدا ہوا ہے لہذا آس پاس کا ماحول اس پر بہت جلدی اثر انداز ہوتا ہے۔
"اے ایمان والوں!(ان غلطیوں سے بچنا چاہتے ہو تو )اللہ سے ڈرتے رہو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔"(119 توبہ )
اس کے علاوہ انسان دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے اپنے آپ پر تنقید کرے تو اپنی برائیوں کی نشاندہی کر کے انہیں صحیح کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔
اگر کسی انسان کی توبہ میں احساس شرمندگی، تلافی اور اصلاح کا جذبہ شامل نہیں تو پھر وہ دن بھر میں ایک لاکھ بھی استغفار کی تسبیح پڑھے بے فائدہ ہے۔
توبہ کا اصل مطلب ہے اللہ کی طرف پلٹنا۔ احساس شرمندگی، اپنے رویے کے غلط ہونے کا احساس کر کے اللہ کی طرف پلٹنے کو توبہ کہتے ہیں۔ توبہ ان کی قبول ہوتی ہے جو توبہ کے ساتھ نیک کام بھی کرتے ہیں۔