تنگ نظر ۔
مولویوں کی تنگ نظری پر تو بڑی باتِیں ہوتی ہیں۔ بڑی کہانیاں بنتی ہیں مگر تنگ نظر و دقیانُوسی صرف مولوی حضرات ہی نہیں ہوتے۔ اپڑیں دیسی اور دو نمبریئے لبرلز کی آنکھ کا سکین اور دل کا کورونری سکین یا آسان الفاظ میں خاص قسم کا ایکسرے کرائیں تو پتہ چلے گا کہ۔ ان کی آنکھ ایک خاص زاویئے سےہٹ کر دیکھنے سے کیوں قاصر اور دل کسی تازہ ہوا کو لینے سے کیوں محرُوم ہوتے ہیں۔ کیوں کہ آنکھ کو انہوں نے ایک خاص مقام پر لے جا کر ایلفی نُما شے سے جام کیا ہوا ہوتا ہے۔ جس سے نہ وہ دائیں دیکھ پاتے ہیں نہ بائیں۔ اور دل کی تازہ ہوا سے محرُومی کی وجہ تو ایک بچہ بھی جان جائے۔ جب آپ کمرے کے کھڑکی دروازوں کے ساتھ روشن دانوں کو بھی بند کیئے رکھیں تو اسی قسم کی گھٹُن کا احساس ہونے لگتا ہے جیسا کہ ان کرائے کے لبرلز کو ہوتا ہے۔حالانکہ یہ خود کو انتہائی آزاد تصور کرتے ہیں۔
یقین نہیں آتا تو کلین شیو والے حضرات ایک ہفتے کی شیو بڑھا کر سر پر ٹوپی اور شلوار یا پتلُون کے پائینچے ٹخنوں سے ذرہ اُنچا کر کے اُن سے ملیں۔ جو کب کے مزہب ثقافت و قومیت سے بیزار بیٹھے ہیں۔ جن کا بس نہیں چلتا کہ کوئی ہوا چلے جو انہیں اڑا کر کسی مغربی مُلک میں پھینک آئے۔ مگر یہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان کے کرتُو توں کی وجہ سے انہیں وہاں پہنچ کر بھی سکون نہیں ملے گا۔
اُن کا پہلا ری ایکشن اُن کی آنکھوں اور پھر زبان سے آئے گا۔ کہ کیا ہوا بھئی ۔ مولوی بن گئے کیا۔؟۔ جبکہ اپنے پینٹ کے پائینچوں کو اُوپر رکھیں یا نیچھے اس سے کسی کو کیا۔ خُود اپنی جلد پر ظُلم کرتے ہوئے روزانہ اُلٹی شیو کریں۔ اُس پر پاوڈر و کریمیں توپیں یاپھر دور جدید کے تقاضوں کے عین مُطابق چہرے پر تھوڑی سی لالی بھی لگائیں تو اُن کی مرضی۔زنانہ انداز والے گُلابی رنگ کے شرٹ و سُفید رنگ کی پینٹ پہنیں یا گُلابی رنگ کی پینٹ اور ہلکے سبز رنگ کی شرٹ اُس سےکسی کو کیا۔ ان میں اکثر اپنی جنس پر بھی کنفیوز سے رہتے ہیں۔ کہ قُدرت نے انہیں ایسا کیوں بنایا ۔اور ویسا کیوں نہیں بنایا۔ یا اکثر تو دو مُختلف اجناس کے بجائے یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ قُدرت نے دونوں کو ایک ہی کیوں نہیں بنایا۔ اور خود یہی ٹو ان ون ٹائپ جنس بننے کی اپنی سی کوشش میں کوئ خاص قسم کی شے بن جاتے ہیں۔
ویسے تو یہ سیاسی کالم نہیں تھا۔ مگر یہاں میں کم از کم ایسی تین مثالیں دے سکتا ہوں جن پر لوگوں کو شک ہے کہ یہ تین میں ہیں نہ تیرا میں۔ بلاول کو تو آپ جانتے ہی ہونگے۔ اُس پر تبصرے کی ضرُورت ہی نہیں۔ شاید حال ہی میں بلاول کے کزن اور فاطمہ بھٹو کے بھائی کی ویڈیو آپ کی نظر سے گُزری ہو۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ بندہ کہنا کیا چاہتا یا چاہتی ہے۔ایک اور مثال ہے جناب جُنید صفدر۔ غالب امکان ہے کہ بلاول کی طرح یہ بھی اپنی ولدیت پر شرمندہ سے ہوکر جُنید صفدر سے جُنید شریف بن جائیں گے۔ اُن کی ابھی ایک ہی تصویر نے مارکیٹ ہٹ کی تھی اور وہ ہٹ ہوگئے۔ ایک دوست نے جانے مُحبت یا حسد میں کہا کیہ یقینا کچن سے اپنی امی کی املی چُھپا کر کھاتا رہا ہوگا۔ جانے املی بیچاری کا ان کو اس حالت تک پہنچانے میں کیا کردار ۔ کسی دوسرے دوست نے کہا کہ یہ جو تین لڑکیاں ہیں ان میں یہ ایک تو پونے تین لگ رہی ہے۔ گُستاخ جسے پونے تین کہہ رہا تھا۔ وہ شریف سلطنت کےچشم و چراغ تھے۔
بات ہو رہی تھی آزاد خیالوں کی۔ ہوتے یہ آزاد خیال ہیں مگر ان کی آزاد خیالی بس اپنے تک ہی محدُود رہتی ہے۔ وہ یہ نہیں سوچھتے کہ آپ کی اپنی مرضی ہے تو دوسرے کم بخت کی بھی اپنی مرضی ہوتی ہے۔ وہ آپکی زندگی کی ٹکٹ پر اس جہان فانی کی فلم دیکھنے نہیں آیا ہوتا ہے۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ کوئی آپ کو نہ سکھائے کہ کیسے جیا جائے تو آپ کیسے کسی اور کو سکھانے کی کوشش یا اُن کے لائف سٹائل کا مزاق اُڑاسکتے ہیں۔بات بے بات مولوی کی آڑ میں مزہب اور مُلک و اس کی ثقافت کو دقیانُوسی و تنگ نظری کے تعنے۔ لاحولا ولا قوۃ۔ نہیں پسند تو ٹھیک ہے۔ آپ جیسے جینا چاہیں جیئں۔
لبرل کے اصل معنی تو آزاد کے ہوتے ہیں ۔مطلب آپ آزاد ہو تو دوسرا بھی آزاد ہے۔ یہی سکھایا ہے ہمارے پیارے نبی ۔۔pbuh۔نے۔ اور یہی سکھایا ہے ہمارے قُرآن پاک نے۔ ورنہ اللہ تعالٰی کے لیئے کیا مُشکل تھا کہ نافرمانی کی صُورت میں مکے والوں پر زمین ہی اُلٹ دیتے یا پہاڑ کو لاکر اُن کے سر کے اُوپر لہرادیتے۔سارے کے سارے ڈر کے مارے ہی ایمان لے آتے۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ ہر ایک کو آزادی تھی ہے اور رہے گی۔ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی مولوی بھی کسی پر زبردستی اپنے خیالات ۔ اپنے حُکم صادر کرنے کی کوشش کرے تو اس کی بھی اجازت نہیں۔ کسی کو نیکی کے رستے پر لانا ہے تو پہلے خُود نیک بننا ہوگا۔ پہلے خُود اپنے عمل سے کر کے دکھانا ہوگا۔
facebook.com/JANI1JANI1/