ترک ماڈل شہباز شریف ماڈل یا نعمت اللہ خان ماڈل

مہاتیر محمد کی قیادت میں ملائیشیا کا نقشہ بدلنا شروع ہوا تو جلد ہی مہاتیر مسلم دنیا کے مقبول ترین حکمران بن گئے۔ ترک وزیراعظم رجب طیب ایردوان نے ڈوبتی ترک معیشت کو سہارا دیا تو مشرق و مغرب ہر جگہ ترک ماڈل کا چرچا ہونے لگا۔ مصر میں بے نظیر عوامی مزاحمت کے نتیجے میں انقلاب آیا تو صدر زرداری نے خبردار کیا کہ پاکستان میں مصری ماڈل نہیں چلے گا۔ ذرا مزید ماضی میں جائیں تو ہر طرف انقلابِِ ایران کا چرچا تھا، لوگ کہتے نظر آتے کہ پاکستان کو بھی ایک خمینی کی ضرورت ہے۔ ملک میں بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہوا تو بعض احباب ملاعمر کے پُرامن افغانستان کی مثالیں دیتے نظر آتے۔ مہاتیر، ایردوان، ملاعمر اور خمینی ان شخصیات اور ان کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے نظام نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا لازم ہے کہ ہم کبھی امریکہ اور یورپ کی طرف دیکھیں اورکبھی مہاتیر اور ایردوان کی مثالیں دیں؟ کیا پاکستان کی 65 سالہ تاریخ میں ہم کسی بھی سطح پر ایک بھی ایسا وزیراعظم، وزیراعلیٰ یا میئر نہیں منتخب کرسکے جس کی اصلاحات یا ماڈل کی دنیا کے دیگر ممالک نہ سہی کم ازکم پاکستان کی سیاسی جماعتیں ہی تقلید کرسکیں؟
اس سوال کے جواب کے لیے ہم نے تاریخ کے اوراق پلٹے تو ایوب خان کی معاشی اصلاحات، ذوالفقار علی بھٹو کا اسلامی سوشلزم، ضیاء الحق کا اسلامی نظام، میاں صاحب اور بی بی صاحبہ کے 2، 2 مختصر جمہوری ادوار، پرویزمشرف کی روشن خیالی اور زرداری صاحب کی مفاہمت کے ماڈل سامنے آئے۔ ہم نے ان ماڈلز پر غور کیا تو ایوب خان کی معاشی اصلاحات سے بنگلہ دیش، ذوالفقار علی بھٹو کے اسلامی سوشلزم سے صنعتی تباہی، ضیاء الحق کے اسلامی نظام سے فرقہ واریت اور لسانی تفریق، بی بی صاحبہ اور میاں صاحبب کے جمہور ی ادوار سے پرویزمشرف، اور مشرف کی روشن خیالی سے دہشت گردی برآمد ہوتی دکھائی دی۔
ہم نے شہبازشریف کی بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب کارکردگی پر بھی نظر ڈالی۔ پنجاب کے لیے ان کی خدمات دیکھیں تو خیال آیا کہ وفاق اور دیگر صوبوں کو ان کی تقلید کرنی چاہیے، مگر جب دیکھا کہ شہبازشریف صرف وزیراعلیٰ پنجاب نہیں بلکہ وزیر داخلہ، وزیر اطلاعات، وزیر خزانہ اور جانے کیا کیا ہیں تو ہم نے نہ صرف اسے جمہوری اقدار کے منافی پایا بلکہ شخصی حکمرانی کی بو بھی آئی۔ اسی دوران جب ہمیں خادم اعلیٰ کے امپورٹڈ ماہرین تعلیم مائیکل باربر اور ریمنڈ صوبے میں تعلیم جیسے اہم ترین شعبے کی کمان سنبھالے نظر آئے تو سمجھ میں آیا کہ کیوں قومی زبان اردو کی جگہ سابقہ آقاؤں کی زبان انگریزی کو پہلی کلاس سے دسویں کلاس تک ذریعہ تعلیم قرار دیا گیا ہے، اورکیوں سرکاری سرپرستی میں مخلوط تعلیم کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ہم نے پنجاب پولیس کی کارکردگی پر نظر ڈالی تو حیرت ہوئی کہ 2مرتبہ تختِ پنجاب پر براجمان ہونے والے شہبازشریف تمام تر اختیارات کے باوجود آج تک پولیس جیسے اہم ترین شعبے کی اصلاح ہی نہ کرپائے!
مایوسی کے اسی عالم میں ہماری نظر سابق صدر پرویز مشرف کے اس بیان پر پڑی کہ کراچی میں حیرت انگیز ترقیاتی کاموں کا کریڈٹ ناظم شہر نعمت اللہ خان کو جاتا ہے،کراچی پیکج کا بنیادی آئیڈیا انہوں نے ہی پیش کیا، میں نے ناظم کراچی کی تعریف نہیں کی بلکہ حقیقت بیان کی ہے، یہ سٹی ناظم کا کریڈٹ ہے جو انہیں ملنا چاہیے (قومی اخبارات 18دسمبر2004ئ)۔ پھر ہم نے قومی تعمیر نو بیورو کے سابق چیئرمین دانیال عزیز کو نعمت اللہ خان پر دادو تحسین کے ڈونگرے برساتے دیکھا۔ سابق صدر پرویزمشرف اور دانیال عزیز کے یہ اعترافی بیانات ہمارے لیے اس وجہ سے حیران کن تھے کہ جماعت اسلامی اور پرویز مشرف کے درمیان شدید اختلاف کسی سے پوشیدہ نہ تھے۔ ہم سوچ میں پڑ گئے کہ کیا وجہ ہے کہ نظریاتی اور سیاسی مخالفین بھی اس بزرگ کی خدمات کا اعتراف کررہے ہیں!
اس حقیقت کو جاننے کے لیے ہم 2001ء میں جاپہنچے اوردیکھا کہ نعمت اللہ خان ناظم شہر کی حیثیت سے حلف اٹھا رہے ہیں، آنکھوں سے آنسو رواں ہیں جیسے ضعیف کندھوں پر بارِ گراں رکھ دیا گیا ہو۔ تقریبِ حلف برداری کے بعد ہی نومنتخب ناظم شہر شکست خوردہ امیدوار تاج حیدر کے گھر جاپہنچے اور انہیں گلے سے لگایا۔
نعمت اللہ خان نے جب شہر کا نظم و نسق سنبھالا تو انہیں ایک جانب تباہ حال اور تاریک شہر کو دوبارسجانا اور سنوارنا تھا، تو دوسری جانب نیا نظام اس قدر پیچیدہ تھا کہ کئی ماہ تو یہی سمجھنے میں لگ گئے کہ ناظم کے اختیارات کیا ہیں؟ کون سے ادارے صوبائی حکومت کے ماتحت ہوں گے اور کون سے شہری حکومت کے؟ مسائل کا ایک پہاڑ کھڑا تھا، شہر کراچی بلامبالغہ کچرا کنڈی میں تبدیل ہوچکا تھا، شاہراہیں تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں، سڑکیں تباہ حال تھیں، تعلیمی ادارے ویران اور شہری سہمے ہوئے تھے۔ ناظمِ شہر نے چارج سنبھالتے ہی صفائی مہم کا اعلان کیا تو معلوم ہوا کہ کچرا اٹھانے کے لیے گاڑیاں ہیں نہ جمعدار۔ 2کروڑ آبادی کے شہر کا کل بجٹ فقط 6 ارب روپے تھا۔ ناظمِ شہر کو سب سے پہلے شہر کی بحالی اور پھر تعمیرنو کا چیلنج درپیش تھا۔
لیکن ہمیں نظر آیا کہ نعمت اللہ خان کا ماڈل ایمان داری اور شفافیت کا ماڈل تھا، اسی لیے دیانت داری اور بہترین منصوبہ بندی کے نتیجے میں شہری حکومت، کراچی کا بجٹ صرف ابتدائی چار سال میں چھ ارب روپے سے بڑھ کر بیالس ارب روپے تک جاپہنچا۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے تعاون سے پروکیورمنٹ مینوئل تشکیل دے کر اسے نافذ کیا گیا۔ ایک منصوبے کا پی سی ون تیار ہوچکا تھا،لاگت کا تخمینہ 25کروڑ روپے لگایا گیا۔ جب نعمت صاحب نے چارج سنبھالنے کے بعد دوبارہ ٹینڈر کرایا تو لاگت 6کروڑ روپے رہ گئی۔ صرف پیٹرول اور ڈیزل کی مد میں ہونے والی سالانہ 8کروڑ روپے کی کرپشن کا خاتمہ ہوا۔ شارع فیصل فلائی اوور کا تخمینہ 26کروڑ روپے لگایاگیا تھا مگر اسے 18 کروڑ روپے میں مکمل کیا گیا۔
ہم نے دیکھا کہ یہ تعلیم کا ماڈل ہے، پہلے ہی بجٹ کی ریکارڈ31 فیصد رقم تعلیم کے لیے مختص کی گئی، شہرمیں 32نئے کالج تعمیر ہوئے، کالجوں میں محض 500 روپے سالانہ کی بنیاد پر بی سی ایس کی کلاسیں شروع کرائی گئیں، ہزاروں طلبہ جو مہنگے اداروں سے یہ ڈگریاں حاصل نہیں کرپاتے تھے، اب صرف چند ہزار روپے خرچ کرکے آئی ٹی کے ماہر بننے لگے۔ طالبات کو تعلیم کی جانب راغب کرنے کے لیے چھٹی تا آٹھویں جماعت کی تمام طالبات کو ماہانہ 100 روپے اسکالر شپ دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ غریب طالبات کو 1500 اور 1000 روپے فی طالبہ کے حساب سے اسکالرشپس دی گئیں۔ محکمہ تعلیم میں ایسی بے مثال منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا گیا کہ محض 4 سال قبل شہر بھر کے سرکاری اسکولوں میں گنتی کے 200 طلباء و طالبات میٹرک کے امتحانات میں اے ون یا اے گریڈ میں پاس ہوئے تھے اور 4 سال بعد یہ تعداد 2000 تک جاپہنچی۔
ہم نے دیکھا کہ یہ انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کا ماڈل ہے۔ تمام بڑی شاہراہوں مثلاًراشد منہاس روڈ، جہانگیرروڈ، ڈالمیا روڈ، ماری پور روڈ وغیرہ کو ازسرنو تعمیر کیا گیا۔ لیاری ایکسپریس وے اور ناردرن بائی پاس جیسے بڑے منصوبوں پر کام کا آغاز ہوا، ٹریفک کے مسائل پر قابو پانے کے لیے نئے فلائی اوورز جیسے ایف ٹی سی فلائی اوور، شارع قائدین فلائی اوور، شارع فیصل فلائی اوور، سہراب گوٹھ فلائی اوور، غرض پورے شہر میں ترقیاتی کاموں کا جال پھیلادیا گیا۔
ٹرانسپورٹ کے شعبے میں اربن ٹرانسپورٹ اسکیم کا آغازکیا گیا۔ پہلی بار شہر میں سینکڑوں کی تعداد میں بڑی سی این جی بسیں چلائی گئیں، باقاعدہ سروے کے بعد بالائی گزرگاہیں اور شہریوں کی سہولت کے لیے بس شیلٹرز کی تنصیب کا سلسلہ شروع ہوا، انٹر سٹی بس ٹرمینلز کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ کراچی سرکلر ریلوے کو دوبارہ فعال کیا گیا۔ اس مطالعے کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ اگر ناظمِ شہر کو صوبائی اور وفاقی حکومت کا تعاون حاصل ہوتا تو لائٹ ٹرین کے منصوے پر بھی کام کا آغاز ہوجاتا۔
شہر کی تمام شاہراہیں اور اندرونی گلیاں و محلے تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے، شہری حکومت نے چار سال کے عرصے میں تمام شاہراہوں، چورنگیوں اور گلی محلّوں تک کو اسٹریٹ لائٹس سے روشن کردیا۔300 پارکوں کی تعمیرکی گئی یا انہیں اصلی حالت میں بحال کیا گیا، ہر ٹاؤن میں ماڈل پارک بنائے گئے۔ سفاری پارک کا سفاری ایریا34 سال بعد کھولا گیا تو لاکھوں افراد نے پارک کا رخ کیا۔ صحت کے شعبے میں امراضِ قلب کے عظیم منصوبے کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کو پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا جو شہریوں کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہوا۔
نعمت اللہ خان نے کراچی کے لیے 29ارب روپے کا تعمیر کراچی پروگرام منظور کرایا، جس کے ساتھ ہی جہاں کئی نئے منصوبوں کا آغاز ہوا وہیں مستقبل کے لیے متعدد منصوبوں کی نشاندہی اور رقم کے حصول کا ذریعہ بھی میسر آگیا۔ شہر کی تمام یونین کونسلوں کو بلاتفریق سالانہ لاکھوں روپے فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا، جس کے نتیجے میں ترقیاتی کام گلی محلے تک کی سطح پر نظر آنے لگے۔
غرض نعمت اللہ ماڈل کا مطالعہ کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اس بزرگ کے پاس یا تو جادو کا چراغ تھا یا پھر اسے کوئی غیبی مدد حاصل تھی کہ چار سال کے مختصر عرصے میں شہر کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب 2005ء میں ورلڈ میئرز ڈاٹ کام نے بہترین میئر کون؟ کا مقابلہ کرایا تو پورے جنوبی ایشیا سے صرف نعمت صاحب کا انتخاب ہوا۔ پیپلزپارٹی کے ایک رہنما نے بھری محفل میں کہا کہ نعمت صاحب نے شہر کے لیے اس قدر کام کیا ہے کہ ڈیفنس کے سارے شرابی بھی انہی کو ووٹ دیں گے۔
ہم اس نتیجے پر بھی پہنچے کہ نعمت صاحب کا اصل کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے کراچی کو اُس وقت سنبھالا دیا جب کوئی تاریکیوں میں ڈوبے اس شہر کو سنبھالنے کے لیے تیار نہ تھا۔ شہر کی دعویدار جماعت نے مشکل حالات میں کھنڈرات کا منظر پیش کرتے شہر کو اون کرنے سے انکار کردیا تھا، مگر نعمت صاحب آگے بڑھے اور کراچی کو پھر روشنیوں کا شہر بنادیا۔
ہم نے دیکھا کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے اس مہاجر کا احترام پنجابی، پٹھان، سندھی اور بلوچ اس طرح کرتے جیسے یہ ان کی پنچائت، جرگے یا قبیلے کا سربراہ ہو۔ مختلف مسالک اور فرقوںکے افراد اپنے تنازعات کے حل کے لیے اسی بزرگ پر بھروسا کرتے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی، نعمت اللہ ماڈل کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ جب وہ اقتدار میں تھے تو 16گھنٹے کام کرتے، عوام کے درمیان رہتے، اور جب اقتدار سے الگ ہوئے تو اب بھی جدہ، لندن یا دبئی کے بجائے کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔ کبھی صحرائے تھر کی تپتی دھوپ میں مکینوں کو سائبان فراہم کرتے نظر آتے ہیں، تو کبھی سیلابی پانی میں کھڑے متاثرین کی امداد کرتے دکھائی دیتے ہیں، کبھی زلزلے کے نتیجے میں بے گھر ہوجانے والے متاثرین کو چھت فراہم کررہے ہیں توکبھی یتیم بچوں کی کفالت کا پروگرام شروع کررہے ہیں، اورکبھی شفاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں کا افتتاح کررہے ہیں۔
دراصل پاکستان کو اسی ماڈل کی ضرورت ہے جو امانت، دیانت، اعتدال، خدمت اور علم و حکمت کا ماڈل ہے۔ اگر پاکستانی سیاستدان ملائیشین، کورین، ترک اور سنگاپور ماڈل کو چھوڑ کر صرف نعمت اللہ ماڈل کی تقلید کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ جس طرح چار سال کے مختصر عرصے میں برسوں سے تباہ حال شہر کی حالت بدل گئی تھی اگلے چار سال میں پورے ملک کی حالت تبدیل ہوجائے۔
http://fridayspecial.com.pk/17605اس سوال کے جواب کے لیے ہم نے تاریخ کے اوراق پلٹے تو ایوب خان کی معاشی اصلاحات، ذوالفقار علی بھٹو کا اسلامی سوشلزم، ضیاء الحق کا اسلامی نظام، میاں صاحب اور بی بی صاحبہ کے 2، 2 مختصر جمہوری ادوار، پرویزمشرف کی روشن خیالی اور زرداری صاحب کی مفاہمت کے ماڈل سامنے آئے۔ ہم نے ان ماڈلز پر غور کیا تو ایوب خان کی معاشی اصلاحات سے بنگلہ دیش، ذوالفقار علی بھٹو کے اسلامی سوشلزم سے صنعتی تباہی، ضیاء الحق کے اسلامی نظام سے فرقہ واریت اور لسانی تفریق، بی بی صاحبہ اور میاں صاحبب کے جمہور ی ادوار سے پرویزمشرف، اور مشرف کی روشن خیالی سے دہشت گردی برآمد ہوتی دکھائی دی۔
ہم نے شہبازشریف کی بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب کارکردگی پر بھی نظر ڈالی۔ پنجاب کے لیے ان کی خدمات دیکھیں تو خیال آیا کہ وفاق اور دیگر صوبوں کو ان کی تقلید کرنی چاہیے، مگر جب دیکھا کہ شہبازشریف صرف وزیراعلیٰ پنجاب نہیں بلکہ وزیر داخلہ، وزیر اطلاعات، وزیر خزانہ اور جانے کیا کیا ہیں تو ہم نے نہ صرف اسے جمہوری اقدار کے منافی پایا بلکہ شخصی حکمرانی کی بو بھی آئی۔ اسی دوران جب ہمیں خادم اعلیٰ کے امپورٹڈ ماہرین تعلیم مائیکل باربر اور ریمنڈ صوبے میں تعلیم جیسے اہم ترین شعبے کی کمان سنبھالے نظر آئے تو سمجھ میں آیا کہ کیوں قومی زبان اردو کی جگہ سابقہ آقاؤں کی زبان انگریزی کو پہلی کلاس سے دسویں کلاس تک ذریعہ تعلیم قرار دیا گیا ہے، اورکیوں سرکاری سرپرستی میں مخلوط تعلیم کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ہم نے پنجاب پولیس کی کارکردگی پر نظر ڈالی تو حیرت ہوئی کہ 2مرتبہ تختِ پنجاب پر براجمان ہونے والے شہبازشریف تمام تر اختیارات کے باوجود آج تک پولیس جیسے اہم ترین شعبے کی اصلاح ہی نہ کرپائے!
مایوسی کے اسی عالم میں ہماری نظر سابق صدر پرویز مشرف کے اس بیان پر پڑی کہ کراچی میں حیرت انگیز ترقیاتی کاموں کا کریڈٹ ناظم شہر نعمت اللہ خان کو جاتا ہے،کراچی پیکج کا بنیادی آئیڈیا انہوں نے ہی پیش کیا، میں نے ناظم کراچی کی تعریف نہیں کی بلکہ حقیقت بیان کی ہے، یہ سٹی ناظم کا کریڈٹ ہے جو انہیں ملنا چاہیے (قومی اخبارات 18دسمبر2004ئ)۔ پھر ہم نے قومی تعمیر نو بیورو کے سابق چیئرمین دانیال عزیز کو نعمت اللہ خان پر دادو تحسین کے ڈونگرے برساتے دیکھا۔ سابق صدر پرویزمشرف اور دانیال عزیز کے یہ اعترافی بیانات ہمارے لیے اس وجہ سے حیران کن تھے کہ جماعت اسلامی اور پرویز مشرف کے درمیان شدید اختلاف کسی سے پوشیدہ نہ تھے۔ ہم سوچ میں پڑ گئے کہ کیا وجہ ہے کہ نظریاتی اور سیاسی مخالفین بھی اس بزرگ کی خدمات کا اعتراف کررہے ہیں!
اس حقیقت کو جاننے کے لیے ہم 2001ء میں جاپہنچے اوردیکھا کہ نعمت اللہ خان ناظم شہر کی حیثیت سے حلف اٹھا رہے ہیں، آنکھوں سے آنسو رواں ہیں جیسے ضعیف کندھوں پر بارِ گراں رکھ دیا گیا ہو۔ تقریبِ حلف برداری کے بعد ہی نومنتخب ناظم شہر شکست خوردہ امیدوار تاج حیدر کے گھر جاپہنچے اور انہیں گلے سے لگایا۔
نعمت اللہ خان نے جب شہر کا نظم و نسق سنبھالا تو انہیں ایک جانب تباہ حال اور تاریک شہر کو دوبارسجانا اور سنوارنا تھا، تو دوسری جانب نیا نظام اس قدر پیچیدہ تھا کہ کئی ماہ تو یہی سمجھنے میں لگ گئے کہ ناظم کے اختیارات کیا ہیں؟ کون سے ادارے صوبائی حکومت کے ماتحت ہوں گے اور کون سے شہری حکومت کے؟ مسائل کا ایک پہاڑ کھڑا تھا، شہر کراچی بلامبالغہ کچرا کنڈی میں تبدیل ہوچکا تھا، شاہراہیں تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں، سڑکیں تباہ حال تھیں، تعلیمی ادارے ویران اور شہری سہمے ہوئے تھے۔ ناظمِ شہر نے چارج سنبھالتے ہی صفائی مہم کا اعلان کیا تو معلوم ہوا کہ کچرا اٹھانے کے لیے گاڑیاں ہیں نہ جمعدار۔ 2کروڑ آبادی کے شہر کا کل بجٹ فقط 6 ارب روپے تھا۔ ناظمِ شہر کو سب سے پہلے شہر کی بحالی اور پھر تعمیرنو کا چیلنج درپیش تھا۔
لیکن ہمیں نظر آیا کہ نعمت اللہ خان کا ماڈل ایمان داری اور شفافیت کا ماڈل تھا، اسی لیے دیانت داری اور بہترین منصوبہ بندی کے نتیجے میں شہری حکومت، کراچی کا بجٹ صرف ابتدائی چار سال میں چھ ارب روپے سے بڑھ کر بیالس ارب روپے تک جاپہنچا۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے تعاون سے پروکیورمنٹ مینوئل تشکیل دے کر اسے نافذ کیا گیا۔ ایک منصوبے کا پی سی ون تیار ہوچکا تھا،لاگت کا تخمینہ 25کروڑ روپے لگایا گیا۔ جب نعمت صاحب نے چارج سنبھالنے کے بعد دوبارہ ٹینڈر کرایا تو لاگت 6کروڑ روپے رہ گئی۔ صرف پیٹرول اور ڈیزل کی مد میں ہونے والی سالانہ 8کروڑ روپے کی کرپشن کا خاتمہ ہوا۔ شارع فیصل فلائی اوور کا تخمینہ 26کروڑ روپے لگایاگیا تھا مگر اسے 18 کروڑ روپے میں مکمل کیا گیا۔
ہم نے دیکھا کہ یہ تعلیم کا ماڈل ہے، پہلے ہی بجٹ کی ریکارڈ31 فیصد رقم تعلیم کے لیے مختص کی گئی، شہرمیں 32نئے کالج تعمیر ہوئے، کالجوں میں محض 500 روپے سالانہ کی بنیاد پر بی سی ایس کی کلاسیں شروع کرائی گئیں، ہزاروں طلبہ جو مہنگے اداروں سے یہ ڈگریاں حاصل نہیں کرپاتے تھے، اب صرف چند ہزار روپے خرچ کرکے آئی ٹی کے ماہر بننے لگے۔ طالبات کو تعلیم کی جانب راغب کرنے کے لیے چھٹی تا آٹھویں جماعت کی تمام طالبات کو ماہانہ 100 روپے اسکالر شپ دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ غریب طالبات کو 1500 اور 1000 روپے فی طالبہ کے حساب سے اسکالرشپس دی گئیں۔ محکمہ تعلیم میں ایسی بے مثال منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا گیا کہ محض 4 سال قبل شہر بھر کے سرکاری اسکولوں میں گنتی کے 200 طلباء و طالبات میٹرک کے امتحانات میں اے ون یا اے گریڈ میں پاس ہوئے تھے اور 4 سال بعد یہ تعداد 2000 تک جاپہنچی۔
ہم نے دیکھا کہ یہ انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کا ماڈل ہے۔ تمام بڑی شاہراہوں مثلاًراشد منہاس روڈ، جہانگیرروڈ، ڈالمیا روڈ، ماری پور روڈ وغیرہ کو ازسرنو تعمیر کیا گیا۔ لیاری ایکسپریس وے اور ناردرن بائی پاس جیسے بڑے منصوبوں پر کام کا آغاز ہوا، ٹریفک کے مسائل پر قابو پانے کے لیے نئے فلائی اوورز جیسے ایف ٹی سی فلائی اوور، شارع قائدین فلائی اوور، شارع فیصل فلائی اوور، سہراب گوٹھ فلائی اوور، غرض پورے شہر میں ترقیاتی کاموں کا جال پھیلادیا گیا۔
ٹرانسپورٹ کے شعبے میں اربن ٹرانسپورٹ اسکیم کا آغازکیا گیا۔ پہلی بار شہر میں سینکڑوں کی تعداد میں بڑی سی این جی بسیں چلائی گئیں، باقاعدہ سروے کے بعد بالائی گزرگاہیں اور شہریوں کی سہولت کے لیے بس شیلٹرز کی تنصیب کا سلسلہ شروع ہوا، انٹر سٹی بس ٹرمینلز کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ کراچی سرکلر ریلوے کو دوبارہ فعال کیا گیا۔ اس مطالعے کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ اگر ناظمِ شہر کو صوبائی اور وفاقی حکومت کا تعاون حاصل ہوتا تو لائٹ ٹرین کے منصوے پر بھی کام کا آغاز ہوجاتا۔
شہر کی تمام شاہراہیں اور اندرونی گلیاں و محلے تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے، شہری حکومت نے چار سال کے عرصے میں تمام شاہراہوں، چورنگیوں اور گلی محلّوں تک کو اسٹریٹ لائٹس سے روشن کردیا۔300 پارکوں کی تعمیرکی گئی یا انہیں اصلی حالت میں بحال کیا گیا، ہر ٹاؤن میں ماڈل پارک بنائے گئے۔ سفاری پارک کا سفاری ایریا34 سال بعد کھولا گیا تو لاکھوں افراد نے پارک کا رخ کیا۔ صحت کے شعبے میں امراضِ قلب کے عظیم منصوبے کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کو پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا جو شہریوں کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ثابت ہوا۔
نعمت اللہ خان نے کراچی کے لیے 29ارب روپے کا تعمیر کراچی پروگرام منظور کرایا، جس کے ساتھ ہی جہاں کئی نئے منصوبوں کا آغاز ہوا وہیں مستقبل کے لیے متعدد منصوبوں کی نشاندہی اور رقم کے حصول کا ذریعہ بھی میسر آگیا۔ شہر کی تمام یونین کونسلوں کو بلاتفریق سالانہ لاکھوں روپے فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا، جس کے نتیجے میں ترقیاتی کام گلی محلے تک کی سطح پر نظر آنے لگے۔
غرض نعمت اللہ ماڈل کا مطالعہ کیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اس بزرگ کے پاس یا تو جادو کا چراغ تھا یا پھر اسے کوئی غیبی مدد حاصل تھی کہ چار سال کے مختصر عرصے میں شہر کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب 2005ء میں ورلڈ میئرز ڈاٹ کام نے بہترین میئر کون؟ کا مقابلہ کرایا تو پورے جنوبی ایشیا سے صرف نعمت صاحب کا انتخاب ہوا۔ پیپلزپارٹی کے ایک رہنما نے بھری محفل میں کہا کہ نعمت صاحب نے شہر کے لیے اس قدر کام کیا ہے کہ ڈیفنس کے سارے شرابی بھی انہی کو ووٹ دیں گے۔
ہم اس نتیجے پر بھی پہنچے کہ نعمت صاحب کا اصل کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے کراچی کو اُس وقت سنبھالا دیا جب کوئی تاریکیوں میں ڈوبے اس شہر کو سنبھالنے کے لیے تیار نہ تھا۔ شہر کی دعویدار جماعت نے مشکل حالات میں کھنڈرات کا منظر پیش کرتے شہر کو اون کرنے سے انکار کردیا تھا، مگر نعمت صاحب آگے بڑھے اور کراچی کو پھر روشنیوں کا شہر بنادیا۔
ہم نے دیکھا کہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے اس مہاجر کا احترام پنجابی، پٹھان، سندھی اور بلوچ اس طرح کرتے جیسے یہ ان کی پنچائت، جرگے یا قبیلے کا سربراہ ہو۔ مختلف مسالک اور فرقوںکے افراد اپنے تنازعات کے حل کے لیے اسی بزرگ پر بھروسا کرتے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی، نعمت اللہ ماڈل کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ جب وہ اقتدار میں تھے تو 16گھنٹے کام کرتے، عوام کے درمیان رہتے، اور جب اقتدار سے الگ ہوئے تو اب بھی جدہ، لندن یا دبئی کے بجائے کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔ کبھی صحرائے تھر کی تپتی دھوپ میں مکینوں کو سائبان فراہم کرتے نظر آتے ہیں، تو کبھی سیلابی پانی میں کھڑے متاثرین کی امداد کرتے دکھائی دیتے ہیں، کبھی زلزلے کے نتیجے میں بے گھر ہوجانے والے متاثرین کو چھت فراہم کررہے ہیں توکبھی یتیم بچوں کی کفالت کا پروگرام شروع کررہے ہیں، اورکبھی شفاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں کا افتتاح کررہے ہیں۔
دراصل پاکستان کو اسی ماڈل کی ضرورت ہے جو امانت، دیانت، اعتدال، خدمت اور علم و حکمت کا ماڈل ہے۔ اگر پاکستانی سیاستدان ملائیشین، کورین، ترک اور سنگاپور ماڈل کو چھوڑ کر صرف نعمت اللہ ماڈل کی تقلید کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ جس طرح چار سال کے مختصر عرصے میں برسوں سے تباہ حال شہر کی حالت بدل گئی تھی اگلے چار سال میں پورے ملک کی حالت تبدیل ہوجائے۔