Nida Fatima
Politcal Worker (100+ posts)
سویڈن میں قرآن نذرِ آتش

قرآن نذر آتش کرنے کے واقعے میں ایک عراقی نژاد سویڈش شخص ملوث ہے
سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں ایک شخص کی جانب سے قرآن کے نسخے کو نذر آتش کرنے کے واقعے کی پاکستان اور ترکی سمیت متعدد مسلم ممالک نے شدید مذمت کی ہے۔
بدھ کو سٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر ایک شخص کی جانب سے قران کے نسخے کو نذر آتش کیا گیا۔ قرآن جلانے کے واقعے میں ایک عراقی نژاد شحص ملوث ہے جس نے اس مظاہرے کے لیے عدالت سے باقاعدہ اجازت لی تھی۔
اس واقعے پر جہاں مراکش اور اردن نے احتجاجاً سٹاک ہوم سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں وہیں جمعرات کے روزعراق کے دارالحکومت بغداد میں واقع سویڈن کے سفارتخانے کے کمپاونڈ میں مشتعل مظاہرین بھی داخل ہوئے۔
جبکہ سویڈش حکام کی جانب سے اس نوعیت کے احتجاج کی اجازت دیے جانے پر ترکی نے سویڈن کی فوجی اتحاد نیٹو میں شمولیت کی دوبارہ مخالفت کی ہے۔ نیٹو رکنیت کے حصول کے لیے سویڈن کو ترکی کی حمایت درکار ہے۔
رواں سال جنوری کے دوران بھی سویڈن میں قرآن نذر آتش کیے جانے پر مسلم ممالک نے شدید ردعمل دیا تھا۔
سٹاک ہوم میں عید کے روز اسلام مخالف مظاہرہ
خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس واقعے کے تقریباً 200 عینی شاہدین کے مطابق مسجد کے باہر موجود دو مظاہرین میں سے ایک نے قرآن کے نسخے کو پھاڑ دیا اور مقدس اوراق کی بے حرمتی کرنے کے بعد انھیں نذر آتش کیا۔جبکہ اس دوران دوسرا شخص میگا فون پر مظاہرہ کرنے والے کی بات کا ترجمہ دہراتا رہا۔
وہاں موجود بعض افراد نے اوراق جلائے جانے پر احتجاج کرنے کے لیے ’گاڈ از گریڈ‘ (خدا عظیم ہے) کے نعرے لگائے جبکہ پتھراؤ کی کوشش کرنے والے ایک شخص کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔
بدھ کے روز مظاہرے سے قبل واقعے میں ملوث شخص سلوان مومیکا نے امریکی نیوز چینل سی این این کو بتایا تھا کہ وہ پانچ سال قبل عراق سے سویڈن آئے اور ان کے پاس سویڈن کی شہریت ہے۔

سلوان مومیکا نے سی این این کو مزید بتایا کہ وہ یہ مظاہرہ عدالت میں تین ماہ کی قانونی لڑائی کے بعد کر رہے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ قرآن پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔
واضح رہے کہ سویڈن کی پولیس نے مسلم مخالف مظاہروں کے انعقاد کی کئی درخواستیں خارج کر دی تھیں۔
تاہم ایک مقامی عدالت نے پولیس کے ان فیصلوں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ وہ آزادی اظہار کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
مسجد کے ڈائریکٹر اور امام محمود خلفی نے کہا کہ عید الاضحی کے تہوار کی تعطیل کے موقع پر احتجاج کی اجازت دینے کے فیصلے سے مسجد کے نمائندوں کو مایوسی ہوئی ہے۔
امام خلفی نے ایک بیان میں کہا کہ ’مسجد انتظامیہ نے پولیس سے درخواست کی کہ وہ کم از کم مظاہرے کو کسی دوسری جگہ کی طرف منتقل کر دیں جو قانون کے مطابق ممکن ہے۔ تاہم انھوں نے ایسا نہ کرنے کا انتخاب کیا۔‘
خلفی کے مطابق ہر سال دس ہزار کے قریب لوگ سٹاک ہوم کی مسجد میں عید کی تقریبات کے لیے آتے ہیں۔
Last edited: