آج عمران خان کی تحریک سونامی بھی حسن بن صباح کی سی فتنہ انگیز تحریک حشاشین جیسی مادر پدر آزاد تحریک بنتی جا رہی ہے۔ جلسہ گاہوں اور جلوسوں میں رقص و شباب کی بدمست فضائیں , جدید فیشن اور خوش رنگ طلسمات سے لیس پری زادوں کے غول , حسن پرست تماش بینوں کے طائفے, حشیش اور چرس کی دم مارو دم محفلیں، حسن بن صباح کی تحریک حشاشین کا نظارہ پیش کرتی ہیں۔
خاں صاحب کی مغربی تہذیب کی ہوش ربائی سے آراستہ خیالی جنت میں معاشرتی انصاف اور آزادیء نسواں کے حوالے سے دودھ اور شہد کی نہروں جیسے خوابی مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ اور یوں یقین کرنے والے پڑھے لکھے جاہل حضرات کی حسن بن صباح کے فدائین جیسی ایک ایسی نسل تیارہو رہی ہے جو عقل و فہم سے کلی بیگانہ، آنکھیں کے باوجود کلی اندھی، کانوں کے ہوتے ہوئے بھی کلی بہری ہے۔ دراصل ان سونامی پیروکاروں کو صرف وہ ” نیا پاکستان” اور آزادانہ فضا چاہئے جہاں عمرانی جلسوں کی طرز پر سرعام رقص و شباب کی محافل ہوں، سلمان احمد جیسے گستاخ قرآن و رسالت لوگ ہوش ربا میوزک پروگرام میں حسین تتلیان رقصاں ہوں۔ کر رہے ہوں
، فوزیہ قصوری جیسی امریکی باندیاں اپنے سکولوں میں ہم جنس پرستی کے مباحثے اور رمضان بھی مخلوط میوزیکل پروگرامز سے فحاشی و عریانی کی تشہیر کر کے دلوں کو گرما رہی ہو۔ مغربی تہذیب جیسے فری سیکس ماحول اور فری سٹائل آزادی کیلئے مر مٹنے کو تیار ان لوگوں کی بلا سے کہ قائد اعظم کا یہ پاکستان سلامت رہے یا خاکم بدہن نہ رہے، مگر میوزک اور ڈانس شوز جاری ہیں کہ حسن و عاشقی کے سدا بہار مواقعوں سے آراستہ ” نیا پاکستان” بن جائے۔ حسن بن صابح کے پیروکاروں کے نزدیک ان کے لیڈر کا ہر مخالف کافر اور قابلِ دشنام اور واجب القتل تھا۔ بعین سونامی حضرات کیلئے بھی فلسفہء عمران سے ذرہ برابر اختلاف رکھنے والا ہر شخص جہالت زدہ، ننگ ملک و ملت، غدار پاکستان اور فحش گالیوں کا ہی نہیں ڈنڈوں کا بھی مستحق ہے۔
بے حجاب آج چلی لیلیٰ سوئے دشت جنوں
پارسائی کسی مجنوں کی کہاں ٹھہرے گی
اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف نے زرداری کا لوٹا ہوا دھن واپس لانے کے قومی وعدوں سے کلی انحراف کر کے قوم کے ساتھ ناقابل برداشت زیادتی کی ہے۔ سانحہء ماڈل ٹاؤن کے سلسلے میں تحقیقات کے نتائج میں اس قدر دیر بھی ناقابل فہم ہے۔ قوم جاننا چاہتی ہے کہ عوام پر گولی چلانے کا حکم صادر کرنے والے وہ بدبخت لوگ کون تھے، جنہوں نے اس سانحے کی بدولت لاشوں پر سیاست کرنے کیلئے آئے ایک کینیڈین شہری کو فتنہ برپا کرنے کا موقع فراہم کیا۔ کچھ محققین کے مطابق پنجاب حکومت کے حکم کے بغیر اس کے ناک تلے اتنا بڑا سانحہ ہو جانا بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
مگر کچھ اہل دانش کا یہ بھی کہنا ہے کہ پرویز مشرف اور چوہدری برادران کی تابع بیوروکریسی کا ملوث ہونا ماورائے امکان نہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ حکومت عوامی مسائل اور رفاحی انقلاب برپا کرنے میں جزوی یا کلی طور پر ناکام ٹھہری ہے تو اس حکومت کو مذید تین سال کا عرصہ دیکر پوری طرح ناکام و بے پردہ ہونے کا انتظار کرنا چاہئے۔ سونامی تحریک میں فتنہء قادری جیسی صلیبی قوتوں کا امتزاج اور خاں صاحب کی طرف سے ماورائے آئین جلد از جلد وزیر اعظم بننے کی بے چینی بہت سارے شکوک و شبہات کا سبب بن رہی ہے۔ خان صاحب کی انتہائی غیر پارلیمانی زباں اور دھمکی آمیز بیانات تشدد کی سیاست کے فروغ اور ملک میں خانہ جنگی کروانے کی عالمی سازش کا اشارہ دیتے ہیں۔
یاد رکھا جائے کہ معاشرے اور سیاست میں انقلاب کے کسی بھی داعی کا شخصی کردار انہتائی اہم ہوتا ہے۔ لیکن تلخ حقیقت ہے کہ اپنی بیٹی ٹائرن خان کو والد کی شناخت دینے سے انکاری اور دوننوں بیٹوں کو یہودی ماحول کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والے ” انقلاب انصاف کے داعی ” صاحب اپنی اولاد کے ساتھ بھی انصاف کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
شیخ و واعظ کا بیاں، فلسفہ ء عشقِ بتاں
شاعری دیر و کلیسا کی اذاں ٹھہرے گی