تحریک انصاف کا المیہ

dangerous tears

Senator (1k+ posts)
ptiyouth-890x395_c.jpg


چند روز قبل عمران خان نے پی ٹی آئی یوتھ ونگ کے ایک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ

پاکستان تحریکِ انصاف ابھی تک ایک منظم جماعت نہیں بن سکی ۔ خان صاحب جب کنونشن سے
خطاب کے لیے پنڈال پہنچے تو پی ٹی آئی کے منچلے دوگروہوں میں بٹ گئے اور ایک دوسرے
سے لڑ پڑے۔ اس بدمزگی کے بعدعمران خان کو پروگرام ادھورا چھوڑ کر واپس لوٹنا پڑا
۔اس واقعےکے چنددن بعد ہی ملتان میں جلسے کی تیاریوں کے دوران تحریکِ انصاف کے نوجوان
صحافیوں پر شاہین بن کر جھپٹ پڑے اور کئی صحافیوں کو زدوکوب کیا۔ اس سے قبل لاہور میں
پی ٹی آئی کے جانبازوں کے ہاتھوں جیو نیوز کی خاتون صحافی کے ساتھ بدتمیزی کا واقعہ
بھی پیش آ چکا ہے



۔یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے کسی عوامی اجتماع میں ایسی بدمزگی دیکھنے \
کو ملی ہو بلکہ اس قسم کے غیر متمدن اطوار پی ٹی آئی کارکنان کا معمول بن چکے ہیں
۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیوں متوسط طبقے کے پڑھے لکھے نوجوان کسی اجتماع میں مہذب انداز سے شریک نہیں ہوتے؟
درحقیقت کسی بھی سیاسی جماعت کے بننے اور مستحکم ہونے میں تنظیمی ساخت اورنظم و ضبط کاکردارکلیدی ہے۔
جس سیاسی جماعت میں تنظیم سازی اورنظم و ضبط کا فقدان ہو یا پھرزمینی حقائق کو مدنظررکھتے ہوئے
عوامی سیاست کے بجائے خود کو مخصوص طبقات تک محدودرکھنے کی روش ہووہاں ایسے واقعات عام ہوتے ہیں
۔جس جماعت کی باگ ڈور عوامی تائید یافتہ رہنماوں کی بجائے مافوق الفطرت عناصر کے ہاتھ ہو
وہ وقتی طورپر توشہرت کی بلندیوں تک پہنچ سکتی ہے لیکن بہت جلد سمندر کی جھاگ کی مانند تحلیل ہو جاتی ہے۔


۔پی ٹی آئی کی تخلیق وارتقاء :

پاکستا ن تحریک انصاف اپنے قیام سے2011ء تک محض عمران خان کی ذات کے گرد گھومتی رہی
۔ لیکن اکتوبر 2011ء میں عمران خانے مینارِ پاکستان میں تاریخ ساز عوامی جلسہ منعقد کرکے

سیاسی پنڈتوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی مقبولیت کی اصل وجہ
پاکستان پیپلز پارٹی او ر مسلم لیگ (ن) کی خراب کارکردگی اور عمران خان کی کرشماتی شخصیت ہے
۔ اس جماعت کو پاکستان کے سیاسی افق پر بلند مقام دلانے میں مقتدر اداروں کابھی بڑا ہاتھ ہے

۔2001ء میں یہی مقتدر ادارےاپنے مفادات کی تحفظ کے لیے مسلم لیگ (ق) تخلیق کرنے کے
علاوہ پیپلز پارٹی پیٹریاٹ اورخیبر پختونخواہ میں متحدہ مجلس عمل بھی تشکیل دے چکے ہیں

۔یہ جماعتیں مشرف دور کے خاتمے کے بعد سیاسی منظر نامے سے یوں غائب ہوگئیں جیسے
گدھ کے سر سے سینگ ۔ اسی دوران ارباب اقتدار کو نئے چہرےکی ضرورت پڑی جو
عمران خان کی صورت میںباآسانی دستیاب تھا۔ انہیں انجکشن لگا کر میدان سیاست میں اتارا گیا
اوروہ 2013ء کے انتخابات میں خیبر پختونخواہ میں انتخابی کامیابی بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
تاہم اس جماعت کا طرز عمل 2011 کے انتخابی جلسے کے بعد سے مسلسل تبدیل ہورہا ہے
اور آج کی تحریک انصاف بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح کی ہی ایک سیاسی جماعت بن چکی ہے
جس میں بڑی تعداد میں دیگر جماعتوں کے بدعنوان چہرے شامل ہو چکے ہیں




تحریک انصاف کی نظریاتی سیاست کازوال :
کوئی بھی سیاسی جماعت بغیر کسی نظریے کے زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔
مختلف سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی منشور یا سیاسی دھڑے کی نمائندگی کرتی ہیں
اور اپنا سیاسی ایجنڈا عوام تک پہنچا کر اپنے وجودکو منوانے کی جستجو کرتی ہیں۔
بائیں اور دائیں بازو کی سیاسی تقسیم اب بہت زیادہ موزوں نہیں رہی کیوں کہ آج کل
کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں معاشرے کے کچلے ہوئے طبقات اور غریبوں کے مفادات

کے نام پر سیاست کرتی ہیں۔ پاکستانی تناظر میں سیکولر،اشتراکیت پسندیا لبرل خیالات
کی حامل جماعتوں کے بالمقابل دائیں بازو کی قدامت پسند مذہبی و نیم مذہبی سیاسی
جماعتوں کی تقسیم زیادہ موزوں ہے۔



ترقی پسند یا سابقہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد اور سیاسی گروہ سیکولر
جمہوریت،اشتراکی معیشت اورانسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہیں
۔شخصی آزادیوں ،اقلیتوں کے حقوق ،پر امن اور رنگارنگی (pluralism)پر مبنی معاشرے
کی تشکیل ان طبقات کا بنیادی ایجنڈا ہے ۔اس کے برعکس دائیں بازو کی سیاسی قوتیں قدامت پرست
،رجعت پسند،جدت مخالف اور مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں ۔
اگردیکھا جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی ،عوامی نیشنل پارٹی اور کسی حد تک متحدہ قومی مومنٹ

سیکولر سیاسی جماعتیں ہیں (متحدہ قومی مومنٹ اپنےعسکری ونگ اور دہشت پسندی کی وجہ
سے فسطائیت کے زیادہ قریب ہے)جبکہ جماعت اسلامی ،جمعیت علمائے اسلام ،مسلم لیگ (ن)
سمیت مذہبی جماعتیں دائیں بازوکی سیاسی قوتیں ہیں۔



پی ٹی آئی کے ارکین کی اکثریت مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔
یہ وہ طبقہ ہے جو ماضی میں کبھی بھی سیاسی عمل کا فعال حصہ نہیں رہا
اور نہ ہی کبھی ووٹ ڈالنے کے علاوہ کسی خآص سیاسی سرگرمی کا قائل ہے
۔اس کے برعکس اس طبقے کا تاریخی جھکاؤہمیشہ فوجی آمریتوں، عسکری وسویلین افسر شاہی

اور قدامت پرست مذہبی جماعتوں کی طرف رہا ہے۔
2011ء میں عمران خان کےتاریخ ساز جلسہ کے بعد مقتدر قوتوں کے ایماء پر
تاک میں بیٹھے غیبی اشاروں کے منتظر سیاسی مداریوں نے لپک کرپی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی۔

چونکہ پی ٹی آئی نظریاتی بحران اور سیاسی بے رخی کا شکار تھی
اس لیے جاگیر داروسرمایہ دار،گدی نشین وملا ،پیروفقیرسب پی ٹی آئی کے اس ہجوم میں شامل ہوتے گئے
۔ان میں سے مسلم لیگ(ن) نسبتاً معتدل جبکہ جماعت اسلامی اور
جمعیت علمائے اسلام سمیت ساری مذہبی جماعتیں انتہائیدائیں بازو کی جماعتیں ہیں۔
یہی جماعتیں مذہبی رجعت پسندی کے فروع،دہشتگردی کے لیے جواز فراہم کرنے


،طالبان کی حمایت ،شخصی آزادیوں ،خواتین اور اقلیتوں کو برابری کا حق دینے
کے حوالے سے متنازعہ موقف رکھتی ہیں۔ یہ قوتیں ہمیشہ فوجی اشیر باد سے اقتدار کے
مزے لوٹتی رہی ہیں لیکن عوامی سطح پرانہیں (خصوصاً انتہا پسند مذہبی جماعتوں کو )
کبھی بھی قبولیت نصیب نہیں ہوئی۔


پاکستان تحریک انصاف کی سیاست کے مطالعے کے بعد سیاسیات کا کوئی بھی طالب علم اس کنفیوژن کا شکار ہوجاتا ہے
کہ آیا پی ٹی آئی نظریاتی طورپر دائیں بازو کی سیاست کررہی ہے یا پھر بائیں بازو کی
۔ملک کی پڑھی لکھی مڈل کلاس کو سیاسی میدان میں متحرک کرنے والی پی ٹی آئی کے
جلسوں میں جہاں خواتین کی اکثریت نظرآتی ہے اورموسیقی سنائی دیتی ہے وہیں ایک سال قبل
تک چیرمین پی ٹی آئی عمران خان طالبان کی نہ صرف حمایت کرتے رہے ہیں بلکہ پشاور میں


ان کے لیے دفتر کھولنے پر اصرار بھی کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عمران خان صاحب
نے اسٹبلشمنٹ مخالف دانشوروں، سیکولراور ترقی پسندرہنماوں کے خلاف بھی مسلسل محاذ کھولے رکھا ہے۔
چند برس قبل نامور لکھاری اور ادیب مخترمہ فاطمہ بھٹو نے جب عمران خان کے لیے لبرل کا لفظ استعمال کیا
تو نہ صرف خان صاحب نے خود شدید احتجا ج کیا بلکہ پارٹی کے ڈیجیٹل مجاہدین نے بھی
سوشل میڈیا پر فاطمہ بھٹوکو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔عمران خان کا موقف تھا کہ وہ لبرل نہیں
بلکہ مسلمان ہیں اورکوئی پکا مسلمان کبھی بھی لبرل یا سیکولرنہیں ہوتا۔

اس بیان سے واضح ہے کہ عمران خان صاحب کو جدید سیاسی اصطلاحات کا زیادہ علم نہیں
کیونکہ لبرل ازم کوئی مذہبی نہیں بلکہ سماجی وسیاسی نظریہ ہے ۔


شخصیت پرستی بجائے نظریاتی سمت کا تعین ضروری ہے

پاکستان تحریک انصاف کے پاس سیاسی ومعاشی مسائل کے حل کے لیے کوئی واضح اور عملی لائحہ عمل موجود نہیں۔
اس معاشرے کو دیمک کی طرح کھانے والے جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کا کوئی متبادل موجود نہیں
۔ سیاسی اور معاشی تبدیلی کے بلند بانگ دعووں کے باوجود تحریک انصاف کے پاس
ان مسائل کے حل یا موجودہ سیاسی و معاشی نظام میں اصلاحات کا کوئی متبادل نظام موجود نہیں۔
کسی بھی سیاسی جماعت کے استحکام میں عوامی حمایت لازمی عنصر ہے

جس کے لیے سیاسی جماعتیں تنظیم سازی کرتی ہیں۔ جن سیاسی جماعتوں کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط ہووہی
سیاست میں فعال کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اس کے برعکس جس سیاسی جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ کمزور ہو

وہ وقتی طورپر کسی خاص مسئلے کو لیکر مقبول تو ہو جاتی ہے لیکن اس کے دیر پا نتائج برآمد نہیں ہوتے۔
پاکستان تحریک انصا ف کے موجودہ خدوخال اور 47ء کے عشرے کی مسلم لیگ میں
گہری مماثلت پائی جاتی ہے کیونکہ مسلم لیگ کی سیاست کا محور بھی کوئی خاص نظریہ
یا سیاسی ومعاشی فلسفہ نہیں تھا بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کودرپیش چند مسائل تھے۔


کل ہندوستان مسلم لیگ نے جس طرح فرقہ وارانہ سیاست کے بل بوتے پر ہندوستانی سیاست میں وقتی

عروج حاصل کیا ٹھیک اسی طرح پاکستان تحریک انصاف بھی نظریاتی سمت کے
بغیر وقتی شہرت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے ۔آل انڈیامسلم لیگ کی بے
سمت اور نظریات سے عاری فرقہ پرست سیاست کی وجہ سے قائد اعظم محمد علی جناح

کی رحلت کے بعد مسلم لیگ بکھر گئی۔
اسی طرح اگر پی ٹی آئی نے بھی اپنے لیے سمت کا تعین نہ کیا تو ممکن ہے

کہ عمران خان صاحب کا طلسمہ ٹوٹتے ہی پی ٹی آئی بھی تاریخ کا حصہ بن جائے۔



تحریک استقلال سے سبق سیکھیئے
پاکستان کی 68سالہ تاریخ میں اسی قسم کی تحریکیں اٹھتی اور بہت جلد ختم ہوتی رہی ہیں۔
سن70ء اور 80ء کی دہائی میں ائیر مارشل(ر) اصغر خان کی قیادت میں تحریکِ استقلال کو
عروج ملا۔ ملک میں پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے معاشی وسیاسی پروگرام کا اثر کم کرنے
کی غرض سے عسکری اداروں نے تحریکِ استقلال کو اپنی حمایت کا انجکشن لگاتے

ہوئےسیاست میں اتارا۔ اصغرخان صاحب پی ٹی آئی سے بڑے جلسے منعقد کرتے رہے ہیں
اوراس دور میں تحریکِ استقلال کو متبادل سیاسی قوت کے طورپر پیش کیا جاتا رہا۔
اگر سیاسی نظام میں فوج کی مداخلت نہ ہوتی تو شاید تحریکِ استقلال بھی حکومت تک
رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی لیکن حالات تحریکِ استقلال کے خلاف رہے۔
یہی وجہ ہے کہ اصغر خان کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دینے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
چونکہ تحریکِ استقلال بھی نظریات کی بجائے مسائل کی سیاست کررہی تھی
اور اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر ایوان اقتدار تک رسائی حاصل کرنا چاہتی تھی
اس لیے چند برس گرجنے برسنے کے بعد بالآخر اصغر خان نے خود
تحریکِ استقلال کو پی ٹی آئی میں ضم کردیا


سماج کے پیچیدہ مظاہراو رسیاسی نظام کے استحکام کے لیے ضروری لوازمات کے مطالعے

کے بعد اگر پی ٹی آئی کی سیاست کاجائزہ لیا جائے تو بے سمت ،بے رخ اور نظریات سے
عاری محض مسائل کی بنیادپر سیاست کرنے والی تحریک انصاف کا انجام بھی تحریکِ استقلال جیسا ہی نظر آتا ہے
۔ اگر پاکستان تحریک انصاف خودکو ایک منظم اور عوام دوست جماعت بنانا چاہتی ہے
تو اسے سب سے پہلے خود کو نظریاتی مخمصے سے نکالناہوگا جس کے لیے بلاشبہ پارٹی کے
منشور کوکوئی واضح نظریاتی سمت دیتے ہوئے ایک جامع معاشی نظام دینے کی ضرورت ہے۔

تحریک انصاف کو اسٹیبلشمنٹ کے چنگل سے نکالے بغیر اس ہجوم کو منظم نہیں کیاجاسکتا
۔ خالصتاً مڈل کلاس پر اعتماد کرتے ہوئے کسی جماعت کو زیادہ دیر برقراررکھنا ممکن نہیں ہوتا۔
موجودہ پاکستان تحریکِ انصاف میں تبدیلی کے اصل محرک یعنی پرولتاریہ کے لیے
کوئی کشش نہیں۔ عمران خان دھاندلی کے نام پر 126دن تک ڈی چوک میں دھرنا دے کر
اربوں روپے کا سرمایہ ضائع کرچکے ہیں۔ اگر وہ ہوشیار اداروں کی مددسے ایوان اقتدار

پر قبضہ جمانے کی کوشش کرنے کی بجائے پارٹی کی تنظیمی امور پر دھیان دیتےتو
شاید اس مقبول عوامی جماعت کے مستقبل پر مایوسی ،ناامیدی اور غیر یقینی کے
سیاہ بادل نہ منڈلاتے۔ آج اگر عمران خان کو تحریک انصاف سے علیحدہ کر کے
اس جماعت کا مطالعہ کیاجائے تو سامنے ایک بے سمت ہجوم کےعلاوہ اور کچھ نظر نہیں آتا۔
جب تک کسی جماعت میں واضح نظریاتی سمت نہ ہو اور وہ محض ایک شخصیت کے

گرد گھومتی رہےتو اس کےمعدوم ہونے کے امکانات ہر وقت موجود رہتے ہیں
۔ ایسے حالات میں اگر پاکستان تحریک انصاف نے اپنے لیے نظریاتی قبلہ نہ ڈھونڈا
اور اپنے منشور کو مخصوص طبقات کے مفادات کی بجائے عوامی فلاح کے
اصولوں پر استوا نہ کیا تو یہ جماعت جلد اپنا اثر کھو دے گی۔

سورس
 
Last edited by a moderator:

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
مضمون نگار سے صرف ایک سوال: آئی جے آئی کس نے بنوائی؟ عوام نے یا فوج نے؟
آئی جے آئی کو انتخابات جتو ا کر نواز شریف کو وزیر اعظم کس نے بنوایا؟ عوام نے یا فوج نے؟
 

پرفیکٹ سٹرینجر

Chief Minister (5k+ posts)

دوسروں پر بھونکنے والوں نے ایک دوسرے کو وڈ لیا تو کون سی قیامت آگئی ہے ۔۔۔۔ یہ تو فطرت میں ہے ۔۔۔ اسے سنجیدہ نہ لیں۔۔۔

 

asallo

Senator (1k+ posts)
tumhare khiyal main awami khidmat mega projects hain jin main commission aur kick backs khane ko milain muk muka ho aur maze kiye jain on the other hand bechare makhsoso tabqat jinke mafadaad ka tumahre baqool pti tahafuz ker rehi hai who bechare hospitals main rager rager ker mer jain, un ko taleem na mile aur haan tum logon wala insaf ho ajise ayan ali ki bail hogai aaj Mubarak ho eik awam bahir agai jail se to phir pti theek hai because who tumhare jaise ghadare watan aur iis mulk ka khoon choosne walon ki muhafiz ban jaigi otherwise pti tum main se nahen hai aur bechari pti wale makhsoso tabikat ka khiyal ker ke un ko bunyadi sahoolatian phoncha reh hain ager un ko who mil gain to tumhara kiya hoga kaliya.
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)

سب درست ہوگا لیکن اب دائیں بائیں کا چکر بھی ختم ، اسلام اور اسلام مخالف ،ایک کا انتخاب کرنا پڑھے گا ، جب سب مسلمان ہیں تو تفریق کیسی ؟؟ اس لئے فرق سوچ کا ہے ،جو اپنے دین کو مکمل ضابطہ حیات نہیں سمجھتے وہ ہی لادینیت یا آزاد خیالی کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں ،عملا یہ سب جماعتیں دائیں اور بائیں کی چکر میں قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں ،ان کا انتخابی منشور بھی اقتدار میں آنے کے ردی کی ٹوکری کی زینت بنتا ہے ،ہوتا وہ ہی ہے جو حکومت میں آنے سے پہلے فیصلہ کر لیا جاتا ہے ،اور سب جانتے ہیں فیصلوں پر اثر انداز کون سی طاقتیں ہوتی ہیں


اس ملک میں جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو اسلام کے نظام حیات اور اس ملک کا قانون ہونے پر پورا یقین رکھتی ہے اور یہ پاکستان کی واحد جمہوری جماعت بھی ہے ،اس وجہ سے اس کے مخالف صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود اپنی جماعتوں پر خاندانی قبضے کئے بیٹھے ہیں
 

eye-eye-PTI

Chief Minister (5k+ posts)
Abhee yeh party munazzam nahee hai to nooron k hosh uraaey huay hain .. zara sochiye jab munazzam ho gayee to patwar khanay ki kya halat ho gee.
 

GeoG

Chief Minister (5k+ posts)
مضمون نگار سے صرف ایک سوال: آئی جے آئی کس نے بنوائی؟ عوام نے یا فوج نے؟
آئی جے آئی کو انتخابات جتو ا کر نواز شریف کو وزیر اعظم کس نے بنوایا؟ عوام نے یا فوج نے؟

and then he pays back, Establishment kicks him out
Is that not enough payback or still owes it to Establishment?
 

hassanattique

MPA (400+ posts)
I used to like Siruj Ul Haq. It turn out to be the same opportunist like others. They can hand shake with anyone who is giving them power. They are just power hungry unfaithful creatures. Nothing more then that.


سب درست ہوگا لیکن اب دائیں بائیں کا چکر بھی ختم ، اسلام اور اسلام مخالف ،ایک کا انتخاب کرنا پڑھے گا ، جب سب مسلمان ہیں تو تفریق کیسی ؟؟ اس لئے فرق سوچ کا ہے ،جو اپنے دین کو مکمل ضابطہ حیات نہیں سمجھتے وہ ہی لادینیت یا آزاد خیالی کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں ،عملا یہ سب جماعتیں دائیں اور بائیں کی چکر میں قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں ،ان کا انتخابی منشور بھی اقتدار میں آنے کے ردی کی ٹوکری کی زینت بنتا ہے ،ہوتا وہ ہی ہے جو حکومت میں آنے سے پہلے فیصلہ کر لیا جاتا ہے ،اور سب جانتے ہیں فیصلوں پر اثر انداز کون سی طاقتیں ہوتی ہیں


اس ملک میں جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو اسلام کے نظام حیات اور اس ملک کا قانون ہونے پر پورا یقین رکھتی ہے اور یہ پاکستان کی واحد جمہوری جماعت بھی ہے ،اس وجہ سے اس کے مخالف صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود اپنی جماعتوں پر خاندانی قبضے کئے بیٹھے ہیں
 

GreenMaple

Prime Minister (20k+ posts)

You only pointed to the problems, which most people are aware of, but what solutions are you offering to fix these problems?
 

bik74

Councller (250+ posts)
After the dharna end, PMLN Gov't hoped, it will end PTI.
All other Opposition hoped the same to make way for themselves.

SHOCKER.... despite all the problems, PTI remains a thorn on every status quo party. You name it... PMLN, PPP, JUI, MQM, ANP all have their gun pointed at PTI.

I I PTI I .... Insha Allah.
PTI is well set to get all position votes in Punjab under its umbrella.
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
I used to like Siruj Ul Haq. It turn out to be the same opportunist like others. They can hand shake with anyone who is giving them power. They are just power hungry unfaithful creatures. Nothing more then that.

آپ دلیل سے بات کریں اور تبصرے کے مطابق جواب دیں ، یہ الزام لگانے والی منافقت چھوڑیں ،اس نے قوم کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے ، آپ لوگوں کی ذہنی سطح صرف اور صرف اتنی ہے کہ ہاتھ کیوں ملایا ، ملاقات کیوں ہوئی ،یہ کیوں کہاں وہ کیوں نہیں کہا ، جو زبان سارے سیاسی لیڈر ایک دوسرے کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں وہ ان کو مبارک
 

jony1

MPA (400+ posts)
پی ٹی ای کے خلاف دو دو ٹکوں کے لوگ پیسے لے کر لکھ رہے ہیں پہلے بھی بہت سارے موں کالا کروا چکے کچھ حاصل نہیں ہوا مگر کیا کریں حرام کی کمائی اور پھر لکھنا تو پڑھتا ہے کوئی پڑھے نہ پڑھے
 

dangerous tears

Senator (1k+ posts)

سب درست ہوگا لیکن اب دائیں بائیں کا چکر بھی ختم ، اسلام اور اسلام مخالف ،ایک کا انتخاب کرنا پڑھے گا ، جب سب مسلمان ہیں تو تفریق کیسی ؟؟ اس لئے فرق سوچ کا ہے ،جو اپنے دین کو مکمل ضابطہ حیات نہیں سمجھتے وہ ہی لادینیت یا آزاد خیالی کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں ،عملا یہ سب جماعتیں دائیں اور بائیں کی چکر میں قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں ،ان کا انتخابی منشور بھی اقتدار میں آنے کے ردی کی ٹوکری کی زینت بنتا ہے ،ہوتا وہ ہی ہے جو حکومت میں آنے سے پہلے فیصلہ کر لیا جاتا ہے ،اور سب جانتے ہیں فیصلوں پر اثر انداز کون سی طاقتیں ہوتی ہیں


اس ملک میں جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو اسلام کے نظام حیات اور اس ملک کا قانون ہونے پر پورا یقین رکھتی ہے اور یہ پاکستان کی واحد جمہوری جماعت بھی ہے ،اس وجہ سے اس کے مخالف صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود اپنی جماعتوں پر خاندانی قبضے کئے بیٹھے ہیں

بھائی آپ اپنا یہ اسلامی چورن فروخت کرنا بند کیوں نہیں کردیتے اب
نا اب کوئی افغان جہاد جیسی چیز ہونے کی کوءی امید ہے
اور نا کوئی امیر المومنیں ضیا الحق جیسا کوئی مرد مجاہد آئے گا
اس لیے بھائی مہربانی فرما کر یہ اسلامی منجن چورن بیچنا بند کردئے
اب آپ کو کوئی خریدار نہیں ملے گا ان چیزوں کا
 

Back
Top