پروپیگنڈے کےپیچھے کون لوگ ہیں اور مقصد کیا ہے
تبلیغی جماعت کے خلاف مذموم مگر منظم پروپیگنڈے کے پیچھے کون لوگ ہیں اسے جاننے کے لئے ذیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، بلکہ اسی فورم پر موجود زہر اگلتے لوگوں کی اکثریت کی فرقہ ورانہ وابستگی کو دیکھنا ہی کافی ہو گا۔ جہاں تک مقصد کا تعلق ہے، تو(جیسا کہ پچھلے تھریڈ میں بھی بتایا جا چکا ہے) وہ بھی واضح ہے یعنی ایرانی زائرین کے ایشو سے توجہ ہٹانا (اور ساتھ ہی اگر اپنی فرقہ ورانہ جبلت کو تسکین دینے کا سامان بھی ہو جائے تو سونے پہ سہاگہ)۔
طریقہ کار
کس قسم کا پروپیگنڈا کیا گیا ہے ، اس کے لئے ایک ہی مثال کافی ہے۔
اخبار نے کرونا سے متاثرہ ڈاکٹر کے فرار کی جھوٹی خبر شائع کر دی، ڈاکٹر کا ویڈیو پیغام
یعنی ایک شخص میں کرونا ہے ہی نہیں، مگر اسے نہ صرف کرونا کا مریض بتایا گیا، بلکہ اس کا تعلق تبلیغی جماعت سے جوڑ دیا گیا۔ یہ صرف ایک کیس ہے، اسی طرح کے اور بھی کیسز میڈیا میں رپورٹ ہوئے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
پروپیگنڈا کرنے والے یہ لوگ میڈیا میں بھی ہیں، پولیس فوج اور اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں میں بھی موجود ہیں۔ ۔لہذا پہلے پہل پروپیگنڈا کیا گیا۔ چند ایک کیسز کا رائی کا پہاڑ بنایا گیا۔ جہاں ضرورت پڑی جھوٹ کا سہارا بھی لیا گیا (جیسا کہ اوپر بتایا گیا)۔ اور پھر اپنے ہی جھوٹے پروپیگنڈے کو بنیاد بنا کر خود ہی ایکشن لینا شروع کر دیا، اور پورے ملک میں سنسنی پھیلا دی گئی۔خصوصا حکومت سندھ کی پھرتیاں قابل دید ہیں(یاد رہے کہ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کا نام بھی مبینہ طور پر ایرانی زائرین کے حوالے سے آتا رہا ہے)۔
حیدر آباد کےنوے سے اوپر کرونا کیسز اور احتیاطی تدایبر۔
اگرچہ تبلیغی جماعت کے ارکان ایک بہت ارفع و اعلی مقصد کے لئے نکلے ہوتے ہیں، لیکن بہرحال یہ انسان ہی ہوتے ہیں ۔ اور کیوں کہ کام کی نوعیت ایسی ہے جس میں ملاقاتیں اور میل جول ذیادہ ہے ، لہذا کسی تبلیغی رکن کو(کسی ایران، لندن یا سعودیہ پلٹ ملاقاتی سے) کرونا وائرس لگنا کوئی بعید از قیاس نہیں۔اور ایک رکن سے پوری جماعت میں وائرس منتقل ہونے کے امکانات بھی بہرحال موجود ہوتے ہیں۔لہذا ہو سکتا ہے کہ اتنے کثیر تعداد میں کیسزواقعی موجود ہوں۔ مگر جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے کہ ایک منظم مہم چل رہی ہے، اور مبینہ طور پر کچھ حکومتی ارکان اور وزرا کا کنفلکٹ آف انٹرسٹ بھی موجود ہے، لہذا صرف حکومتی اعدادوشمار پر بھروسہ کرنا ٹھیک نہیں(جہاں شراب لیبارٹری میں جا کرشہد میں تبدیل ہو جائے، وہاں کچھ بھی ممکن ہے)۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مندرجہ ذیل دو احتیاطی تدابیر کرلی جائیں۔
جن لوگوں میں رزلٹ مثبت آیا ہے، مگر ان میں کوئی علامت نہیں پائی جاتی، تو ان کا(خفیہ طور سے) غیر جانبدار لیبارٹریوں سے دوبارہ ٹیسٹ کروایا جائے۔اور اگر دونوں رپورٹوں میں کوئی فرق آتا ہے اس بات کو میڈیا میں لے کر آیا جائے۔
اسی طرح اس بات کا خدشہ بھی موجود ہے کہ حکومت میں موجود کالی بھیڑیں، تعداد کو بڑھانے کے لئے جان بوجھ کرلوگوں کو انفیکٹ کرنا شروع کر دیں(یا باہر سے متاثرہ لوگ لاکر انہیں تبلیغی ظاہر کیا جائے)۔لہذا اس طرف سے بھی ہشیار رہنے کی ضرورت ہے۔جو لوگ مسلمانوں کے قتل عام کے لئے شام اور عراق میں اپنے دہشت گرد بھجوا سکتے ہیں، ان کے لئے پاکستان میں رہتے ہوئے چند لوگوں کو بیمار کرنا کوئی مشکل کام نہیں، خصوصا جبکہ ایسا کرنے سے ان کے پروپیگنڈا میں جان بھی پڑ جاتی ہو۔
اوپر جو باتیں کی گئیں ہیں وہ بلا وجہ نہیں ہیں، بلکہ آج ہی کی امت کی رپورٹ کے مطابق، (اور سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز کی روشنی میں) متاثرہ لوگوں کی تعداد کو نہ صرف بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے، بلکہ مبینہ طور پر پہلے سے بیمار لوگوں کو قرنطینہ کئے گئے تبلیغی کارکنان میں شامل کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ اور کیوں کہ ان الزامات کی کھوج کرنے کا نہ وقت ہے،اور نہ وسائل ، لہذا احتیاط کرنا ہی اس وقت بہترین حکمت عملی ہے۔
بڑا فرق؛
اگر بالفرض تبلیغی جماعت پر لگائے جانے والے تمام الزامات من عن مان بھی لئے جائیں، تب بھی اسے ذیادہ سے ذیادہ ایک ایکسیڈنٹ، یا لا علمی میں کی گئی ایک غلطی کہا جا سکتا ہے۔(خصوصا جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مبلغ پہلے خود متاثر ہو گا، تب ہی دوسرے کو متاثر کر سکتا ہے۔ البتہ اگرکوئی شخص خود بچ کر دوسرے کو وائرس زدہ کر رہا ہوتا، تو صورت حال مختلف ہوتی)۔(یاد رہے کہ پچھلے ہفتے (یعنی چھبیس مارچ) سے تمام تبلیغی جماعتیں گرائنڈ کر دی گئی ہیں، اور ہر جماعت کو یہی ہدایات ہیں کہ وہ جہاں ہیں وہیں رہیں گی، اور کسی قسم کا مجمع یا گشت یا بیان کرنے کی اجازت نہیں۔اور کیوں کہ اطاعت امیر تبلیغی جماعت کا امتیاز ہے، لہذا ان ہدایات پرپوری طرح عمل بھی ہو رہا ہے۔)
جبکہ ایرانی زائرین کا معاملہ یکسر مختلف ہے کیونکہ اس میں کئی جگہ پر مجرمانہ غفلت اور جھوٹ شامل ہے۔
غالبا ایرانی حکومت دنیا کی وہ واحد حکومت ہو گی جس نے اپنے شہریوں کو وائرس سے بچنے کے لئے کسی بھی احتیاطی تدابیر لینے کی حوصلہ شکنی کی اور شہریوں کو اپنے معمولات معمول کے مطابق جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کی۔
پھر جب معاملات ذیادہ خراب ہوئے، اور وائرس پورے ملک میں پھیل گیا، تب بھی ایرانی حکومت مسلسل جھوٹ بولتی رہی۔اور پھر جب حالات بلکل ہی قابو سے باہر ہو گئے، تو ایرانی حکومت نے دوسرے ملکون سے آئے ہوئے زائرین اورمہاجرین کو ملک سے باہر پھینکنا شروع کر دیا۔
جن لوگوں نے پاکستان میں ایرانی زائرین(بشمول مہدی آرمی اور فاطمیون دہشت گردوں) کو فرار کروایا، وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھےکہ ان زائرین میں وائرس پائے جانے کا خطرہ بہت بلند ہے(کیونکہ انہیں ایران سے دھکیلنے کی وجہ ہی وبا کا ایران میں بے قابوہونا تھا)، اور اگر یہ لوگ عام آبادی میں گھل مل گئے، تو پھر یہ وائرس آبادی میں بھی پھیلنا شروع ہو جائے گا، مگر اس کے باوجود انہوں نےقومی مفاد کی بجائے اپنے ذاتی اور فرقہ ورانہ مفاد کو ترجیح دی۔ اب یہ حرکت زلفی بخاری نے کی،علی زیدی نے کی یا کوئی اور ملوٹ تھا، اس کی تحقیق ہوناابھی باقی ہے۔اور شاید اسی تحقیق کے خوف کی وجہ سے کچھ حلقوں کی جانب سے ، سموک سکرین پیدا کرنے کے لئے تبلیغی جماعت کے ایشو کو رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
تبلیغی جماعت کے خلاف مذموم مگر منظم پروپیگنڈے کے پیچھے کون لوگ ہیں اسے جاننے کے لئے ذیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، بلکہ اسی فورم پر موجود زہر اگلتے لوگوں کی اکثریت کی فرقہ ورانہ وابستگی کو دیکھنا ہی کافی ہو گا۔ جہاں تک مقصد کا تعلق ہے، تو(جیسا کہ پچھلے تھریڈ میں بھی بتایا جا چکا ہے) وہ بھی واضح ہے یعنی ایرانی زائرین کے ایشو سے توجہ ہٹانا (اور ساتھ ہی اگر اپنی فرقہ ورانہ جبلت کو تسکین دینے کا سامان بھی ہو جائے تو سونے پہ سہاگہ)۔
طریقہ کار
کس قسم کا پروپیگنڈا کیا گیا ہے ، اس کے لئے ایک ہی مثال کافی ہے۔
اخبار نے کرونا سے متاثرہ ڈاکٹر کے فرار کی جھوٹی خبر شائع کر دی، ڈاکٹر کا ویڈیو پیغام
یعنی ایک شخص میں کرونا ہے ہی نہیں، مگر اسے نہ صرف کرونا کا مریض بتایا گیا، بلکہ اس کا تعلق تبلیغی جماعت سے جوڑ دیا گیا۔ یہ صرف ایک کیس ہے، اسی طرح کے اور بھی کیسز میڈیا میں رپورٹ ہوئے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
پروپیگنڈا کرنے والے یہ لوگ میڈیا میں بھی ہیں، پولیس فوج اور اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں میں بھی موجود ہیں۔ ۔لہذا پہلے پہل پروپیگنڈا کیا گیا۔ چند ایک کیسز کا رائی کا پہاڑ بنایا گیا۔ جہاں ضرورت پڑی جھوٹ کا سہارا بھی لیا گیا (جیسا کہ اوپر بتایا گیا)۔ اور پھر اپنے ہی جھوٹے پروپیگنڈے کو بنیاد بنا کر خود ہی ایکشن لینا شروع کر دیا، اور پورے ملک میں سنسنی پھیلا دی گئی۔خصوصا حکومت سندھ کی پھرتیاں قابل دید ہیں(یاد رہے کہ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کا نام بھی مبینہ طور پر ایرانی زائرین کے حوالے سے آتا رہا ہے)۔
حیدر آباد کےنوے سے اوپر کرونا کیسز اور احتیاطی تدایبر۔
اگرچہ تبلیغی جماعت کے ارکان ایک بہت ارفع و اعلی مقصد کے لئے نکلے ہوتے ہیں، لیکن بہرحال یہ انسان ہی ہوتے ہیں ۔ اور کیوں کہ کام کی نوعیت ایسی ہے جس میں ملاقاتیں اور میل جول ذیادہ ہے ، لہذا کسی تبلیغی رکن کو(کسی ایران، لندن یا سعودیہ پلٹ ملاقاتی سے) کرونا وائرس لگنا کوئی بعید از قیاس نہیں۔اور ایک رکن سے پوری جماعت میں وائرس منتقل ہونے کے امکانات بھی بہرحال موجود ہوتے ہیں۔لہذا ہو سکتا ہے کہ اتنے کثیر تعداد میں کیسزواقعی موجود ہوں۔ مگر جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے کہ ایک منظم مہم چل رہی ہے، اور مبینہ طور پر کچھ حکومتی ارکان اور وزرا کا کنفلکٹ آف انٹرسٹ بھی موجود ہے، لہذا صرف حکومتی اعدادوشمار پر بھروسہ کرنا ٹھیک نہیں(جہاں شراب لیبارٹری میں جا کرشہد میں تبدیل ہو جائے، وہاں کچھ بھی ممکن ہے)۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مندرجہ ذیل دو احتیاطی تدابیر کرلی جائیں۔
جن لوگوں میں رزلٹ مثبت آیا ہے، مگر ان میں کوئی علامت نہیں پائی جاتی، تو ان کا(خفیہ طور سے) غیر جانبدار لیبارٹریوں سے دوبارہ ٹیسٹ کروایا جائے۔اور اگر دونوں رپورٹوں میں کوئی فرق آتا ہے اس بات کو میڈیا میں لے کر آیا جائے۔
اسی طرح اس بات کا خدشہ بھی موجود ہے کہ حکومت میں موجود کالی بھیڑیں، تعداد کو بڑھانے کے لئے جان بوجھ کرلوگوں کو انفیکٹ کرنا شروع کر دیں(یا باہر سے متاثرہ لوگ لاکر انہیں تبلیغی ظاہر کیا جائے)۔لہذا اس طرف سے بھی ہشیار رہنے کی ضرورت ہے۔جو لوگ مسلمانوں کے قتل عام کے لئے شام اور عراق میں اپنے دہشت گرد بھجوا سکتے ہیں، ان کے لئے پاکستان میں رہتے ہوئے چند لوگوں کو بیمار کرنا کوئی مشکل کام نہیں، خصوصا جبکہ ایسا کرنے سے ان کے پروپیگنڈا میں جان بھی پڑ جاتی ہو۔
اوپر جو باتیں کی گئیں ہیں وہ بلا وجہ نہیں ہیں، بلکہ آج ہی کی امت کی رپورٹ کے مطابق، (اور سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز کی روشنی میں) متاثرہ لوگوں کی تعداد کو نہ صرف بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے، بلکہ مبینہ طور پر پہلے سے بیمار لوگوں کو قرنطینہ کئے گئے تبلیغی کارکنان میں شامل کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ اور کیوں کہ ان الزامات کی کھوج کرنے کا نہ وقت ہے،اور نہ وسائل ، لہذا احتیاط کرنا ہی اس وقت بہترین حکمت عملی ہے۔
بڑا فرق؛
اگر بالفرض تبلیغی جماعت پر لگائے جانے والے تمام الزامات من عن مان بھی لئے جائیں، تب بھی اسے ذیادہ سے ذیادہ ایک ایکسیڈنٹ، یا لا علمی میں کی گئی ایک غلطی کہا جا سکتا ہے۔(خصوصا جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مبلغ پہلے خود متاثر ہو گا، تب ہی دوسرے کو متاثر کر سکتا ہے۔ البتہ اگرکوئی شخص خود بچ کر دوسرے کو وائرس زدہ کر رہا ہوتا، تو صورت حال مختلف ہوتی)۔(یاد رہے کہ پچھلے ہفتے (یعنی چھبیس مارچ) سے تمام تبلیغی جماعتیں گرائنڈ کر دی گئی ہیں، اور ہر جماعت کو یہی ہدایات ہیں کہ وہ جہاں ہیں وہیں رہیں گی، اور کسی قسم کا مجمع یا گشت یا بیان کرنے کی اجازت نہیں۔اور کیوں کہ اطاعت امیر تبلیغی جماعت کا امتیاز ہے، لہذا ان ہدایات پرپوری طرح عمل بھی ہو رہا ہے۔)
جبکہ ایرانی زائرین کا معاملہ یکسر مختلف ہے کیونکہ اس میں کئی جگہ پر مجرمانہ غفلت اور جھوٹ شامل ہے۔
غالبا ایرانی حکومت دنیا کی وہ واحد حکومت ہو گی جس نے اپنے شہریوں کو وائرس سے بچنے کے لئے کسی بھی احتیاطی تدابیر لینے کی حوصلہ شکنی کی اور شہریوں کو اپنے معمولات معمول کے مطابق جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کی۔
پھر جب معاملات ذیادہ خراب ہوئے، اور وائرس پورے ملک میں پھیل گیا، تب بھی ایرانی حکومت مسلسل جھوٹ بولتی رہی۔اور پھر جب حالات بلکل ہی قابو سے باہر ہو گئے، تو ایرانی حکومت نے دوسرے ملکون سے آئے ہوئے زائرین اورمہاجرین کو ملک سے باہر پھینکنا شروع کر دیا۔
جن لوگوں نے پاکستان میں ایرانی زائرین(بشمول مہدی آرمی اور فاطمیون دہشت گردوں) کو فرار کروایا، وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھےکہ ان زائرین میں وائرس پائے جانے کا خطرہ بہت بلند ہے(کیونکہ انہیں ایران سے دھکیلنے کی وجہ ہی وبا کا ایران میں بے قابوہونا تھا)، اور اگر یہ لوگ عام آبادی میں گھل مل گئے، تو پھر یہ وائرس آبادی میں بھی پھیلنا شروع ہو جائے گا، مگر اس کے باوجود انہوں نےقومی مفاد کی بجائے اپنے ذاتی اور فرقہ ورانہ مفاد کو ترجیح دی۔ اب یہ حرکت زلفی بخاری نے کی،علی زیدی نے کی یا کوئی اور ملوٹ تھا، اس کی تحقیق ہوناابھی باقی ہے۔اور شاید اسی تحقیق کے خوف کی وجہ سے کچھ حلقوں کی جانب سے ، سموک سکرین پیدا کرنے کے لئے تبلیغی جماعت کے ایشو کو رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔