کورونا وائرس: دلی کے علاقے نظام الدین میں تبلیغی جماعت کے اجتماع کے بعد کورونا وائرس کے متاثرین کی تلاش
انڈیا میں حکام ملک بھر میں ان سینکڑوں افراد کی تلاش کر رہے ہیں جنھوں نے دارالحکومت دلی میں تبلیغی اجتماع میں شرکت کی تھی اور جس کے بعد سے ملک میں کورونا کے متعدد مریض سامنے آئے ہیں۔ ملک کے کم از کم چھ خطوں میں سامنے آنے والے کورونا متاثرین کا براہ راست تعلق ایک مسجد میں کئی روز جاری رہنے والے اس مذہبی اجتماع سے جڑتا ہے۔
دلی میں حکام اب اس عمارت کو خالی کروا رہے ہیں جہاں گذشتہ ہفتے حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے کے بعد تقریباً ایک ہزار افراد پھنسے ہوئے تھے۔
انڈیا کے وزیر صحت کا کہنا ہے کہ کم از کم 24 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوچکی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ افراد ان 300 میں شامل ہیں جن میں علامات ظاہر ہوئی ہیں اور انھیں مختلف ہسپتالوں میں ٹیسٹ کے لیے بھیجا گیا ہے۔ جبکہ 700 افراد کو قرنطینہ میں بھیج دیا گیا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس انڈونیشیا سے اس اجتماع میں شرکت کے لیے آنے والے مبلیغین سے پھیلا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ مسجد کے منتظمین کے خلاف کارروائی کی جائے گی تاہم مسجد انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق نظام الدین جہاں یہ مسجد ہے اُسے پولیس نے گھیرے میں لے لیا ہے اور وہاں موجود لوگوں کو 35 بسوں میں ہسپتال اور قرنطینہ کے مراکز بھیجا گیا۔
یہ واضح نہیں کہ اس پروگرام میں شامل ہونے کے لیے ٹکٹ دیے گئے تھے یا منتظمین نے آنے والوں کا کوئی ریکارڈ بھی رکھا تھا یا نہیں۔ بہت سے لوگ آئے اور گئے جبکہ بیرون ملک سے آنے والے بہت سے افراد جن میں مبلغین بھی شامل تھے، ملک کے دوسرے حصوں میں گئے اور وہاں مختلف افراد سے ملے اور مقامی مساجد میں ٹھہرے۔
حکام کے لیے اس بات کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے کہ کتنے افراد ان پروگراموں میں شامل ہوئے اور کہاں کہاں گئے مگر انہوں نے پھر بھی سراغ لگانے اور ٹیسٹ کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ جنوبی ریاست تلنگانہ میں حکام نے اتوار کی شب اجتماع میں شامل ہونے والے چھ افراد کی ہلاکت کی خبر دی تھی۔ ریاست کے میڈیکل آفیسر نے بی بی سی کو بتایا کہ تلنگانہ میں 71 میں سے 40 کیسز کا تعلق کسی نہ کسی طرح اجتماع سے جڑتا ہے۔
انڈیا کے زیر انتطام کشمیر میں پچھلے ہفتے وائرس سے ہونے والی پہلی موت رپورٹ کی گئی جو ایک 65 سالہ شخص کی تھی جو دلی میں اجتماع میں شامل ہونے کے لیے گیا تھا۔ حکام نے بی بی سی اردو کو بتایا تھا کہ خطے میں 48 میں سے 40 کیسز کا تعلق اُس ایک مریض سے جڑتا ہے۔ دور دراز علاقے اندامان اور نیکوبار آئی لینڈز میں بھی 9 کیسز سامنے آئے جن میں سے 6 افراد دلی میں اجتماع میں شامل ہونے کے بعد لوٹے تھے۔
انڈیا کی جنوبی ریاستیں تامل ناڈو، تلنگانہ اور اندرا پردیش میں حکام کے مطابق ان ریاستوں سے 3000 ہزار افراد اجتماع میں شامل ہوئے اور تامل ناڈو میں 16 ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن کا تعلق اس اجتماع میں شامل ہونے والے افراد سے بنتا ہے۔ ان ریاستوں نے ایسے سب افراد سے ازخود اپنے آپ کو ٹیسٹ کے لیے سامنے آنے کے لیے کہا ہے جو اس اجتماع میں شامل ہوئے تھے۔ دلی کے چیف منسٹر اروند کیجریوال نے مسجد کے سربراہ کے خلاف پولیس رپورٹ درج کرانے کا کہا ہے۔ دوسری جانب اجتماع کے منتظمین نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جیسے ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے 22 مارچ کو کرفیو کا اعلان کیا انہوں نے اجتماع معطل کر کے تمام شرکاء سے جانے کو کہا۔ جہاں بیشتر افراد واپس لوٹے بہت سے لوگ پھنس گئے کیونکہ متعدد ریاستوں نے اگلے ہی دن اپنی سرحدیں بند کرنا شروع کردیں اور دو دن بعد انڈیا نے 21 دن کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے بعد بسیں اور ٹرینیں چلنا بند ہوگئیں۔
مسجد کے احاطے میں اجتماعی رہائشی کمرے ہیں جہاں کئی سو افراد ٹھہر سکتے ہیں۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے مقامی پولیس کو اس بارے میں بتایا تھا اور جب وہ معائنے کے لیے آئے تو اُن کے اور میڈیکل آفیسر کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ مسجد کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ 'کبھی بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی گئی اور ہمیشہ دوسری ریاستوں سے آنے والے افراد کے ساتھ رحم اور مناسب رویہ رکھا گیا۔ انہیں کبھی بھی بس سٹاپس اور سڑکوں پر گھومنے کے بارے میں جاری کردہ طبی ہدایات کی خلاف ورزی نہیں کرنے دی گئی۔'
یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہ کسی مذہبی اجتماع کی وجہ سے کورونا وائرس پھیلانے کا الزام لگا ہو۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا میں بھی تبلیغی جماعت کی وجہ سے وائرس پھیلنے کا الزام لگا ہے۔ جنوبی کوریا میں بھی شنک چیونجی چرچ کے خفیہ فرقے پر بہت سے کیسز پھیلانے کا الزام لگا اور گروہ نے اس پھیلاؤ میں اپنے کردار کے لیے معافی مانگی ہے۔
اجتماع میں شامل افراد کا تعلق تبلیغی جماعت سے تھا اور اس اجتماع کا آغاز فروری کے آخر میں ہوا اور کچھ بڑے پروگرام مارچ کے اوائل میں ہوئے۔
دلی میں حکام اب اس عمارت کو خالی کروا رہے ہیں جہاں گذشتہ ہفتے حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے کے بعد تقریباً ایک ہزار افراد پھنسے ہوئے تھے۔
انڈیا کے وزیر صحت کا کہنا ہے کہ کم از کم 24 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوچکی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ افراد ان 300 میں شامل ہیں جن میں علامات ظاہر ہوئی ہیں اور انھیں مختلف ہسپتالوں میں ٹیسٹ کے لیے بھیجا گیا ہے۔ جبکہ 700 افراد کو قرنطینہ میں بھیج دیا گیا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس انڈونیشیا سے اس اجتماع میں شرکت کے لیے آنے والے مبلیغین سے پھیلا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ مسجد کے منتظمین کے خلاف کارروائی کی جائے گی تاہم مسجد انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق نظام الدین جہاں یہ مسجد ہے اُسے پولیس نے گھیرے میں لے لیا ہے اور وہاں موجود لوگوں کو 35 بسوں میں ہسپتال اور قرنطینہ کے مراکز بھیجا گیا۔
یہ واضح نہیں کہ اس پروگرام میں شامل ہونے کے لیے ٹکٹ دیے گئے تھے یا منتظمین نے آنے والوں کا کوئی ریکارڈ بھی رکھا تھا یا نہیں۔ بہت سے لوگ آئے اور گئے جبکہ بیرون ملک سے آنے والے بہت سے افراد جن میں مبلغین بھی شامل تھے، ملک کے دوسرے حصوں میں گئے اور وہاں مختلف افراد سے ملے اور مقامی مساجد میں ٹھہرے۔
حکام کے لیے اس بات کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے کہ کتنے افراد ان پروگراموں میں شامل ہوئے اور کہاں کہاں گئے مگر انہوں نے پھر بھی سراغ لگانے اور ٹیسٹ کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ جنوبی ریاست تلنگانہ میں حکام نے اتوار کی شب اجتماع میں شامل ہونے والے چھ افراد کی ہلاکت کی خبر دی تھی۔ ریاست کے میڈیکل آفیسر نے بی بی سی کو بتایا کہ تلنگانہ میں 71 میں سے 40 کیسز کا تعلق کسی نہ کسی طرح اجتماع سے جڑتا ہے۔
انڈیا کے زیر انتطام کشمیر میں پچھلے ہفتے وائرس سے ہونے والی پہلی موت رپورٹ کی گئی جو ایک 65 سالہ شخص کی تھی جو دلی میں اجتماع میں شامل ہونے کے لیے گیا تھا۔ حکام نے بی بی سی اردو کو بتایا تھا کہ خطے میں 48 میں سے 40 کیسز کا تعلق اُس ایک مریض سے جڑتا ہے۔ دور دراز علاقے اندامان اور نیکوبار آئی لینڈز میں بھی 9 کیسز سامنے آئے جن میں سے 6 افراد دلی میں اجتماع میں شامل ہونے کے بعد لوٹے تھے۔
انڈیا کی جنوبی ریاستیں تامل ناڈو، تلنگانہ اور اندرا پردیش میں حکام کے مطابق ان ریاستوں سے 3000 ہزار افراد اجتماع میں شامل ہوئے اور تامل ناڈو میں 16 ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن کا تعلق اس اجتماع میں شامل ہونے والے افراد سے بنتا ہے۔ ان ریاستوں نے ایسے سب افراد سے ازخود اپنے آپ کو ٹیسٹ کے لیے سامنے آنے کے لیے کہا ہے جو اس اجتماع میں شامل ہوئے تھے۔ دلی کے چیف منسٹر اروند کیجریوال نے مسجد کے سربراہ کے خلاف پولیس رپورٹ درج کرانے کا کہا ہے۔ دوسری جانب اجتماع کے منتظمین نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جیسے ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے 22 مارچ کو کرفیو کا اعلان کیا انہوں نے اجتماع معطل کر کے تمام شرکاء سے جانے کو کہا۔ جہاں بیشتر افراد واپس لوٹے بہت سے لوگ پھنس گئے کیونکہ متعدد ریاستوں نے اگلے ہی دن اپنی سرحدیں بند کرنا شروع کردیں اور دو دن بعد انڈیا نے 21 دن کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جس کے بعد بسیں اور ٹرینیں چلنا بند ہوگئیں۔
مسجد کے احاطے میں اجتماعی رہائشی کمرے ہیں جہاں کئی سو افراد ٹھہر سکتے ہیں۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے مقامی پولیس کو اس بارے میں بتایا تھا اور جب وہ معائنے کے لیے آئے تو اُن کے اور میڈیکل آفیسر کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ مسجد کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ 'کبھی بھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی گئی اور ہمیشہ دوسری ریاستوں سے آنے والے افراد کے ساتھ رحم اور مناسب رویہ رکھا گیا۔ انہیں کبھی بھی بس سٹاپس اور سڑکوں پر گھومنے کے بارے میں جاری کردہ طبی ہدایات کی خلاف ورزی نہیں کرنے دی گئی۔'
یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہ کسی مذہبی اجتماع کی وجہ سے کورونا وائرس پھیلانے کا الزام لگا ہو۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا میں بھی تبلیغی جماعت کی وجہ سے وائرس پھیلنے کا الزام لگا ہے۔ جنوبی کوریا میں بھی شنک چیونجی چرچ کے خفیہ فرقے پر بہت سے کیسز پھیلانے کا الزام لگا اور گروہ نے اس پھیلاؤ میں اپنے کردار کے لیے معافی مانگی ہے۔
اجتماع میں شامل افراد کا تعلق تبلیغی جماعت سے تھا اور اس اجتماع کا آغاز فروری کے آخر میں ہوا اور کچھ بڑے پروگرام مارچ کے اوائل میں ہوئے۔
تبلیغی جماعت کے اجتماع کے بعد کورونا وائرس متاثرین کی تلاش
انڈیا میں حکام ملک بھر میں ان سینکڑوں افراد کی تلاش کر رہے ہیں جنھوں نے دارالحکومت دلی میں تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کی تھی جس کے بعد سے ملک میں کورونا وائرس کے متعدد مریض سامنے آئے ہیں۔
www.bbc.com