Khair Andesh
Chief Minister (5k+ posts)
چند حقائق
جس چار روزہ اجتماع کی بات ہو رہی ہے اس نے پنجاب کے شہر رائیونڈ میں مورخہ دس مارچ بروز منگل سے شروع ہونا تھا، اور اختتامی دعا بروز اتوار پندرہ مارچ کو ہونا طے پائی تھی۔ مگر بارش کی وجہ سے اجتماع جمعرات یعنی بارہ مارچ کو ہی ختم کر دیا گیا۔
یہ رائیونڈ کا وہ عالمی اجتماع نہیں تھا جو نومبر میں ہوتا ہے، اورجس میں لاکھوں لوگ شرکت کی سعادت حاصل کرتے ہیں، بلکہ یہ چار ماہ والوں کا جوڑ تھا، جس میں اگرچہ بڑی تعداد شریک ہوتی ہے اور بیرون سے بھی مہمان تشریف لاتے ہیں، مگر بہرحال سالانہ اجتماع والے لاکھوں جیسی کوئی صورت حال نہیں۔
کسی بھی تبلیغی اجتماع کی تاریخ کئی ماہ پہلے ہی طے کر لی جاتی ہے، چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ طے کرتے وقت پوری دنیا میں ایک بھی کرونا کیس نہیں تھا، اور جس وقت یہ پنجاب میں شروع ہوا، تو اس وقت پنجاب میں ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا تھا، جبکہ ملک بھر میں کرونا کیسز کی تعداد سولہ تھی، جو کہ بیشتر بیرون ملک سے واپس آنے والے تھے، اور مقامی منتقلی کا کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا۔( پنجاب کا پہلا کنفرم کیس پندرہ کو سامنے آیا، جبکے اجتماع اتفاق سے ہی صحیح، مگر بارہ کو ختم ہو چکا تھا)
آٹھ مارچ کو(یعنی اجتماع شروع ہونے سے دو دن پہلے) پوری قوم کی مخالفت کے باوجود بد کردار عورتوں کے اجتماعات سارے ملک میں ہوئے(بشمول سندھ جہاں پر کرونا کے کئئی کیسز سامنے آ چکے تھے)، اور اس کے ردعمل میں مذہبی جماعتوں نے بھی ریلیاں نکالیں۔
سندھ میں کرونا کے کئی کیس سامنے آ چکے تھے، مگر اس کے باوجود پی ایس ایل کے میچز پورے کرائوڈ کے ساتھ چلتے رہے۔اور آخری میچ بارہ مارچ کو ہوا(یعنی جس دن اجتماع ختم ہو چکا تھا)۔
حکومت بلکے خود وزیر اعظم بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کر رہے تھے، مثلا نو مارچ کو،( یعنی اجتماع کی شروعات سے ایک دن پہلے )جناب عمران خان صاحب نے مہمند ایجنسی میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔
خود وفاقی حکومت نے جو ایمرجنسی نافذ کی وہ تیرہ مارچ کو تھی، جس کے بعد سکول کالجز بند کر دیئے گئے، اور امتحانات ملتوی کر دیئے گئے۔، اور تمام مذہبی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی۔
حاصل بحث:۔
کسی بھی چیز کو اس کے ساق و سباق میں دیکھنا چاہیے۔اگر آج گھروں میں قید ہو کر اس بات کو سوچیں کہ دسیوں ہزار یا ایک لاکھ لوگ جمع ہوئےتو واقعی حکومت اور اجتماع کے منتظمین پر انگلیاں اٹھائی جا سکتی ہیں۔ لیکن اگر اس وقت کے معروضی حالات کو دیکھا جائے تو سوچ کچھ اور ہو گی۔ بالفرض اگر حکومت اجتماع کو کینسل کرنے کا کہتی، تو یہ بات یقینی تھی کہ یہ اجتماع کینسل ہو جاتا(کیونکہ ہر قسم کے جھگڑے اور تنازع سے بچ کر چلنا تبلیغی جماعت کا امتیاز ہے) مگر حکومت یہ مطالبہ کیونکر کر سکتی تھی کہ جب وہ خود بڑے بڑے اجتماعات منعقد کر رہی تھی، عورت مارچ ہو رہا تھا، پی ایس ایل کے میچز جاری تھے،شیعہ مجالس جاری تھیں، دربار کھلے تھے، میٹرک اور دوسرے امتحانات منعقد ہو رہے تھے، اور باقی ساری روٹین کی سرگرمیاں جاری تھیں۔۔
مسئلہ کیا ہے؟
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں کچھ ایسے ایرانی وکیل پائے جاتے ہیں، جنہیں ایران کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں ، خواہ تنقید کتنی ہی جائز اور معقول کیوں نہ ہو۔خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے والے ان لوگوں کا ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ ان کوہر کام کی کھلی چھٹی ہو، اور یہ خواہ کتنا ہی گند کیوں نہ پھیلائیں، اس حوالے سے ذکر بھی نہ کیا جائے، خصوصا ایران کا نام لیتے ہی ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔
کیوں کہ کرونا کیس میں ایرانی حکومت کی مجرمانہ غفلت شامل ہے، جس سے نہ صرف ایران میں حالات بدتر ہو گئے، بلکہ پڑوسی ممالک کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور جب کچھ لوگوں نے اس رویئے پر تنقید کی، تو فرقہ پرست ایرانی وکیلوں سے برداشت نہ ہوا، چنانچہ وہ یہ تبلیغی اجتماع کا نیا شوشہ لے کر آ گئے تا کہ ایرانی حکومت کی غفلتوں اور پاکستان میں ایرانی وفاداروں کی کرتوتوں سے توجہ ہٹے اور تنقید کا رخ دوسری طرف مڑ جائے۔
اوپر جو بھی بات کی گئی ہے وہ روز روشن کی طرح واضح ہے، اور تمام ثبوتوں کے ساتھ ہے، جس کو پڑھ کر ہر غیر جانبدار شخص اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ کرونا پھیلائو کا اجتماع سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ اگر اجتماع کی وجہ سے وائرس نے پھیلنا ہوتا، تو اب تک سینکڑوں کیس ایسے آ چکے ہوتے کہ اجتماع ختم ہونے میں اور تا دم تحریر چودہ دن سے ذیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اور سوائے ایک دو جگہوں کے کہیں وائرس کی علامات نہیں پائیں گئیں۔ اور جو ایک دو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں مثلا اسلام آباد بہارہ کہو، وہ یقینا مقامی منتقلی کا کیس ہیں کہ وہی بات کہ اگر یہ وائرس اجتماع سے لگتا تو صرف ایک یا دو جماعتوں میں ظاہر نہ ہوتا، بلکہ درجنوں جماعتوں کی رپورٹس اب تک آ چکی ہوتیں۔بلکہ جس قسم کے کھلے ماحول میں اجتماع کے شرکاء رہتے ہیں،اورجتنا میل جول ہوتا ہے اور وائرس کے پھیلنے کی صلاحیت کو سامنے رکھا جائے تو پھر ہزاروں کیس صرف رائیونڈ اجتماع کے شرکاء کے رپورٹ ہونے چاہئے تھے، مگر کیوں کہ ایسا نہیں ہوا، لہذا اس کا صاف مطلب ہے کہ اللہ کے فضل سے اجتماع اور اس کے شرکاء وائرس کے اثرات سے محفوظ رہے، اور اگر کسی کو وائرس لاحق ہوا بھی ہے، تو وہ مقامی افراد کے ساتھ میل جول کی وجہ سے ہوا ہے۔(ہو سکتا ہے کہ کسی عمرہ پلٹ زائر سے ملاقات کی ہو، اور وائرس کسی ایک کو لگ گیا ہو۔ اور جیسا کہ بھی کہا کہ جماعت کا رہن سہن کھانا پینا ایسا ہوتا ہے کہ ایک کو لگنے کا مطلب ساری جماعت کوخطرہ لاحق ہونا ہے)
گزارش اور چیلنج
لہذا تمام ایرانی وکیلوں سے میں یہی گزارش کروں گا کہ اول تو وہ ایرانی وکالت کا کام چھوڑ دیں(اور اگر کہیں پر کوئی جائز تنقید ایرانی حکومت پر ہو رہی ہے تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کریں کہ غلطی کی ہے ، جھوٹ بولا ہے تو بھگتنا تو پڑے گا)، اور فرقہ واریت سے باز آ جائیں کہ ایسے مشکل وقت میں فرقہ واریت ذیادہ نقصان دے ہے ، کہ کوئلوں کی دلالی میں صرف منہ کی کالک ہی نصیب ہو گی۔ لیکن اگر باز نہیں آنا اور تو پروپیگنڈا کے لئے کوئی نیا ایشو ڈھونڈیں، اس ایشو سے لوگوں کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔اور کیوں کہ پرانی ہسٹری کو دیکھ کر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے باز نہیں آنا لہذا میری طرف سے ان تمام کو کھلا چیلنج ہے کہ اپنی مرضی کے مقامی غیر مقامی کسی بھی مستند سورس سے پاکستان میں ہونے والے اب تک کے کرونا کیسز کا ڈیٹا پیش کریں( جس میں ان مریضوں کو لگنے والی انفیکشن کا سورس بھی موجود ہوکہ مریضوں کو کہاں کہاں سے وائرس لگا)۔میرا دعوی ہے کہ بیشتر کیسز کا کھرا ایران سے ہی جا کر ملے گا۔(اور یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں، ایرانی حماقت کا خمیازہ دوسرے پڑوسی ممالک مثلا افغانستان بھی بھگت رہے ہیں، اور وہاں بھی تقریبا یہی صورت حال ہےبلکہ وہاں زایرین، زینبیون دہشت گردوں کے علاوہ ایک اور سنجیدہ مسئلہ ان افغان مہاجرین کا ہے، جنہوں نے جنگ کی وجہ سے ایران میں پناہ لی ہوئی تھی، اور وبا کے پھوٹنے کے بعد انہیں افغانستان واپس دھکیل دیا گیا۔)اللہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔، اور آفات و بلیات سے محفوظ رکھے، اور اس وائرس کے شر سے مسلمانوں کے لئے خیر کے فیصلے فرما۔آمین
جس چار روزہ اجتماع کی بات ہو رہی ہے اس نے پنجاب کے شہر رائیونڈ میں مورخہ دس مارچ بروز منگل سے شروع ہونا تھا، اور اختتامی دعا بروز اتوار پندرہ مارچ کو ہونا طے پائی تھی۔ مگر بارش کی وجہ سے اجتماع جمعرات یعنی بارہ مارچ کو ہی ختم کر دیا گیا۔
یہ رائیونڈ کا وہ عالمی اجتماع نہیں تھا جو نومبر میں ہوتا ہے، اورجس میں لاکھوں لوگ شرکت کی سعادت حاصل کرتے ہیں، بلکہ یہ چار ماہ والوں کا جوڑ تھا، جس میں اگرچہ بڑی تعداد شریک ہوتی ہے اور بیرون سے بھی مہمان تشریف لاتے ہیں، مگر بہرحال سالانہ اجتماع والے لاکھوں جیسی کوئی صورت حال نہیں۔
کسی بھی تبلیغی اجتماع کی تاریخ کئی ماہ پہلے ہی طے کر لی جاتی ہے، چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ طے کرتے وقت پوری دنیا میں ایک بھی کرونا کیس نہیں تھا، اور جس وقت یہ پنجاب میں شروع ہوا، تو اس وقت پنجاب میں ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا تھا، جبکہ ملک بھر میں کرونا کیسز کی تعداد سولہ تھی، جو کہ بیشتر بیرون ملک سے واپس آنے والے تھے، اور مقامی منتقلی کا کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا۔( پنجاب کا پہلا کنفرم کیس پندرہ کو سامنے آیا، جبکے اجتماع اتفاق سے ہی صحیح، مگر بارہ کو ختم ہو چکا تھا)
آٹھ مارچ کو(یعنی اجتماع شروع ہونے سے دو دن پہلے) پوری قوم کی مخالفت کے باوجود بد کردار عورتوں کے اجتماعات سارے ملک میں ہوئے(بشمول سندھ جہاں پر کرونا کے کئئی کیسز سامنے آ چکے تھے)، اور اس کے ردعمل میں مذہبی جماعتوں نے بھی ریلیاں نکالیں۔
سندھ میں کرونا کے کئی کیس سامنے آ چکے تھے، مگر اس کے باوجود پی ایس ایل کے میچز پورے کرائوڈ کے ساتھ چلتے رہے۔اور آخری میچ بارہ مارچ کو ہوا(یعنی جس دن اجتماع ختم ہو چکا تھا)۔
حکومت بلکے خود وزیر اعظم بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کر رہے تھے، مثلا نو مارچ کو،( یعنی اجتماع کی شروعات سے ایک دن پہلے )جناب عمران خان صاحب نے مہمند ایجنسی میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔
خود وفاقی حکومت نے جو ایمرجنسی نافذ کی وہ تیرہ مارچ کو تھی، جس کے بعد سکول کالجز بند کر دیئے گئے، اور امتحانات ملتوی کر دیئے گئے۔، اور تمام مذہبی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی۔
حاصل بحث:۔
کسی بھی چیز کو اس کے ساق و سباق میں دیکھنا چاہیے۔اگر آج گھروں میں قید ہو کر اس بات کو سوچیں کہ دسیوں ہزار یا ایک لاکھ لوگ جمع ہوئےتو واقعی حکومت اور اجتماع کے منتظمین پر انگلیاں اٹھائی جا سکتی ہیں۔ لیکن اگر اس وقت کے معروضی حالات کو دیکھا جائے تو سوچ کچھ اور ہو گی۔ بالفرض اگر حکومت اجتماع کو کینسل کرنے کا کہتی، تو یہ بات یقینی تھی کہ یہ اجتماع کینسل ہو جاتا(کیونکہ ہر قسم کے جھگڑے اور تنازع سے بچ کر چلنا تبلیغی جماعت کا امتیاز ہے) مگر حکومت یہ مطالبہ کیونکر کر سکتی تھی کہ جب وہ خود بڑے بڑے اجتماعات منعقد کر رہی تھی، عورت مارچ ہو رہا تھا، پی ایس ایل کے میچز جاری تھے،شیعہ مجالس جاری تھیں، دربار کھلے تھے، میٹرک اور دوسرے امتحانات منعقد ہو رہے تھے، اور باقی ساری روٹین کی سرگرمیاں جاری تھیں۔۔
مسئلہ کیا ہے؟
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں کچھ ایسے ایرانی وکیل پائے جاتے ہیں، جنہیں ایران کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں ، خواہ تنقید کتنی ہی جائز اور معقول کیوں نہ ہو۔خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے والے ان لوگوں کا ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ ان کوہر کام کی کھلی چھٹی ہو، اور یہ خواہ کتنا ہی گند کیوں نہ پھیلائیں، اس حوالے سے ذکر بھی نہ کیا جائے، خصوصا ایران کا نام لیتے ہی ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔
کیوں کہ کرونا کیس میں ایرانی حکومت کی مجرمانہ غفلت شامل ہے، جس سے نہ صرف ایران میں حالات بدتر ہو گئے، بلکہ پڑوسی ممالک کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اور جب کچھ لوگوں نے اس رویئے پر تنقید کی، تو فرقہ پرست ایرانی وکیلوں سے برداشت نہ ہوا، چنانچہ وہ یہ تبلیغی اجتماع کا نیا شوشہ لے کر آ گئے تا کہ ایرانی حکومت کی غفلتوں اور پاکستان میں ایرانی وفاداروں کی کرتوتوں سے توجہ ہٹے اور تنقید کا رخ دوسری طرف مڑ جائے۔
اوپر جو بھی بات کی گئی ہے وہ روز روشن کی طرح واضح ہے، اور تمام ثبوتوں کے ساتھ ہے، جس کو پڑھ کر ہر غیر جانبدار شخص اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ کرونا پھیلائو کا اجتماع سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ اگر اجتماع کی وجہ سے وائرس نے پھیلنا ہوتا، تو اب تک سینکڑوں کیس ایسے آ چکے ہوتے کہ اجتماع ختم ہونے میں اور تا دم تحریر چودہ دن سے ذیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ اور سوائے ایک دو جگہوں کے کہیں وائرس کی علامات نہیں پائیں گئیں۔ اور جو ایک دو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں مثلا اسلام آباد بہارہ کہو، وہ یقینا مقامی منتقلی کا کیس ہیں کہ وہی بات کہ اگر یہ وائرس اجتماع سے لگتا تو صرف ایک یا دو جماعتوں میں ظاہر نہ ہوتا، بلکہ درجنوں جماعتوں کی رپورٹس اب تک آ چکی ہوتیں۔بلکہ جس قسم کے کھلے ماحول میں اجتماع کے شرکاء رہتے ہیں،اورجتنا میل جول ہوتا ہے اور وائرس کے پھیلنے کی صلاحیت کو سامنے رکھا جائے تو پھر ہزاروں کیس صرف رائیونڈ اجتماع کے شرکاء کے رپورٹ ہونے چاہئے تھے، مگر کیوں کہ ایسا نہیں ہوا، لہذا اس کا صاف مطلب ہے کہ اللہ کے فضل سے اجتماع اور اس کے شرکاء وائرس کے اثرات سے محفوظ رہے، اور اگر کسی کو وائرس لاحق ہوا بھی ہے، تو وہ مقامی افراد کے ساتھ میل جول کی وجہ سے ہوا ہے۔(ہو سکتا ہے کہ کسی عمرہ پلٹ زائر سے ملاقات کی ہو، اور وائرس کسی ایک کو لگ گیا ہو۔ اور جیسا کہ بھی کہا کہ جماعت کا رہن سہن کھانا پینا ایسا ہوتا ہے کہ ایک کو لگنے کا مطلب ساری جماعت کوخطرہ لاحق ہونا ہے)
گزارش اور چیلنج
لہذا تمام ایرانی وکیلوں سے میں یہی گزارش کروں گا کہ اول تو وہ ایرانی وکالت کا کام چھوڑ دیں(اور اگر کہیں پر کوئی جائز تنقید ایرانی حکومت پر ہو رہی ہے تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کریں کہ غلطی کی ہے ، جھوٹ بولا ہے تو بھگتنا تو پڑے گا)، اور فرقہ واریت سے باز آ جائیں کہ ایسے مشکل وقت میں فرقہ واریت ذیادہ نقصان دے ہے ، کہ کوئلوں کی دلالی میں صرف منہ کی کالک ہی نصیب ہو گی۔ لیکن اگر باز نہیں آنا اور تو پروپیگنڈا کے لئے کوئی نیا ایشو ڈھونڈیں، اس ایشو سے لوگوں کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔اور کیوں کہ پرانی ہسٹری کو دیکھ کر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے باز نہیں آنا لہذا میری طرف سے ان تمام کو کھلا چیلنج ہے کہ اپنی مرضی کے مقامی غیر مقامی کسی بھی مستند سورس سے پاکستان میں ہونے والے اب تک کے کرونا کیسز کا ڈیٹا پیش کریں( جس میں ان مریضوں کو لگنے والی انفیکشن کا سورس بھی موجود ہوکہ مریضوں کو کہاں کہاں سے وائرس لگا)۔میرا دعوی ہے کہ بیشتر کیسز کا کھرا ایران سے ہی جا کر ملے گا۔(اور یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں، ایرانی حماقت کا خمیازہ دوسرے پڑوسی ممالک مثلا افغانستان بھی بھگت رہے ہیں، اور وہاں بھی تقریبا یہی صورت حال ہےبلکہ وہاں زایرین، زینبیون دہشت گردوں کے علاوہ ایک اور سنجیدہ مسئلہ ان افغان مہاجرین کا ہے، جنہوں نے جنگ کی وجہ سے ایران میں پناہ لی ہوئی تھی، اور وبا کے پھوٹنے کے بعد انہیں افغانستان واپس دھکیل دیا گیا۔)اللہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔، اور آفات و بلیات سے محفوظ رکھے، اور اس وائرس کے شر سے مسلمانوں کے لئے خیر کے فیصلے فرما۔آمین
Last edited by a moderator: