PAINDO
Siasat.pk - Blogger
نمرود کی جلائی ہوئی آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ آگ کے انگارے دہک رہے ہیں۔ ابراہیمؑ کو اس آگ میں پھینکنے کے تمام انتظامات پورے ہوگئے۔ سب سے بڑے شاہ کے قریبی مصاحبوں میں کھلبلی مچ گئی اور مچنی بھی چاہئے تھی کہ ان کے شاہ کا ایک بہت ہی چاہنے والا غیروں کے ہاتھوں مقتل کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ اچھا مال تو ہمیشہ سنبھال سنبھال کر رکھا جاتا ہے۔ ساری دنیا اس وقت ہر طرف کھوٹا مال ہی بھرا ہوا تھا۔ صرف ابراہیمؑ ہی ایک کھرا مال تھا۔
ایک بہت ہی قریبی مصاحب بھاگا بھاگا آیا۔ حضور کوئی حکم؟ آگ کو بجھا دوں۔ اس آگ میں ہی سب ان کو جھلسا کر عبرت کا نشان بنادوں۔ ان سب کی بستیاں الٹ دوں۔ ہر حکم کی تعمیل کے لئے حاضر ہوں۔ پھر نہ کہنا ،آڑے وقت میں کوئی مدد کو نہیں پہنچا۔
ابراہیمؑ نے کہا۔ جبرائیل آپ کا شکریہ، یہ میرا اور میرے شاہ کا معاملہ ہے۔ آپ مہربانی فرمائیں۔ درمیان میں نہ آئیں۔
جے سوہنا میرے دکھ وچ راضی
تے میں سکھ نوں چوہلے ڈانواں
نمرود اور سارے نمرودیئے غصے سے لال پیلے ہورہے تھے۔ اپنی یقینی کامیابی کی موہوم خوشی سے سرشار ہورہے تھے۔ وہ چشم زدن میں اپنے معبودوں کے دشمن ابراہیم کو آگ میں جلتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ وقت مقرر پہنچا۔ منادی سن کر ساری مخلوق وقت مقرر سے پہلے اسٹیڈیم میں پہنچ چکی تھی۔ نمرود نے آگ میں پھینکنے والوں کو حکم دیا۔ ایک دو، تین… پھر کیا ہوا؟ پھر
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
دریا کے پانی کو خشک ہوجانے کا حکم دینے والا۔ سارے بنی اسرائیلیوں میں ہر ایک کا تعارف کرادینے والا۔ کہ موسیٰ علیہ السلام کے ان … لاکھ انسانوں میں سے کسی کا پائوں بھی گیلا نہ ہونے پائے اور سارے فرعونیوں سے متعارف کرادینے والا۔ کہ اے دریا۔ ان میں کوئی بچ کر نہ جائے۔ زمین کو قارون کے لئے اژدھا بن کر نگل جانے کا حکم دینے والا۔ آج آگ کو حکم دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے قلنا یا نارکونی برداً و سلاماً علی ابراہیم ؑ کہ ہم نے حکم دیا اے آگ ہمارے ابراہیم کے لئے ٹھنڈی و سلامتی والی ہوجا۔
اے آگ کے دہکتے ہوئے انگارو۔ گلاب کے پھول بن جائو۔ اے آگ کی تپش، مہک اور خوشبو کا لبادہ اوڑھ لے۔ عرش بریں سے تحت الثریٰ تک کی مخلوق نے رو زاول سے آج تک یہ نظارہ کبھی نہ دیکھا ہوگا، عقلیں گم ہیں، تجربے ناکام ہیں، آگ تو آخر آگ ہی ہوتی ہے، یہ نسیم بہار کیسے بن گئی۔ نمرود اور سارے نمرودیئے اس کی ساری ناپاک ذریت جل بھن کے رہ گئے۔ وہ اپنی بے بسی، بے کسی اور بے چارگی و ذلت آمیز رسوائی وشکست کی آگ میں جھلس کے رہ گئے۔ نفس کی آگ، ضمیر کی آواز، تو جہنم کے شعلوں کو بھی شرماتی ہے اور جس آگ میں نمرود اور سارے نمرودیئے جلنے لگے تھے۔ وہ تو شاید جہنم کے کسی سب سے گہرے پاتال سے نکال کر دلائی گئی ہوگئی۔
ادھر ابراہیمؑ حیرت زدہ بھی تھے اور امتحان میں سرخرو اور کامیاب ہونے پر شکر گزار بھی تھے اور پاس کرانے والے کے سپاس گزار بھی تھے۔ ادھر سے سرٹیفکیٹ بھی مل گیا۔ واذا تتلیٰ ابراہیم بہ بکلمٰت فاتمہن کہ ابراہیمؑ تو ایسا ہے اسے جب بھی کسی آزمائش میں ڈالا وہ کندن بن کر نکلا۔
ساری کائنات کا بادشاہ اپنے بندے اور اپنی پارٹی کی کامیابی پر ابراہیم کے لئے انعامات بانٹ رہا تھا۔ اور ساتھ ہی چلمن سے لگے پردے کی اوٹ میں۔ نمرودیوں کو اس آگ میں جلتا دیکھ کر مسکرا بھی رہا تھا اور بار بار کہہ رہا تھا۔ وکذلک نجزی المحسنین کہ ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں۔ ہم صابروں کو،عزم و ہمت کے پیکروں کو اجر عظیم سے یونہی نوازا کرتے ہیں......
آئیں ہم بھی اپنے آس پاس نظر دوڑائیں.
کہیں ایسا کوئی امتحاں شاہ کے پیاروں سے ہمارے آس پاس آج بھی تو نہیں لیا جا رہا .
کہیں ہمارے وقت کے نمرود بھی الله کے بندوں کو ختم کرنے میدان میں تو نہیں اترے ہوئے
ذرا سوچیں
اپنے آپ کو اس زمانے میں رکھ کر سوچیں
کہ آپ نمرودی لشکر کے ساتھ ہیں یا پھر ابراہیمی ؟؟؟؟