welovepeace
New Member
آج جب آفس سے گھر لوٹا تو حسبِ حال بجلی کی بندش تھی، کچھ دیر میں فریش ہونے کے بعد ٹیرس میں آکر یبٹھ گیا۔ ہوا اچھی چل رہی تھی اورصبح ہونے والی بارش سے موسم میں کچھ خوشگوار تبدیلی بھی آگئی تھی۔
اتنے میں مجھے ایک ایس ایم ایس موصول ہواجس میں مجھ سے ایک سیاسی جماعت نے میری رائے طلب کی تھی اور مجھے اپنے کنونشن میں آنے کی دعوت دی تھی، آنے والا نمبر میرے لئے نیا تھا لہذا میں نے کال ملا دی۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کے یہ موصوف تو صرف ایک دکاندار ہیں اور ان کو بھی یہ میسج آج موصول ہوا ہے اور ساتھ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس میسج کو آگے پھیلادیں اس لئے انہوں نے یہ میسج آگے اور خود سے پیچھے بھی پھیلا دیا شاید میں بھی کبھی ان دکاندار کا کسٹمر رہا ہوں بلکہ ادھاری رہا ہوں تبھی میرا نمبر ان کے پاس اب تک محفوظ تھا تاہم انہوں نے نہ تو ادھار اور نہ ہی کوئی بھتہ مجھ سے طلب کیا۔ جس پر میں نے شکر ادا کیا جان کی امان اور وہ بھی ایم کیو ایم کے ہاتھوں ہو ہی گئی ۔ اس بات سے میرا ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ آج ہمارے ملک کو آزاد ہوئے60 برس سے زائد ہوگئے ہیں، ہم جہاں کھڑے تھے آج بھی وہیں کھڑے ہیں یا مزید پستی کی جانب چلے گئے ہیں، سیاسی دنگل ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے، پھر خیال آیا کہ ان 60 برسوں میں ہم لوگ ہی تو ہیں جو ان دنگلوں کیلئے پہلوانوں کا انتخاب کرکے بھیجتے ہیں۔ جی ہاں پہلوانوں کا، اب پہلوان لڑائی نہ کرے تو کیا کرے۔ کوئی کریڈٹ کارڈ چوری کرتا ہے تو کوئی جعلی اسمگلنگ ، جعلی ڈگریوں کا تو استعمال اسمبلی کے لوگ ایسے کرتے ہیں جیسے یہ تعلیمی سند نہیں سینماء کا دو نمبر ٹکٹ ہو۔ بس تو پھر پستی ہی ہمارا مقدر ٹھہرنی ہے۔ پڑھے لکھے لوگ بس ملازمت کے حصول کیلئے کبھی اس کے در پر اور کبھی اس کے در پر پڑے رہیں گے اور ملک یوں ہی ․․․ جی ہاں ! یوں ہی لنگڑا لولا چلتا رہے گا۔ جعلی ڈگری والے قوم کی قسمت کا فیصلہ کریں گے اور اصلی ڈگری والوں کی قسمت میں بسوں ویگنوں کے دھکے ، انکی گلی کوچوں میں کوڑا کرکٹ کے انبار اور جعلی ڈگری والے کرکٹ کی کمیٹیوں کے چئیرمین۔ واہ رے میرے ملک کے پڑھے لکھے لوگوں کی قسمت۔ بجلی کی قلت کے ساتھ ساتھ روز بروز بڑھتے ہوئے نرخ اور آٹے چینی کے بحران لیکن حکمرانوں کو ناشتوں اور شکار سے فرصت نہیں۔ ظاہر ہے حکمرانوں نے نہ تو کبھی غربت یا تنگدستی کا سامنا کیا ہے اور نہ ہی انہیں لوڈشیڈنگ ستاتی ہے ۔ نہ تو ان کے بچے یہاں کے اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور نہ ہی ان کو روڈوں پر بسوں میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ ان کیلئے تو ملک کے عوام کی حیثیت گھر میں کام کرنے والے اس ملازم کی سی ہے کہ بس جس کو ہر وقت رونا آتا ہو اور جس کا یہ قصور ہو کہ اس نے زیادہ بچے کیوں پیدا کئے یا اس کے باپ کی طبیعت کیوں خراب ہوئی یا اس کا بیٹا کام میں دل لگانے کے بجائے پڑھتا کیوں ہے آخر کو بننا تو ملازم ہی ہے نہ اسے بھی تو پڑھ کیوں رہا ہے ۔ اور بجلی کا کیا ہے آنکھ بند کرو سو جاوٴ ویسے بھی جو لوگ دن بھر محنت کرتے ہیں انہیں فوراً نیند آجاتی ہے۔ بس کچھ یوں ہی سوچ پاکستان کے حکمرانوں کی اپنے ملک کے عوام کے بارے میں نظر آتی ہے۔ حکمران کلاس الگ اور عوام کلاس الگ۔ غریب پریشان کے مختصر سے تنخواہ میں گزارہ کیسے ہو ۔ اور لیڈر وہ جو باپ کے بعد بیٹا اور بیٹا کے بعد اس کا بیٹا ناصرف یہ کہ غیر ملکی تعلیمی اداروں میں پڑھ آتے ہیں اور اگر نہ پڑھ کے آئیں تب بھی جعلی ڈگریاں بنوالیتے ہیں۔ اس لئے یہ بات تو بالکل درست ہے کہ قیادت انہیں ہی ملنی چاہئے جو عوام کے مسئلے جانتے ہوں۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس طرح کے لوگوں کو قیادت میں پہنچائے تو کون پہنچائے ؟؟
ہم عوام تو خود بٹے ہوئے ہیں برادریوں اور جاگیرداروں کی جماعتوں میں اور جب ہم کراچی یا حیدرآباد کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ لوگ تو عام سے ہی اسمبلیوں میں چلے جاتے ہیں اور پھر کام بھی کرتے ہیں ۔ یہاں تک کے وہاں کے ناظم اعلیٰ کا تو اپنا گھر تک نہیں شاید کراچی ہمارے لاہور سے کافی بڑا شہر بھی ہے۔ وہاں کا بجٹ بھی یہاں سے بڑا ہوگا۔ جب یہاں کا سٹی ناظم اپنا ایک ٹی و ی چینل شروع کر سکتا ہے تو وہاں کا ناظم مکان بھی نہیں لے سکتا ؟؟ بس یہی فرق ہے انتہائی شرم انگیز فرق۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہاں ترقیاں ہو گئیں اور ہم اب تک گند میں پڑے ہیں ۔
ایم کیوا یم کے متعلق سوالات اپنی جگہ اپنے بچپن سے ہر ٹی وی ریڈیو اور اخبار میں ان کے متعلق باتیں ہی باتیں سن کر کان پک چکے ہیں۔ لیکن ابھی چند دن قبل ہی شادرہ میں قتل ہونے والی 3 خواتین میں بھتہ خوروں کا ملوث ہونا اور پھر میاں صاحب کے سامنے اہل خانہ کا میاں صاحب کے ایک mna پر الزام لگانابڑا عجیب سا ہے۔ یہی میاں صاحب ہیں جو ایم کیو ایم پر بھتہ خوری کا بہت الزام لگاتے تھے ، آج اپنے ایم این اے پر الزام کے بعد بغلیں جھانک رہے تھے۔
بہرحال تبدیلی تو آنی ہے ورنہ ہم سب کی سانسیں اسی گھٹن میں گھٹ جائیں گی۔ ہمیں خود سوچنا پڑے گا۔ کہ لٹیروں ، جعلی ڈگی والوں اور بھتہ خوروں کو ہی کیا منتخب کرتے رہے گے یا کوئی قیادت اپنے اندر سے بھی نکالیں گے۔
اتنے میں مجھے ایک ایس ایم ایس موصول ہواجس میں مجھ سے ایک سیاسی جماعت نے میری رائے طلب کی تھی اور مجھے اپنے کنونشن میں آنے کی دعوت دی تھی، آنے والا نمبر میرے لئے نیا تھا لہذا میں نے کال ملا دی۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کے یہ موصوف تو صرف ایک دکاندار ہیں اور ان کو بھی یہ میسج آج موصول ہوا ہے اور ساتھ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس میسج کو آگے پھیلادیں اس لئے انہوں نے یہ میسج آگے اور خود سے پیچھے بھی پھیلا دیا شاید میں بھی کبھی ان دکاندار کا کسٹمر رہا ہوں بلکہ ادھاری رہا ہوں تبھی میرا نمبر ان کے پاس اب تک محفوظ تھا تاہم انہوں نے نہ تو ادھار اور نہ ہی کوئی بھتہ مجھ سے طلب کیا۔ جس پر میں نے شکر ادا کیا جان کی امان اور وہ بھی ایم کیو ایم کے ہاتھوں ہو ہی گئی ۔ اس بات سے میرا ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ آج ہمارے ملک کو آزاد ہوئے60 برس سے زائد ہوگئے ہیں، ہم جہاں کھڑے تھے آج بھی وہیں کھڑے ہیں یا مزید پستی کی جانب چلے گئے ہیں، سیاسی دنگل ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے، پھر خیال آیا کہ ان 60 برسوں میں ہم لوگ ہی تو ہیں جو ان دنگلوں کیلئے پہلوانوں کا انتخاب کرکے بھیجتے ہیں۔ جی ہاں پہلوانوں کا، اب پہلوان لڑائی نہ کرے تو کیا کرے۔ کوئی کریڈٹ کارڈ چوری کرتا ہے تو کوئی جعلی اسمگلنگ ، جعلی ڈگریوں کا تو استعمال اسمبلی کے لوگ ایسے کرتے ہیں جیسے یہ تعلیمی سند نہیں سینماء کا دو نمبر ٹکٹ ہو۔ بس تو پھر پستی ہی ہمارا مقدر ٹھہرنی ہے۔ پڑھے لکھے لوگ بس ملازمت کے حصول کیلئے کبھی اس کے در پر اور کبھی اس کے در پر پڑے رہیں گے اور ملک یوں ہی ․․․ جی ہاں ! یوں ہی لنگڑا لولا چلتا رہے گا۔ جعلی ڈگری والے قوم کی قسمت کا فیصلہ کریں گے اور اصلی ڈگری والوں کی قسمت میں بسوں ویگنوں کے دھکے ، انکی گلی کوچوں میں کوڑا کرکٹ کے انبار اور جعلی ڈگری والے کرکٹ کی کمیٹیوں کے چئیرمین۔ واہ رے میرے ملک کے پڑھے لکھے لوگوں کی قسمت۔ بجلی کی قلت کے ساتھ ساتھ روز بروز بڑھتے ہوئے نرخ اور آٹے چینی کے بحران لیکن حکمرانوں کو ناشتوں اور شکار سے فرصت نہیں۔ ظاہر ہے حکمرانوں نے نہ تو کبھی غربت یا تنگدستی کا سامنا کیا ہے اور نہ ہی انہیں لوڈشیڈنگ ستاتی ہے ۔ نہ تو ان کے بچے یہاں کے اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور نہ ہی ان کو روڈوں پر بسوں میں سفر کرنا پڑتا ہے۔ ان کیلئے تو ملک کے عوام کی حیثیت گھر میں کام کرنے والے اس ملازم کی سی ہے کہ بس جس کو ہر وقت رونا آتا ہو اور جس کا یہ قصور ہو کہ اس نے زیادہ بچے کیوں پیدا کئے یا اس کے باپ کی طبیعت کیوں خراب ہوئی یا اس کا بیٹا کام میں دل لگانے کے بجائے پڑھتا کیوں ہے آخر کو بننا تو ملازم ہی ہے نہ اسے بھی تو پڑھ کیوں رہا ہے ۔ اور بجلی کا کیا ہے آنکھ بند کرو سو جاوٴ ویسے بھی جو لوگ دن بھر محنت کرتے ہیں انہیں فوراً نیند آجاتی ہے۔ بس کچھ یوں ہی سوچ پاکستان کے حکمرانوں کی اپنے ملک کے عوام کے بارے میں نظر آتی ہے۔ حکمران کلاس الگ اور عوام کلاس الگ۔ غریب پریشان کے مختصر سے تنخواہ میں گزارہ کیسے ہو ۔ اور لیڈر وہ جو باپ کے بعد بیٹا اور بیٹا کے بعد اس کا بیٹا ناصرف یہ کہ غیر ملکی تعلیمی اداروں میں پڑھ آتے ہیں اور اگر نہ پڑھ کے آئیں تب بھی جعلی ڈگریاں بنوالیتے ہیں۔ اس لئے یہ بات تو بالکل درست ہے کہ قیادت انہیں ہی ملنی چاہئے جو عوام کے مسئلے جانتے ہوں۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس طرح کے لوگوں کو قیادت میں پہنچائے تو کون پہنچائے ؟؟
ہم عوام تو خود بٹے ہوئے ہیں برادریوں اور جاگیرداروں کی جماعتوں میں اور جب ہم کراچی یا حیدرآباد کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ لوگ تو عام سے ہی اسمبلیوں میں چلے جاتے ہیں اور پھر کام بھی کرتے ہیں ۔ یہاں تک کے وہاں کے ناظم اعلیٰ کا تو اپنا گھر تک نہیں شاید کراچی ہمارے لاہور سے کافی بڑا شہر بھی ہے۔ وہاں کا بجٹ بھی یہاں سے بڑا ہوگا۔ جب یہاں کا سٹی ناظم اپنا ایک ٹی و ی چینل شروع کر سکتا ہے تو وہاں کا ناظم مکان بھی نہیں لے سکتا ؟؟ بس یہی فرق ہے انتہائی شرم انگیز فرق۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہاں ترقیاں ہو گئیں اور ہم اب تک گند میں پڑے ہیں ۔
ایم کیوا یم کے متعلق سوالات اپنی جگہ اپنے بچپن سے ہر ٹی وی ریڈیو اور اخبار میں ان کے متعلق باتیں ہی باتیں سن کر کان پک چکے ہیں۔ لیکن ابھی چند دن قبل ہی شادرہ میں قتل ہونے والی 3 خواتین میں بھتہ خوروں کا ملوث ہونا اور پھر میاں صاحب کے سامنے اہل خانہ کا میاں صاحب کے ایک mna پر الزام لگانابڑا عجیب سا ہے۔ یہی میاں صاحب ہیں جو ایم کیو ایم پر بھتہ خوری کا بہت الزام لگاتے تھے ، آج اپنے ایم این اے پر الزام کے بعد بغلیں جھانک رہے تھے۔
بہرحال تبدیلی تو آنی ہے ورنہ ہم سب کی سانسیں اسی گھٹن میں گھٹ جائیں گی۔ ہمیں خود سوچنا پڑے گا۔ کہ لٹیروں ، جعلی ڈگی والوں اور بھتہ خوروں کو ہی کیا منتخب کرتے رہے گے یا کوئی قیادت اپنے اندر سے بھی نکالیں گے۔