
نئی دہلی/اسلام آباد: جنگ بندی کے باوجود بھارت کی اشتعال انگیز سفارتی کارروائیاں جاری ہیں، نئی دہلی میں تعینات پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک اور اہلکار کو ناپسندیدہ قرار دے کر 24 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا۔
بھارتی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ اہلکار غیر پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا، جس پر انہیں ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ناظم الامور کو طلب کر کے باضابطہ احتجاجی مراسلہ بھی تھمایا گیا۔
اسلام آباد کی خاموشی، لیکن ردعمل متوقع
پاکستانی دفتر خارجہ یا ہائی کمیشن کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم سفارتی ذرائع کے مطابق اسلام آباد کی طرف سے اس اقدام پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان جاری سفارتی کشیدگی میں مزید شدت کا سبب بن سکتا ہے۔
سفارتی محاذ پر کشیدگی میں اضافہ
یاد رہے کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، اس سے قبل 13 مئی کو بھی بھارت نے پاکستانی سفارتکار کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک بدر کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی بھارتی ہائی کمیشن کے ایک اہلکار کو 24 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کی ہدایت کی تھی۔
سفارتی ماہرین کے مطابق ایسے مسلسل اقدامات نہ صرف پاک بھارت تعلقات کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان معمول کی سفارتی سرگرمیوں کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
دونوں ممالک کی جانب سے ’ٹِٹ فار ٹیٹ‘ پالیسی
ماضی کی طرح اس بار بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان اس بھارتی اقدام کے جواب میں ایک اور بھارتی سفارتکار کو ناپسندیدہ قرار دے سکتا ہے، جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے۔
ماہرین کا تجزیہ
بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے سفارتی اقدامات خطے میں جاری تناؤ کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر اس سلسلے کو روکا نہ گیا تو دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں، جس سے امن اور استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔