جنگ بندی کے باوجود بھارت نے ایک بار پھر آبی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشن گنگا ڈیم سے دریائے نیلم کا پانی روک لیا ہے، جس کے باعث دریا میں پانی کا بہاؤ معمول سے 40 فیصد کم ہو چکا ہے۔
ذرائع کے مطابق، دریائے نیلم میں پانی کی سطح میں یہ غیرمعمولی کمی بھارتی اقدام کا نتیجہ ہے، جسے پاکستان میں آبی دہشت گردی قرار دیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل حالیہ پاک-بھارت کشیدگی کے دوران بھارت نے کشن گنگا ڈیم سے اضافی پانی اچانک چھوڑ کر دریائے نیلم میں طغیانی کی صورت پیدا کی تھی، جس سے پاکستان کے زیرِانتظام علاقوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔
ماہرین کے مطابق موسم گرما میں گلیشیئرز پگھلنے کے باعث دریاؤں میں پانی کا بہاؤ پہلے ہی زیادہ ہوتا ہے، ایسے میں بھارت کی جانب سے پانی کا اخراج یا بندش صورتحال کو مزید بگاڑ دیتا ہے، جو ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ لگتا ہے۔
یاد رہے کہ 22 اپریل کو پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف کئی اقدامات کا اعلان کیا تھا، جن میں سندھ طاس معاہدے کی معطلی کی دھمکی بھی شامل تھی۔
اسی تناظر میں 26 اپریل کو بھارت نے بغیر کسی اطلاع کے اچانک دریائے جہلم میں مظفرآباد کے مقام پر پانی چھوڑ دیا، جس کے نتیجے میں ہٹیاں بالا کے علاقوں میں شدید طغیانی اور عوام میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔
پانی کے اچانک اخراج کے بعد مظفرآباد کی انتظامیہ نے آبی ایمرجنسی نافذ کر دی تھی، اور دریا کے کنارے آباد بستیوں میں مساجد سے اعلانات کر کے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی ہدایت دی گئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی یہ کارروائیاں نہ صرف سندھ طاس معاہدے بلکہ بین الاقوامی آبی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہیں، جن کے تحت کسی بھی ملک کو باہمی معاہدے کے بغیر اس قسم کے یکطرفہ اقدامات کا اختیار حاصل نہیں۔