M.Sami.R
Minister (2k+ posts)
بچہ جمہـــــــورا
آیئے آج آپ کی ملاقات بچے جمہورے سے کرواتے ہیں، بچہ جمہورا کوئی چھوٹا بچہ نہیں ہے بلکہ ایک بالغ ، ”سمجھدار“ ، کچھ لوگوں کے خیال میں” عقل و شعور“ رکھنے والا آدمی ہے۔اس کا نام بچہ جمہورا اس لئے پڑ گیا کیونکہ وہ” جمہوریت “کا سخت حامی ہے، فوجی جرنیلوں کا سخت مخالف۔بچہ جمہورا خود تو نہایت غریب اور پھٹے حال حیثیت کا مالک ہے، اکثرپہننے کو کپڑے بھی دستیاب نہیں ہوتے، مگر ”جمہوری “ حکومت کی محبت اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ بچے جمہورے کے مطابق پاکستان کا جتنا بیڑا غرق کیا ہے وہ صرف اور صرف فوجی حکمرانوں نے کیا ، سیاستدان بے چارے معصوم اور بھولے بھالے ہیں۔ بچے جمہورے کے مطابق جب سیاسی حکومت ہوتی ہے تب بھی اصل میں اقتدار کی باگ ڈور فوجیوں کے ہاتھ میں ہی ہوتی ہے۔ بچے جمہورے کے بہت سے خیالات سے میں بھی اتفاق کرتا ہوں، لیکن بچہ جمہورا میرا بھی سخت مخالف ہے۔ کیونکہ میں حکومت پر اکثر جائز تنقید کرتا رہتا ہوں، حکمرانوں کی لوٹ مار مجھ سے برداشت نہیں ہوتی اور میں ان کے بارے میں سخت سست الفاظ کہہ جاتا ہوں۔ بچے جمہورے کو میری یہ تنقید سخت ناگوار گزرتی ہے، بچہ جمہورا مجھے” جمہوریت “دشمن کہتا ہے، اس کے خیال میں میری اس تنقید سے” جمہوری حکومت“ کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اور خدا نخواستہ پھر فوجی حکومت آسکتی ہے۔میں نے بہت بار بچے جمہورے کو سمجھایا کہ میں جمہوریت کا اتنا ہی حامی ہوں جتنا کہ وہ، اور فوجی حکومت کا اتنا ہی مخالف جتنا کہ وہ لیکن جمہوریت کے نام پرلوٹ مار، چوری چکاری کو کیسے برداشت کرسکتا ہوں، اور حکومت کے کسی بھی غلط اقدام پر تنقید سے جمہوریت کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا بلکہ جمہوریت مزید مضبوط ہوتی ہے۔ لیکن بچہ جمہورا میری یہ منطق ماننے کو تیار نہیں، بچے جمہورے کے مطابق ہر وہ شخص جو حکومت کے کسی بھی اقدام پر تنقید کرتا ہے، وہ جمہوریت کا سخت مخالف اور فوجی بوٹ پالشیا ہے۔
آج کل بچہ جمہورا بہت تکلیف میں ہے، وجہحکومت کی ناقص کارکردگی اور اندھا دھند لوٹ مار۔ جس محفل میں بھی جاتا ہے، لوگ حکومت کو کوس رہے ہوتے ہیں،بچہ جمہورا دم دبائے بیٹھا رہتا ہے، اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے اور دل میں سب کو گالیاں دیتا رہتا ہے، جب کچھ ”شدت پسند“ لوگ آپے سے باہر ہوکر حکمرانوں کو ننگی گالیوں سے نوازنے لگتے ہیں تو بچے جمہورے کی برداشت جواب دے جاتی ہے اور بچہ جمہورا لپک کر اس کا گریبان پکڑ لیتا ہے، پھر وہ چھترول ہوتی ہے، وہ چھترول ہوتی ہے کہ بچے جمہورے کے سارے اعضاءڈھیلے ہوجاتے ہیں، تمام حاضرین محفل ”جمہوری“ حکومت کا سارا غصہ بچے جمہورے پر نکال دیتے ہیں۔ یہ حادثہ بچے جمہورے کے ساتھ کئی بار ہوا ہے، اب تک اس کے جسم کے آدھے اعضاءتبدیل ہوچکے ہیں، لیکن ریپیئر شدہ بچہ جمہورا پھر بھی باز نہیں آتا۔بچے جمہورے کا کہنا ہے کہ اس کی زندگی کا مقصد ملک میں” جمہوریت“ کی مضبوطی ہے۔”جمہوریت“ مضبوط کرتے کرتے بچہ جمہورا خود کھٹارا ویگن کی شکل اختیار کرگیا ہے، مگر اس کی” جمہوریت“ مضبوطی کا جنون کم نہیں ہوا۔
ابھی پچھلے دنوں کرپشن کے خلاف ملک بھر میں آپریشن کا آغاز ہوا تو میری بچے جمہورے کے ساتھ بحث ہوگئی، میرا کہنا تھا کہ نئی فوجی قیادت نے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے لئے یہ آپریشن شروع کیا ہے۔میری بات میں ”فوجی“ کا لفظ سنتے ہی بچے جمہورے کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور اس نے انتہائی غصیلے لہجے میں مجھے کوستے ہوئے کہا کہ یہ آپریشن” منتخب “وزیراعظم نے شروع کیا ہے۔ جب میں نے بچے جمہورے سے پوچھا کہ” منتخب “وزیراعظم تو خود گوڈے گوڈے بلکہ گردن گردن کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے ، وہ بھلا کرپٹ لوگوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیسے کرسکتا ہے، اس پر بچے جمہورے سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور وہ مجھے کوسنے لگ پڑا کہ میں جمہوریت دشمن ہوں اور حکومت کو گراکر فوجی حکومت لانا چاہتا ہوں۔ میں نے بچے جمہورے کو بڑا سمجھایا کہ میں جمہوریت دشمن بالکل نہیں، لیکن کرپشن کے خلاف جو آپریشن شروع ہوا ہے، اس کی لپیٹ میں عنقریب ”منتخب “ وزیراعظم بھی آنے والا ہے، میری یہ بات سنتے ہی بچہ جمہورا آپے سے باہر ہوگیا اور اس نے مجھ پر قاتلانہ حملہ کی غرض سے چھلانگ لگا دی، میں نے ایک طرف جھک کر خود کو اس کی چھلانگ سے بچایا اور اس سے پہلے کہ بچہ جمہورا سنبھلتا ، میں نے اس کی ٹانگ سے پکڑ کردو تین بار گھمایا اور قریبی دیوار میں دے مارا،بچہ جمہورا کے حلق سے گھٹی گھٹی چیخیں نکلیں اور اس نے اٹھنے کی کوشش کی، میں نے اس کے اٹھنے سے پہلے ہی اس کی دوسری ٹانگ سے پکڑ کر پانچ بار گھمایا اور دوسری دیوار کے ساتھ دے مارا ۔ حکومت کا غصہ نکالنے کے لئے میرے ہاتھ بھی” کچھ“ آگیا تھا، سو میں موقع ضائع کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ میں نے کراہتے ہوئے بچے جمہورے کو ایک بار پھر اٹھایا اور پختہ فرش پر دے پٹخا، بچے جمہورے کی بچی کھچی ہڈیاں ٹوٹنے کی آواز آئی اور بچہ جمہورا بے ہوش ہوگیا۔ تب مجھے ہوش آیا اور میں نے جلدی سے پانی ڈھونڈا اور اس کے چھینٹے مار کر بچے جمہورے کو ہوش میں لایا، بچہ جمہورا ہوش میں تو آگیا ، لیکن اب حرکت کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ میں بچے جمہورے کو ہسپتا ل میں لے گیا ، کیونکہ یہ سب میرا ہی کیا دھرا تھا۔
آج کل بچہ جمہورا سر سے پاؤں تک سفید پٹیوں میں لپٹا ہسپتال کے بیڈ پر لیٹا ہوا ہے، لیکن” جمہوریت“ کے بارے میں اب بھی اس کا وہی موقف ہے جو پہلے تھا۔
آج کل بچہ جمہورا بہت تکلیف میں ہے، وجہحکومت کی ناقص کارکردگی اور اندھا دھند لوٹ مار۔ جس محفل میں بھی جاتا ہے، لوگ حکومت کو کوس رہے ہوتے ہیں،بچہ جمہورا دم دبائے بیٹھا رہتا ہے، اندر ہی اندر کڑھتا رہتا ہے اور دل میں سب کو گالیاں دیتا رہتا ہے، جب کچھ ”شدت پسند“ لوگ آپے سے باہر ہوکر حکمرانوں کو ننگی گالیوں سے نوازنے لگتے ہیں تو بچے جمہورے کی برداشت جواب دے جاتی ہے اور بچہ جمہورا لپک کر اس کا گریبان پکڑ لیتا ہے، پھر وہ چھترول ہوتی ہے، وہ چھترول ہوتی ہے کہ بچے جمہورے کے سارے اعضاءڈھیلے ہوجاتے ہیں، تمام حاضرین محفل ”جمہوری“ حکومت کا سارا غصہ بچے جمہورے پر نکال دیتے ہیں۔ یہ حادثہ بچے جمہورے کے ساتھ کئی بار ہوا ہے، اب تک اس کے جسم کے آدھے اعضاءتبدیل ہوچکے ہیں، لیکن ریپیئر شدہ بچہ جمہورا پھر بھی باز نہیں آتا۔بچے جمہورے کا کہنا ہے کہ اس کی زندگی کا مقصد ملک میں” جمہوریت“ کی مضبوطی ہے۔”جمہوریت“ مضبوط کرتے کرتے بچہ جمہورا خود کھٹارا ویگن کی شکل اختیار کرگیا ہے، مگر اس کی” جمہوریت“ مضبوطی کا جنون کم نہیں ہوا۔
ابھی پچھلے دنوں کرپشن کے خلاف ملک بھر میں آپریشن کا آغاز ہوا تو میری بچے جمہورے کے ساتھ بحث ہوگئی، میرا کہنا تھا کہ نئی فوجی قیادت نے ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے لئے یہ آپریشن شروع کیا ہے۔میری بات میں ”فوجی“ کا لفظ سنتے ہی بچے جمہورے کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور اس نے انتہائی غصیلے لہجے میں مجھے کوستے ہوئے کہا کہ یہ آپریشن” منتخب “وزیراعظم نے شروع کیا ہے۔ جب میں نے بچے جمہورے سے پوچھا کہ” منتخب “وزیراعظم تو خود گوڈے گوڈے بلکہ گردن گردن کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے ، وہ بھلا کرپٹ لوگوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیسے کرسکتا ہے، اس پر بچے جمہورے سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور وہ مجھے کوسنے لگ پڑا کہ میں جمہوریت دشمن ہوں اور حکومت کو گراکر فوجی حکومت لانا چاہتا ہوں۔ میں نے بچے جمہورے کو بڑا سمجھایا کہ میں جمہوریت دشمن بالکل نہیں، لیکن کرپشن کے خلاف جو آپریشن شروع ہوا ہے، اس کی لپیٹ میں عنقریب ”منتخب “ وزیراعظم بھی آنے والا ہے، میری یہ بات سنتے ہی بچہ جمہورا آپے سے باہر ہوگیا اور اس نے مجھ پر قاتلانہ حملہ کی غرض سے چھلانگ لگا دی، میں نے ایک طرف جھک کر خود کو اس کی چھلانگ سے بچایا اور اس سے پہلے کہ بچہ جمہورا سنبھلتا ، میں نے اس کی ٹانگ سے پکڑ کردو تین بار گھمایا اور قریبی دیوار میں دے مارا،بچہ جمہورا کے حلق سے گھٹی گھٹی چیخیں نکلیں اور اس نے اٹھنے کی کوشش کی، میں نے اس کے اٹھنے سے پہلے ہی اس کی دوسری ٹانگ سے پکڑ کر پانچ بار گھمایا اور دوسری دیوار کے ساتھ دے مارا ۔ حکومت کا غصہ نکالنے کے لئے میرے ہاتھ بھی” کچھ“ آگیا تھا، سو میں موقع ضائع کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ میں نے کراہتے ہوئے بچے جمہورے کو ایک بار پھر اٹھایا اور پختہ فرش پر دے پٹخا، بچے جمہورے کی بچی کھچی ہڈیاں ٹوٹنے کی آواز آئی اور بچہ جمہورا بے ہوش ہوگیا۔ تب مجھے ہوش آیا اور میں نے جلدی سے پانی ڈھونڈا اور اس کے چھینٹے مار کر بچے جمہورے کو ہوش میں لایا، بچہ جمہورا ہوش میں تو آگیا ، لیکن اب حرکت کرنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ میں بچے جمہورے کو ہسپتا ل میں لے گیا ، کیونکہ یہ سب میرا ہی کیا دھرا تھا۔
آج کل بچہ جمہورا سر سے پاؤں تک سفید پٹیوں میں لپٹا ہسپتال کے بیڈ پر لیٹا ہوا ہے، لیکن” جمہوریت“ کے بارے میں اب بھی اس کا وہی موقف ہے جو پہلے تھا۔
- Featured Thumbs
- http://s5.postimg.org/3zv9zy2o7/india_3.jpg
Last edited: