ہمارے گاؤں کے قبرستان میں ایک دوپہر کھیلتے ہوئے میرے دوستوں نے گڑھا کھود کر مجھے اس میں کھڑا کر کے کمر تک دبا دیا۔میرے چچازاد شکائتی ٹٹو نےمیرے گھر بتا دیا میری امی (الله انہیں جنت میں جگہ دے آمین) بھاگی آئیں. با قی سب دوڑ گئے میں اکیلا امی کے قابوآ گیا۔ بس پھر نہ پوچھو اس دن بڑی چھترولہوئی مجھے آج بھی کل کا واقعہ لگتا ہے شکائیتی ٹٹو کے لئیے میرے دل میں بڑا غصہ تھا گرمیوں کی چھٹیاں چند روز بعد تھیں میرے سارے پھوپھی زاد کزن لڑکیاں لڑکے پہنچ گئیے ۔ میرا بڑا توا لگا۔ آخر میرے جگری اشرف نے کہا فکر نہیں کرو شکائتی کا علاج بھی کر لیتے ہیں ۔اس نے کہامیرے پاس ایک ٹوٹکا ہے امید ہے شکائتی پر چل جائے گا ۔ دو تین دن کے بعد پروگرام کے مطابق جب سارے دوست مربعے اکٹھے ہوئے تو میں نے اشرف سے کہا یار تم جو جادو سیکھ رہے تھے اسکا کیا بنا ۔اشرف نے کہا یار یہ بڑا مشکل کام ہے میں نے ایک دو عملیات ہی سیکھے تھے پھر چھوڑدیا ۔ شکائتی ٹٹو کے کان کھڑے ہوئے بولا یہ جادو وادو سب بکواس ہے۔ میں ان باتوں کو نہیں مانتا ۔ اشرف نے کہا تمھارے ماننے یا نہ ماننے سے میرے سیکھے ہوئے عملیات پر کوئی اثر نہیں پڑے والا ۔ غرض تھوڑی سی تکرار کے بعد دونوں میں شرط لگ گئی ۔ اشرف ہم سب کو اپنا جادوئی عمل دکھانے کے لئیے تیار ہو گیا ۔ سب سے پہلے اس نے ہم سب سے حلف لیا کہ اسکی مرضی کے بغیر کسی کو بھی اس عمل کے بارے میں نہیں بتانا ۔ اسے بعد اشرف نے ایک رمبا لیا اور شکائتی سے کہا میں اس کھیت کی دوسری طرف پڑھائی کر کے آتا ہوں تم اس رمبے پر تھوک دو۔ شکائتی ٹٹو نے تھوک دیا ۔ اشرف منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتا ہوا دوسرے كھیت کی طرف جاتا ہوا ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔ پانچ یا سات منٹ کے بعد جب اشرف واپس آیا تو اسکا رنگ لال سرخ اور سانس چڑھا ہواتھا ۔ واپس آ کر اس نے ہم سب کے سامنے کچھ پڑھ کر رمبےپر پھونک ماری اور اسی رمبے سے گڑھا کھودا اور رمبا اس گڑھے میں رکھ کرہاتھوں سے اس کے اوپر مٹی ڈال کر چھوٹی سی گول ڈھیری بنا دی اسکے بعد وہ بولا تم سب کے سامنے میں نے یہ رمبا اس جگہ دفن کر دیا ہے اب میں اپنا عمل پڑھتا ہوا دوسری طرف جاؤں گا تو رمبا بھی زمین کے اندر ہی اندر ہمارے ساتھ ساتھ جائے گا ۔ اشرف نے ایک چھڑی اپنے ہاتھ میں پکڑی اسے رمبے والی ڈھیری پر رکھا اور بولا میں اب پڑھائی شروع کروں گا تم سب خاموشی سے میرے ساتھ چلنا اور چھڑی کی لکیر پر پیر نہ رکھنا اور" شکائتی ٹٹو" رمبے پر تمھارا تھوک لگا ہے تم ہی اسے نکالنا کوئیاورنکالے گا تو رمبا واپس اپنی جگہ چلا جائے گا ۔ شکائتی ٹٹو نے معنی خیز اور طنزیہ انداز میں کہا تم کوئی اور بہانا سوچو میری فکر نہ کرو میں تمھاری محنت رائیگاں نہیں جانے دوں گا۔ غرض اشرف نے چھڑی کو اس انداز میں گھسیٹنا شروع کیا جیسے اس سے کسی چیز کو ساتھ ساتھ دھکیل رہا ہو ۔ ساتھ ہی وہ منہ میں کچھ بڑبڑاتا بھی جا رہا تھا ۔ چلتے چلتےہم کھیت کی دوسری طرف پہنچے ۔ وہاں بھی رمبے جیسی ڈھیری بنی ہوئی تھی ڈھیری کے پاس پہنچ کر اشرف کا عمل تیز ہو گیا اس کی حرکت سے لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی ان دیکھی چیز ڈھیری میں گھسانے کی کوشش کر رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ "چل رمبیا" اندر چل اندر" کی رٹ لگا رہا تھا اچانک اس نے شکائتی ٹٹو کو ہاتھ کے اشارے سے رمبا نکالنے کے لئیے کہا شکائتی ٹٹو مذاق اڑانے والے انداز میں اشرف کی نقل اتارتے ہوئے جھکا اورہاتھوں سے جلدی جلدی ڈھیری کی مٹی نکالنے لگا تو پہلی ہی بار میں اس کے ہاتھ با لکل تازہ ٹٹی سےبھرگئے ہائے وہ بچپن اور لڑکپن