بچوں کے ساتھ زیادتی میں ترقی
"Cruel Numbers 2015" سنہ دو ہزار پندرہ میں ایک این جی او نے ایک رپورٹ پیش کی جس کا عنوان ہے
اس رپورٹ مے ظاہر ہوتا ہے کے ؛کل ملا کے ٣،٧٦٨ بچے جس مے سے ١،٩٧٤ لڑکیا اور ١،٧٩٤ لڑکے جو مبینہ طور پی ملک بھر سے زیادتی کا شکار بنے
اس رپورٹ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کے ٢٠١٤ کے مقابلے مے ٢٠١٥ مے ٧% اضافہ آیا ہے . مطلب کے ٢٠١٥ کے دوران ہر دن ١٠ بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی.
اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کے اسلام آباد مے جو ١٦٧ بچو سے زیادتی کے کیسز ہیں وو پورے خیبر پختونخوا کے رپورٹڈ کیسز سے زیادہ ہے. پیچھلے سال کے مقابلے میں ٢٠١٥ مے اسلام آباد مے ٨٥% اضافہ آیا ہے
اور اگر ہم اس بات پر غور کریں کے واضح اکثریت مے جو بچوں کے سات جو زیادتی جوتی ہے وو اطلاع نہیں دی جاتی تب ہمیں پتا چلتا ہے کے یہ کتنا ببڑا مثلا ہے
بدقسمتی سے اس چیس سے لڑنا اور اس کو روکنا ہماری حکومت کی ترجیح کی فہرست مے سب سے نیچے رینک کرتی ہے .
انکے لئے تو پلو اور جنگلا بس کے وپر دیہان دینا زیادہ اہم لگتا ہے
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کے قصور میں بچوں کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر جیسی تشدد کا اس قدر ہولناک واقعہ پیش آیا.لوگوں کی اس پر اس قدر تشویش کے باوجود اس کو دبا دیا گیا اور عوام کی نظروں سے اوجھل کر دیا گیا.
پنجاب میں ہونے والے کسی بڑے سے بڑے شرمناک سکینڈل کا یہ انجام ہوتا ہے.کے اسے دبا دیا جاتا ہے اور اسے ایک حکمت عملی کے تحت سردخانے میں ڈال دیا جاتا ہے اور اس کو کبھی انجام تک نہیں نہیں پہنچایا جاتا نہ کسی با اثر فرد یا افراد کو قانون کے کٹہرے میں لا کر اسکے جرم کی سزا دی یا دلائی جا سکتی ہے.
الله ہماری قوم کے بچوں کو حافظ اور اس طرھ کے ظلم سے محفوظ رکھیں
http://nation.com.pk/editorials/24-Mar-2016/growth-in-child-abuse
"Cruel Numbers 2015" سنہ دو ہزار پندرہ میں ایک این جی او نے ایک رپورٹ پیش کی جس کا عنوان ہے
اس رپورٹ مے ظاہر ہوتا ہے کے ؛کل ملا کے ٣،٧٦٨ بچے جس مے سے ١،٩٧٤ لڑکیا اور ١،٧٩٤ لڑکے جو مبینہ طور پی ملک بھر سے زیادتی کا شکار بنے
اس رپورٹ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کے ٢٠١٤ کے مقابلے مے ٢٠١٥ مے ٧% اضافہ آیا ہے . مطلب کے ٢٠١٥ کے دوران ہر دن ١٠ بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی.
اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کے اسلام آباد مے جو ١٦٧ بچو سے زیادتی کے کیسز ہیں وو پورے خیبر پختونخوا کے رپورٹڈ کیسز سے زیادہ ہے. پیچھلے سال کے مقابلے میں ٢٠١٥ مے اسلام آباد مے ٨٥% اضافہ آیا ہے
اور اگر ہم اس بات پر غور کریں کے واضح اکثریت مے جو بچوں کے سات جو زیادتی جوتی ہے وو اطلاع نہیں دی جاتی تب ہمیں پتا چلتا ہے کے یہ کتنا ببڑا مثلا ہے
بدقسمتی سے اس چیس سے لڑنا اور اس کو روکنا ہماری حکومت کی ترجیح کی فہرست مے سب سے نیچے رینک کرتی ہے .
انکے لئے تو پلو اور جنگلا بس کے وپر دیہان دینا زیادہ اہم لگتا ہے
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کے قصور میں بچوں کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر جیسی تشدد کا اس قدر ہولناک واقعہ پیش آیا.لوگوں کی اس پر اس قدر تشویش کے باوجود اس کو دبا دیا گیا اور عوام کی نظروں سے اوجھل کر دیا گیا.
پنجاب میں ہونے والے کسی بڑے سے بڑے شرمناک سکینڈل کا یہ انجام ہوتا ہے.کے اسے دبا دیا جاتا ہے اور اسے ایک حکمت عملی کے تحت سردخانے میں ڈال دیا جاتا ہے اور اس کو کبھی انجام تک نہیں نہیں پہنچایا جاتا نہ کسی با اثر فرد یا افراد کو قانون کے کٹہرے میں لا کر اسکے جرم کی سزا دی یا دلائی جا سکتی ہے.
الله ہماری قوم کے بچوں کو حافظ اور اس طرھ کے ظلم سے محفوظ رکھیں
http://nation.com.pk/editorials/24-Mar-2016/growth-in-child-abuse