وہ زمانہ تو ماضی بنا کہ جب حفاظت یا طاقت کی نمائش کے واسطے ایک بندوق ہی کافی سمجھی جاتی تھی۔ اب تو عرصہ ہونے کو آیا، گن مین اور پولیس اسکارٹ بھی مجرموں کو دور رکھنے اور ان پر اپنی دھاک بٹھانے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
چاہے مختصر وقت کے لیے ہی کیوں نہ ہو، وہ ایک غیر ‘محفوظ گاڑی’ میں بیٹھ کر کسی بھی کام سے اُس وقت تک باہر نہیں نکل سکتے جب تک یقینی طور پر ان کے اِرد گرد بہت سارے لوگوں کا حصار قائم نہ ہو۔
ہوسکتا کہ بعض سہولت سے فائدہ اٹھانے کی خاطر یہ شرط لگاتے ہوں لیکن درحقیقت ایک بُلٹ پروف گاڑی کا مطالبہ مناسب جواز کا حامل بھی لگتا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق دورِ حکومت میں ‘صرف’ دو سو بُلٹ پروف گاڑیوں کی درآمد اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر شخص جو امیر اور بارسوخ ہو ‘چند’ ملین روپے مالیت سے اضافی سیکیورٹی کا انتخاب کرسکتا ہے۔
بہرحال، مسئلہ یہ نہیں کہ جو طاقتور منصبوں پر فائز یا اثر و رسوخ کے حامل ہیں، وہ زیادہ بہتر سیکیورٹی کے بھی حقدار ہیں۔
ملک میں دو سو بُلٹ پروف گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی، جن کے بڑے حصے کو کسٹم ڈیوٹی سے چھوٹ حاصل تھی لیکن اثر و رسوخ اور پیسے کی قوت کے بل بوتے پر ان کی تعداد دو ہزار تک بھی پہنچ سکتی ہے۔
خواہ ان کو بُلٹ پروف گاڑی کی ضرورت ہے یا نہیں مگر پھر بھی فصیل نما دیواروں کے حصار میں قائم محلوں میں، یہ گاڑیاں اُن کی شان و شوکت کی علامت ہیں لیکن بنیادی بحث یہ نہیں ہے۔
بحث یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جو نہایت سنگین خطرات سے دوچار ہے، ایسے میں اُن شخصیات کی حفاظت کی خاطر، جن میں سے زیادہ تر خود عوام کے اپنے منتخب نمائندے ہیں، ایسے کون سے حفاظتی انتظامات اختیار کیے جائیں کہ وہ عوام کو اپنی بہتر خدمات پیش کرنے کے قابل ہوسکیں۔
لیکن پھر ایک دوسرا خیال بھی پیش کیا جاتا ہے۔ مراعات خود اپنے ہی خطرات لے کر آتی ہے۔ مراعات یافتہ لوگ، خاص طور پر سیکیورٹی یا انتہائی سیکیورٹی کی حامل شخصیات، ہر وقت ہر جگہ، ہجوم میں دوسروں سے منفرد اور نمایاں ہی رہتے ہیں۔
وہ لوگ جو پہلے ہی طاقتور اور رسوخ کے حامل ہوں، انہیں اس طرح کی سہولت فراہم کرنا، باقی دیگر لوگوں سے صرف ممتاز ہی نہیں بناتا بلکہ عوام میں انہیں نفرت کا نشانہ اور تضحیک کا بھی موضوع بھی بنا دیتا ہے۔
source
چاہے مختصر وقت کے لیے ہی کیوں نہ ہو، وہ ایک غیر ‘محفوظ گاڑی’ میں بیٹھ کر کسی بھی کام سے اُس وقت تک باہر نہیں نکل سکتے جب تک یقینی طور پر ان کے اِرد گرد بہت سارے لوگوں کا حصار قائم نہ ہو۔
ہوسکتا کہ بعض سہولت سے فائدہ اٹھانے کی خاطر یہ شرط لگاتے ہوں لیکن درحقیقت ایک بُلٹ پروف گاڑی کا مطالبہ مناسب جواز کا حامل بھی لگتا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق دورِ حکومت میں ‘صرف’ دو سو بُلٹ پروف گاڑیوں کی درآمد اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر شخص جو امیر اور بارسوخ ہو ‘چند’ ملین روپے مالیت سے اضافی سیکیورٹی کا انتخاب کرسکتا ہے۔
بہرحال، مسئلہ یہ نہیں کہ جو طاقتور منصبوں پر فائز یا اثر و رسوخ کے حامل ہیں، وہ زیادہ بہتر سیکیورٹی کے بھی حقدار ہیں۔
ملک میں دو سو بُلٹ پروف گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی، جن کے بڑے حصے کو کسٹم ڈیوٹی سے چھوٹ حاصل تھی لیکن اثر و رسوخ اور پیسے کی قوت کے بل بوتے پر ان کی تعداد دو ہزار تک بھی پہنچ سکتی ہے۔
خواہ ان کو بُلٹ پروف گاڑی کی ضرورت ہے یا نہیں مگر پھر بھی فصیل نما دیواروں کے حصار میں قائم محلوں میں، یہ گاڑیاں اُن کی شان و شوکت کی علامت ہیں لیکن بنیادی بحث یہ نہیں ہے۔
بحث یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جو نہایت سنگین خطرات سے دوچار ہے، ایسے میں اُن شخصیات کی حفاظت کی خاطر، جن میں سے زیادہ تر خود عوام کے اپنے منتخب نمائندے ہیں، ایسے کون سے حفاظتی انتظامات اختیار کیے جائیں کہ وہ عوام کو اپنی بہتر خدمات پیش کرنے کے قابل ہوسکیں۔
لیکن پھر ایک دوسرا خیال بھی پیش کیا جاتا ہے۔ مراعات خود اپنے ہی خطرات لے کر آتی ہے۔ مراعات یافتہ لوگ، خاص طور پر سیکیورٹی یا انتہائی سیکیورٹی کی حامل شخصیات، ہر وقت ہر جگہ، ہجوم میں دوسروں سے منفرد اور نمایاں ہی رہتے ہیں۔
وہ لوگ جو پہلے ہی طاقتور اور رسوخ کے حامل ہوں، انہیں اس طرح کی سہولت فراہم کرنا، باقی دیگر لوگوں سے صرف ممتاز ہی نہیں بناتا بلکہ عوام میں انہیں نفرت کا نشانہ اور تضحیک کا بھی موضوع بھی بنا دیتا ہے۔
source