سہیل وڑائچ کا بنگلہ دیش ماڈل کے نام سے ایک کالم سوشل میڈیا پر وائرل ہورہا ہے جس میں سہیل وڑائچ بنگلہ دیش ماڈل کی پاکستان میں حمایت کرتے اور خدوخال بیان کرتے نظر آئے۔ یہ کالم الیکشن 2024 سے ایک روز قبل 7 فروری کو شائع ہوا تھا۔
سہیل وڑائچ نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ معلوم نہیں حتمی طور پر کیا ہوگا مگر فی الحال یہ طے ہوا ہے کہ انتخابات کے بعد پاکستان میں بنگلہ دیش کی طرح مستحکم سیاسی حکومت قائم کی جائے گی اور اسے مقتدرہ کی مکمل مدد و حمایت سے دس سال تک چلایا جائے گا۔
انکے مطابق مقصد یہ ہے کہ جس طرح بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد نے اداروں کی مدد سے اپنے ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے اسکی پیروی کی جائے تاکہ پاکستان بھی معاشی اور سیاسی طور پر اپنے قدموں پر کھڑاہو سکے۔
صحافی احمد وڑائچ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ نواز شریف وزیراعظم ہوں گے، شہباز شریف معاونت کریں گے، پختون خوا میں پرویز خٹک یا کسی اور مہربان کا قرعہ نکلے گا، طے ہوا ہے کہ بنگلہ دیش کی طرح مستحکم سیاسی حکومت قائم کی جائے گی، مقتدرہ کی مکمل حمایت سے 10 سال چلایا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وڑائچ صاحب بنگلہ دیش ماڈل تو وڑ گیا۔
سحرش مان نے لکھا کہ کوئی سہیل وڑائچ کو جا کر بتائے کہ نواز شریف کو حسینہ واجد طرز کا اقتدار دلانے کے لئے بنایا گیا آپ کا بیانیہ خلیج بنگال میں ڈوب گیا ہے
صحافی فہیم اختر نے طنز کیا کہ اب حقیقت میں پاکستان کو بنگلہ دیش ماڈل اپنانا چاہیے
خالد عباسی نے لکھا کہ جس بنگلہ دیشی ماڈل کی پیروی پاکستان میں کی گئی تھی اس پراجیکٹ کا سیاسی مہرہ بنگلہ دیش سے بھاگ گیا ہے اور عسکری مہرے نے اقتدار سنبھال لیا ہے جبکہ پاکستان میں سیاسی مہرہ اڈیالہ میں اور اسکا عسکری ابا پگ سنبھالنے کے جتن کر رہا ہے۔۔۔ فرق جان کر جیو !
صابر شاکر نے طنز کی اکہ وہ ماڈل سمیت ملک سے فرار ہوگئی ہیں
بشارت راجہ نے تبصرہ کیا کہ پیٹ سے لکھنے والے ادھیڑ عمر قلمکار نے انتخابات سے قبل کالمز کی سیریز لکھ ماری بنگلہ دیش ماڈل آ رہا ہے یہ قلمکاروں کے اُس قبیل سے تعلق رکھتا ہے جو ہمیشہ پنڈی صدر خیمہ زن رہتے ہیں
انہوں نے مزید کہا کہ ان لوگوں نے خیمہ کے صدر دروازے پر بوٹ لٹکا رکھا ہوا ہے بوٹ کی صحبت نے ان قلمکاروں کی سوچنے بوٹ سے شروع کر کے بوٹ پر ہی ختم کرتی ہیں جس کارن ان قلمکاروں کو ہر ہر موقع پر منہ کی کھانا پڑی مگر کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے
ارشد شریف کی صاحبزادہ علیزہ ارشد نے لکھا کہ عام طور پر انکل سہیل وڑائچ کے تجزیات صرف تین ماہ میں ہی غلط ثابت ہو جاتے ہیں.ان کے لیے خوش آئندہ بات ہے کہ اس بار چھ ماہ لگے
عدیل راجہ نے لکھا کہ سہیل وڑائچ کا اک اور سپنا، سپنا ہی رہ گیا