jani1
Chief Minister (5k+ posts)
گوادر کی بندرگاہیں۔۔۔۔...
گوادر کی بندرگاہ۔۔۔۔
بیس سال پہلے جب میں نے اس شہر کے پُرانے ایئر پورٹ پرباباجی کے ساتھ قدم رکھا توعجیب سا احساس تھا ۔۔ اور نئی ہی اک دُنیا تھی۔۔۔۔جب ٹیکسی میں بیٹھ کر ایک انکل کے ساتھ اُن کے گھر روانہ ہوئے ۔۔۔راستے میں مُجھے یہاں کی صاف سڑکیں یہاں کی عمارتیں یہاں کے پُل اور فلائی اوورز یہاں کے گرین بیلٹ اپنی طرف کھینچتے رہے۔۔۔
کیا وقت تھا وہ بھی جب یہاں کی ہر ایک چیز کا پاکستان سے موازنہ کرتے تو آنکھ میں آنسو آجاتے۔۔۔اب تو موازنہ کرنا ہی چھوڑ دیا۔۔۔
اُس وقت جب یہ انگریزوں کی اک کالونی تھی تب بھی یہ پُر کشش شہر تھا مگر اُن سے آزاد ہوکر تو جیسے اسے پر ہی لگ گئے ہوں۔۔۔اور دن دُگنی و رات چُگنی ترقی پر گامزن کردیا گیا ہو۔۔۔
جی ہاں میں ہانگ کانگ کی بات کر رہا ہوں۔۔جو کہ اب چین کا ہی ایک شہر شُمار کیا جاتا ہے۔۔مگر چین نے اس کے ساتھ سوتیلے بیٹے سا سلُوک نہیں کیا بلکہ اسے کماو پُوت کی طرح رکھا۔۔۔اور اس کے لئے ایک نیا قانُون مُتعارُف کروایا ۔۔۔ون کنٹری ٹو سسٹم۔۔۔ یعنی ایک ہی مُلک میں دو نظام۔۔۔
یہاں کی کرنسی ڈالر کہلاتی ہے جبکہ وہاں کی آر ایم بی۔۔۔ یہاں کے پاسپورٹ پر آپ دُنیا کے تقریبا ڈیڑھ سو مُلکوں کا سفر بغیر ویزے کے کر سکتے ہو جبکہ چین کے پاسپورٹ پر ویزا درکار ہوگا۔۔۔
اس کے بہت شاندار اور نئے انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر چونکہ انگریز جاتے ہوئے ہی کام شُروع کر گئے تھے مگر اُسے پایائے تکمیل تک چین نے پہنچایا۔۔۔دو بڑے رن ویز ہونے کے باوجود ایک تیسرا رن وے اور تیسرا ٹرمینل بھی تعمیر کے آخری مراحل میں ہے۔۔۔جہاں ایک گھنٹے میں ستر جہاز لینڈ کرتے ہوں وہاں کے لئے دو رن ویز واقعی کم ہی پڑتے ہونگے۔۔۔
کئی سال سے دُنیا کی ٹاپ فائیو ائیر لائن میں جگہ برقرار رکھنے والی ائیرلائن کیتھے پیسیفک کے وطن میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ ہر منٹ یا منٹ سے بھی کم وقت میں جہاز آتے جارہے ہیں۔۔۔
بس یہی کہ اسے ایک خُوبصورت چڑیا بنایا گیا ہے۔۔ اس کی معیشت اپنے وجود کے حساب سے ایک جائینٹ یا بلا کا رُوپ دھار گئی ہے۔۔۔ اس کی یونیورسٹیاں دُنیا کی ٹاپ ففٹی میں شُمار کی جاتیں ہیں۔۔۔اس کے ہیلتھ اور ویلفیئر سسٹم کو دیکھ کر بندہ عش عش کر اُٹھتا ہے۔۔۔
۔۔
جو کہ معاشرے کے تمام ضرُورت مندوں کی مدد کرتی ہے۔۔۔جہاں شہریوں کو پانی بجلی گیس جیسے مسائل کا سامنا نہیں۔۔ جہاں کم آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں۔۔۔ جو دُنیا میں کرپشن فری اسٹیٹ کی ٹاپ فائیو پر ہے۔۔
جہاں لوگ دُنیا بھر سے کام ڈھونڈھنے آتے ہیں۔۔۔ مزدوری وغیرہ ہی نہیں بلکہ یورپ امریکہ و آسٹریلیا وغیرہ سے پروفیشنلز کام ڈھونڈھنے آتے ہیں۔۔۔
جہاں کی مارکیٹ میں دُنیا کی ٹاپ برانڈ سجھنے پر ناز کرتی ہیں۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ان ساری کہانیوں کے سچے ہونے کے لئے ایسی کونسی جادو کی چھڑی استعمال ہوتی ہے۔۔۔ ایسا کیا بناتے ہیں یا اُوگاتے ہیں۔۔۔۔
جواب ہے۔۔۔کُچھ بھی نہیں۔۔۔ تو پھر۔۔؟؟۔۔۔۔پھر یہ کہ ایماندار لیڈرشپ ۔۔ یہاں کا سی پورٹ۔۔ٹورزم۔۔بزنس و سروسز۔۔۔یہ وجوہات ہیں اس شہر کی ترقی کے۔۔۔
آپ بھی کہو گے کہ کہانی کا ٹائٹل گوادر کا ہے اور سیر ہمیں ہانگ کانگ کی کرائی جارہی ہے وہ بھی مُفت میں۔۔۔ تو دوستو۔۔۔ یہ سیر مُفت کی ضرور تھی مگر بے مقصد نہیں۔۔۔ یہ آپکے مُستقبل کی سیر تھی۔۔۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ چور حُکمران ہمارے گوادر کو گوادر بنا سکتے ہیں۔۔
کیا یہ وہاں کے رہائشیوں اور باقی مُلک کو ہانگ کانگ جیسی زندگی دے سکتے ہیں۔۔۔ جبکہ ۔۔۔ ہانگ کانگ کے مُقابلے میں ہمارے پاس چین کے علاوہ سینٹرل ایشیا روس افریقہ وغیرہ بھی ہیں۔۔۔اور ہماری اپنی پیداوار بھی۔۔۔
ہمیں سی پیک سے بھی ٹیکس ملے گا اور پورٹ سے بھی۔۔۔
چین جو کہ معیشت کی دُنیا کا بادشاہ بننے جارہا ہے۔۔۔ اُس کے ایک طرف ہانگ کانگ ہے تو دوسری طرف پاکستان۔۔یا گوادر کی بندرگاہ۔۔
مطلب یہ کہ گوادر ہانگ کانگ اور دُبئی کو بہت پیچھے چھوڑسکتا ہے۔۔۔اگر۔۔۔
یہ ایک ایماندار۔۔۔و مُخلص لیڈر کے ہاتھ میں ہو۔۔۔نہ کہ ان تصدیق شُدہ و ثابت شُدہ چوروں کے ہاتھوں میں۔۔۔
بیس سال پہلے جب میں نے اس شہر کے پُرانے ایئر پورٹ پرباباجی کے ساتھ قدم رکھا توعجیب سا احساس تھا ۔۔ اور نئی ہی اک دُنیا تھی۔۔۔۔جب ٹیکسی میں بیٹھ کر ایک انکل کے ساتھ اُن کے گھر روانہ ہوئے ۔۔۔راستے میں مُجھے یہاں کی صاف سڑکیں یہاں کی عمارتیں یہاں کے پُل اور فلائی اوورز یہاں کے گرین بیلٹ اپنی طرف کھینچتے رہے۔۔۔
کیا وقت تھا وہ بھی جب یہاں کی ہر ایک چیز کا پاکستان سے موازنہ کرتے تو آنکھ میں آنسو آجاتے۔۔۔اب تو موازنہ کرنا ہی چھوڑ دیا۔۔۔
اُس وقت جب یہ انگریزوں کی اک کالونی تھی تب بھی یہ پُر کشش شہر تھا مگر اُن سے آزاد ہوکر تو جیسے اسے پر ہی لگ گئے ہوں۔۔۔اور دن دُگنی و رات چُگنی ترقی پر گامزن کردیا گیا ہو۔۔۔
جی ہاں میں ہانگ کانگ کی بات کر رہا ہوں۔۔جو کہ اب چین کا ہی ایک شہر شُمار کیا جاتا ہے۔۔مگر چین نے اس کے ساتھ سوتیلے بیٹے سا سلُوک نہیں کیا بلکہ اسے کماو پُوت کی طرح رکھا۔۔۔اور اس کے لئے ایک نیا قانُون مُتعارُف کروایا ۔۔۔ون کنٹری ٹو سسٹم۔۔۔ یعنی ایک ہی مُلک میں دو نظام۔۔۔
یہاں کی کرنسی ڈالر کہلاتی ہے جبکہ وہاں کی آر ایم بی۔۔۔ یہاں کے پاسپورٹ پر آپ دُنیا کے تقریبا ڈیڑھ سو مُلکوں کا سفر بغیر ویزے کے کر سکتے ہو جبکہ چین کے پاسپورٹ پر ویزا درکار ہوگا۔۔۔
اس کے بہت شاندار اور نئے انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر چونکہ انگریز جاتے ہوئے ہی کام شُروع کر گئے تھے مگر اُسے پایائے تکمیل تک چین نے پہنچایا۔۔۔دو بڑے رن ویز ہونے کے باوجود ایک تیسرا رن وے اور تیسرا ٹرمینل بھی تعمیر کے آخری مراحل میں ہے۔۔۔جہاں ایک گھنٹے میں ستر جہاز لینڈ کرتے ہوں وہاں کے لئے دو رن ویز واقعی کم ہی پڑتے ہونگے۔۔۔
کئی سال سے دُنیا کی ٹاپ فائیو ائیر لائن میں جگہ برقرار رکھنے والی ائیرلائن کیتھے پیسیفک کے وطن میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ ہر منٹ یا منٹ سے بھی کم وقت میں جہاز آتے جارہے ہیں۔۔۔
بس یہی کہ اسے ایک خُوبصورت چڑیا بنایا گیا ہے۔۔ اس کی معیشت اپنے وجود کے حساب سے ایک جائینٹ یا بلا کا رُوپ دھار گئی ہے۔۔۔ اس کی یونیورسٹیاں دُنیا کی ٹاپ ففٹی میں شُمار کی جاتیں ہیں۔۔۔اس کے ہیلتھ اور ویلفیئر سسٹم کو دیکھ کر بندہ عش عش کر اُٹھتا ہے۔۔۔
۔۔
جو کہ معاشرے کے تمام ضرُورت مندوں کی مدد کرتی ہے۔۔۔جہاں شہریوں کو پانی بجلی گیس جیسے مسائل کا سامنا نہیں۔۔ جہاں کم آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں۔۔۔ جو دُنیا میں کرپشن فری اسٹیٹ کی ٹاپ فائیو پر ہے۔۔
جہاں لوگ دُنیا بھر سے کام ڈھونڈھنے آتے ہیں۔۔۔ مزدوری وغیرہ ہی نہیں بلکہ یورپ امریکہ و آسٹریلیا وغیرہ سے پروفیشنلز کام ڈھونڈھنے آتے ہیں۔۔۔
جہاں کی مارکیٹ میں دُنیا کی ٹاپ برانڈ سجھنے پر ناز کرتی ہیں۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ان ساری کہانیوں کے سچے ہونے کے لئے ایسی کونسی جادو کی چھڑی استعمال ہوتی ہے۔۔۔ ایسا کیا بناتے ہیں یا اُوگاتے ہیں۔۔۔۔
جواب ہے۔۔۔کُچھ بھی نہیں۔۔۔ تو پھر۔۔؟؟۔۔۔۔پھر یہ کہ ایماندار لیڈرشپ ۔۔ یہاں کا سی پورٹ۔۔ٹورزم۔۔بزنس و سروسز۔۔۔یہ وجوہات ہیں اس شہر کی ترقی کے۔۔۔
آپ بھی کہو گے کہ کہانی کا ٹائٹل گوادر کا ہے اور سیر ہمیں ہانگ کانگ کی کرائی جارہی ہے وہ بھی مُفت میں۔۔۔ تو دوستو۔۔۔ یہ سیر مُفت کی ضرور تھی مگر بے مقصد نہیں۔۔۔ یہ آپکے مُستقبل کی سیر تھی۔۔۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ چور حُکمران ہمارے گوادر کو گوادر بنا سکتے ہیں۔۔
کیا یہ وہاں کے رہائشیوں اور باقی مُلک کو ہانگ کانگ جیسی زندگی دے سکتے ہیں۔۔۔ جبکہ ۔۔۔ ہانگ کانگ کے مُقابلے میں ہمارے پاس چین کے علاوہ سینٹرل ایشیا روس افریقہ وغیرہ بھی ہیں۔۔۔اور ہماری اپنی پیداوار بھی۔۔۔
ہمیں سی پیک سے بھی ٹیکس ملے گا اور پورٹ سے بھی۔۔۔
چین جو کہ معیشت کی دُنیا کا بادشاہ بننے جارہا ہے۔۔۔ اُس کے ایک طرف ہانگ کانگ ہے تو دوسری طرف پاکستان۔۔یا گوادر کی بندرگاہ۔۔
مطلب یہ کہ گوادر ہانگ کانگ اور دُبئی کو بہت پیچھے چھوڑسکتا ہے۔۔۔اگر۔۔۔
یہ ایک ایماندار۔۔۔و مُخلص لیڈر کے ہاتھ میں ہو۔۔۔نہ کہ ان تصدیق شُدہ و ثابت شُدہ چوروں کے ہاتھوں میں۔۔۔
- Featured Thumbs
- http://www.zameen.com/blog/wp-content/uploads/2014/08/gwadar.jpg
Last edited: