Syed Haider Imam
Chief Minister (5k+ posts)
بلوچستان کے نمائندوں کا رجیم چینج میں روائتی غدارنہ کردار ( فائنل )

رجیم چینج آپریشن میں پاکستانی قوموں کی نمائندگی کرنے والے غداروں کا " بلوچستان چیپٹر" حاضر خدمت ہے. رجیم چینج آپریشن اتنا بڑا آپریشن تھا کہ ایک بلاگ اسکا متحمل نہیں ہو سکتا . میں نے غداری کا ذکر تحریک انصاف کے گھر سے کیا ہے . عمران خان نے جاتے وقت کہا تھا کوئی رہ تو نہیں گیا ؟ رجیم چینج آپریشن میں بیرونی طاقتوں نے جو کیا سو کیا ، فوج نے جسطرح تمام قوموں میں اپنے مہرے اس رجیم چینج آپریشن میں استعمال کئے وہ بہت حیران کن تھا . اپنی اپنی حیود و قیود میں رہ کر محض گنتی کے چند پاکستانی صحافی جتنا بول اور لکھ سکتے تھے ، اسکی پاداش میں بھی انھیں خوفناک نتائج بھگتنا پڑ رہے ہیں . سوشل میڈیا کو خریدا نہیں جا سکتا . اس فورم پر ہمیشہ کی طرح نا معلوم آئی ڈیز بھر پور متحرک ہو چکی ہیں جو کونٹینٹ پر کمینٹ نہیں کرتے . اس فورم کے زومبیز کو میں دس سالوں سے بھگت رہا ہوں مگر یہ لوگ مائنڈ گیم میں مجھے ہرا نہیں سکے . فوجی جرنیلوں کے مخالفت میں تین سالوں سے زیادہ ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا . الحمد اللہ ، ہمیشہ سچ سامنے آیا ہے
غدار کی تعریف کیا ہے ؟
1 : a person who is not loyal or true to a friend, duty, cause, or belief or is false to a personal duty.
2 : a person who betrays his or her country : a person who commits treason.
Merriam-Webster on traitor.
وہ شخص جو اپنے ملک کو دھوکہ دیتا ہے اور جو غداری کا مرتکب ہوتا ہے

پاکستان میں رہنے والی قوموں / گروہوں میں روایات اور پرائیڈ کا ذکر سننے میں بہت ملتا ہے مگر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ قیامت کی تمام نشانیاں پوری ہو چکی ہیں ، آخر اس دھرتی پر رہنے والوں کو بنیادی ضروریات زندگی قیامت تک کیوں میسر نہ ا سکیں . اگر اس دھرتی پر رہنے والے قوموں کی روایات اور پرائیڈ اتنی مظبوط ہیں تواس معاشرہ میں فرسودہ سیاسی ، اقتصادی ، سماجی اور نفسیاتی نظام آج تک تبدیل کیوں نہ ہو سکا . روایتوں اور پرائیڈ کےامین ، اپنی ہی قوموں کو خوشحالی کیوں نہ دے سکے ؟
بلوچ قوم اور بلوچوں میں سرداری نظام پر ایک مفصل آرٹیکل سے اقتباس
ڈاکٹر عطا محمد مری نے اپنی کتاب ’بلوچ قوم: قدیم عہد سے عصر حاضر تک‘ میں سرداری نظام کے سیاسی، اقتصادی، سماجی اور نفسیاتی پہلوؤں پر تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ اس نظام کے خد و خال اگر چند الفاظ میں بیان کیے جائیں تو ڈاکٹر عطا محمد مری کے الفاظ میں اس کی صورت یہ ہو گی:
ڈاکٹر عطا محمد مری کے الفاظ میں
’سردار لا شریک ہوتا ہے‘
ڈاکٹر مری کے اس جملے سے بلوچستان کے سردار کی طاقت اور جبروت کا اندازہ ہوتا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اسے یہ قوت کیسے میسر آتی ہے۔ ڈاکٹر مری کے مطابق خطہ بلوچستان کی ایک فطری اور تاریخی کمزوری نے اس یہ طاقت فراہم کی۔اس نظام میں سردار کی حیثیت کیا ہے؟ڈاکٹر مری لکھتے ہیں ’اس ساری درجہ بندی کی چوٹی پر سردار بیٹھا ہے۔ اس کا ہمسر اور اس کی برابری کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ وہ لاشریک ہوتا ہے اور قبیلے پر اپنا اثر اپنے ماتحتوں یعنی وڈیروں کے ذریعے برقرار رکھتا ہے۔مگر دراصل یہ روایت اور قبائلیت میں بنیاد پرست اور سماجی برتاؤ میں بہت ہی قدامت پسند ہوتے ہیں۔ وہ غیرت کی دھن پر جان لیوا رقص کرتے ہیں اور وطن کے خطرے میں وجد میں آتے ہیں اور اگر برطانوی، امریکی اور پنجابی سامراج کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی صدا دو تو پوری غیور قوم آپے سے باہر ہو کر مکمل مجنوں بن جاتی ہے۔‘
غربت قسمت کا لکھا بن جاتی ہے، علم بے غیرتی ہو جاتا ہے اور انصاف سردار کی خشم آلود نگاہوں کی باندی بن جاتا ہے۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ بلوچستان روائتی طور پر ایک کمزور ’ملک‘ رہا ہے جہاں کوئی مرکزی اتھارٹی کبھی نہیں رہی۔ یہی سبب تھا کہ اس خطے میں چھوٹے چھوٹے معاشرے مل کر ایک کنفیڈریشن کی شکل اختیار کر گئے۔ سرداری نظام کو اس کنفیڈریشن کو وجود میں لانے والی اکائیوں کو تشکیل دینے والے عناصر ترکیبی سے سمجھنا ممکن ہو سکتا ہے۔ ہر انسانی معاشرے کی طرح فطری طور پر بلوچستان میں بھی سماج کی بنیادی اکائی فرد سے ہی تشکیل پاتی ہے جو فطری طور پر کسی خاندان کی نمائندگی کرتا ہے۔
اس نظام میں سردار کی حیثیت کیا ہے؟ ڈاکٹر مری لکھتے ہیں ’اس ساری درجہ بندی کی چوٹی پر سردار بیٹھا ہے۔ اس کا ہمسر اور اس کی برابری کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ وہ لاشریک ہوتا ہے اور قبیلے پر اپنا اثر اپنے ماتحتوں یعنی وڈیروں کے ذریعے برقرار رکھتا ہے۔‘
ایسا کیوں تھا؟
یہ راز ڈاکٹر مری کھولتے ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ اس بے حد احترام کا سبب سردار کا سیاسی و سماجی مرتبہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے پس پشت روحانی قوت بھی ہوتی ہے: ’بلوچوں کے سارے پی ایچ ڈی، سارے یورپ پلٹ اور سارے علم و دانش کے مالک اشخاص بھی اپنے سردار کو ولی اللہ گردانتے ہیں۔ قبائل کے نزدیک سردار اللہ کا برگزیدہ اور پسندیدہ شخص ہے۔ تبھی تو اسے اتنی طاقت عطا کر دی گئی ہے۔
‘ وہ لکھتے ہیں کہ بلوچ اپنے سردار کو صاحب کرامت پیر اور بزرگ بھی سمجھتے ہیں۔
قصہ مختصر ، بلوچستان کے نواب اور سردار بلوچستان کی محرمیوں کا رنڈی رونا روتے تو ضرور ہیں جو حقیقی ہیں مگر وہ خود دل سے چاہتے ہیں کہ بلوچ عوام ہمیشہ پسماندہ اور جاہل رہیں تاکہ انکی سرداری قائم رہے . سردار اکبر بگٹی حکومت پاکستان سے گیس کی مد میں اربوں کی رائلٹی لیتے تھے مگر اپنے بلوچوں کو جوتی تک پہنے کی اجازت نہیں دیتے تھے .
قومی اور پرائیویٹ ٹیلی ویژن پر پر بلوچستان کے متعلق کوئی خبر نہی اتی کیونکے وہ فوج کا مقبوضہ علاقہ ہے . آپکو پنجابی میڈیا ہاؤسز کے ٹالک شوز میں کوئی بلوچی نمائندگی نہیں ملتی . بلوچستان کے ممبر پارلیمنٹ فوجی کی جیب میں ہیں . جب فوج چاہتی ہے وہ اپنا وزن دوسروں کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں . اب بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے " باپ پارٹی " کے چار ممبرزکو دیکھ لیں جنہوں نے اپنی قوم سے غداری کی اور آرمی چیف جنرل باجوہ کے ایماء پر اسکی کی بنائی امپورٹڈ حکومت میں یہ کہ کر جا بیٹھے تھے
Magsi told reporters that his party had reached the conclusion to join the opposition after consultation. “Balochistan has been deprived” and the party wanted the province’s issues addressed. “That is why BAP has decided to support the opposition,” he added.
تحریک انصاف کی حکومت سے علیحدگی کے بعد اختر مینگل متحدہ اپوزیشن میں شامل ہو گئے۔ ان کے پاس قومی اسمبلی کی چار نشستیں ہیں۔ انھوں نے عدم اعتماد کی تحریک میں عمران خان کے خلاف ووٹ دیا اور اب شہباز شریف حکومت میں ان کے اتحادی ہیں۔ موصوف کا فرمانا تھا کہ
’جب تک بلوچستان کے مسئلے کا حل سیاسی انداز اور طریقے سے نہ نکلے فوجی آپریشنز یا وہاں حکومتیں لانے اور بدلنے سے حل نہیں ہو گا۔‘انہوں نے کہا کہ ’تاریخ میں بلوچستان کے عوام کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔ اگر بلوچستان کے لوگوں کے مسائل حل نہیں کیے گئے تو ملک کو نقصان ہو گا۔‘
شاہ زین بگٹی نے کہا کہ ’بلوچستان میں لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی۔ آج بلاول بھٹو ہمارے یہاں تشریف لائے۔ ہم وفاقی کابینہ سے استعفیٰ دینے کا اعلان کرتے ہیں اور ہم پی ڈی ایم کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘
شاہ زین بگٹی کو بلاول بھٹو سے توقعات ہیں . اگر بلاول کے نانا نے انکے توقعات پوری نہیں کی تھیں تو معصوم بلاول تو اپنی مرضی سے ٹٹی بھی نہیں کر سکتا . یہ کیسا احمق بلوچ سردار ہے جسے بلوچستان کی تاریخ تک معلوم نہیں . جسے یہ معلوم نہیں کہ بھٹو صاحب کی پالیسی مکمل طور پر ناکام ہو گئیں تھی جسکا احوال اس آرٹیکل میں ملتا ہے

بÙÙÚستا٠ÙÛÚº Ø³Ø±Ø¯Ø§Ø±Û Ùظا٠کا خاتÙÛ: âسردار Ùا شرÛÚ© ÛÙتا ÛÛâ - Û٠سب
بÙÙÚØ³ØªØ§Ù Ú©Û ÙØ¹Ø§Ø´Ø±Û ÙÛÚº سردار ÛÛ ÙÛ Ø³Ø±ÚØ´ÙÛ ÛÛ Ø¬Ûاں Ø³Û Ø³ÛاسÛØ Ø«ÙاÙتÛØ Ø§Ùر ÙØ¹Ø§Ø´Û Ø§Ø®ØªÛارات Ú©Û Ø¯Ø±Ûا Ù¾Ú¾ÙÙ¹ØªÛ ÛÛÚºØ ÙÛ Ø§Ù¾ÙÛ Ø§ØªÚ¾Ø§Ø±Ù¹Û Ú©Ù Ø¨Ø±Ùرار رکھÙا Ø¨Ú¾Û Ø¬Ø§Ùتا ÛÛ Ø§Ùر اÛسا کرÙÛ Ú©Û ÙÙت Ø¨Ú¾Û Ø±Ú©Ú¾ØªØ§ ÛÛÛ Ø§Ø³Û ÙعÙÙÙ ÛÛ Ú©Û...

https://www.bbc.com/urdu/pakistan-61097456
محض دو ماہ بعد قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوے بلوچستان کے اسلم بھوٹانی نے بلوچ لیڈرشپ کے احمقانہ بیانات کو یکسر رد کر دیا اور اپنی وائرل ویڈیو میں دنیا کو حقائق سے روشناس کر دیا . محمد اسلم بھوٹانی نے بلوچستان میں سب سے زیادہ یعنی ٧٠ ہزار ووٹوں سے اپنے سیاسی حریفوں جمال کمال خان ( بلوچستان عوامی پارٹی ) اور اختر مینگل ( بلوچستان نیشنل پارٹی ) کو ہرایا تھا . اپنی تقریر میں واضح طور پر فوجی مداخلت کا ذکر " ٹیلی فون والوں " کا استعمال کر کے کیا . بڑے بڑے جماندرو بلوچ لیڈر جو بلوچی روایات ، ثقافت اور اپنی تاریخی پرائیڈ کا ذکر کرتے نہیں تھکتے ، انہوں نے ایک مرتبہ پھر دولت اور طاقت کی خاطر اپنا ضمیر بیچ کر بلوچوں کی تاریخ کو پراگندہ کیا اور عوامی مینڈیٹ کی توہین کی . تمام قوموں کی طرح بلوچوں کی بھی انتہائی شرمناک تاریخ رہی ہے جو روح کی گہرایوں تک کرپٹ اور مظالم سے بھر پور ایک تاریخ رکھتے ہیں . ڈگری ڈگری ہوتی ہے جیسا لافانی کردار اس معاشرے سے اٹھ کر ہمارے ایوانوں کا حصہ رہے . انکے تہہ خانوں سے اربوں روپے برآمد ہوے . جنہوں نے جرائم کئے اور اپنے انٹرویوز میں انھیں خندہ پیشانی سے تسلیم بھی کیا . بلوچستان کا وزیراعلیٰ بلوچستان میں نہیں رہتا تھا بلکہ دبئی میں رہتا تھا . بلوچستان کی اسمبلی میں ہر ممبر وزیر بنتا ہے اور یہ سیاستدان باریاں لگا کر اقتدار کے مزے لیتے ہیں . آخر میں الزام اسٹیبلشمنٹ پر لگا کر لوگوں کو بھڑکاتے ہیں .
اسٹیبلشمنٹ بھی ان سے بھر پور فائدے اٹھاتی ہے
اسلم بھوٹانی صاحب کا ایک جملہ
پی ٹی آئی میں عزت نہیں تھی مگر اربوں روپے کے فنڈز تھے
حکومت پاکستان کے فنڈز عوام کے لئے خرچ ہوتے ہیں
اب مقبوضہ بلوچستان کے سرداروں کے پاس سرکاری وقتی عزت ہے مگر عوام کے لئے مگر فنڈز نہیں، ویسے بھی
فنڈز سارے کا سارا انکی جیبوں میں چلا جاتا تھا ، پتا نہیں موصوف شکوہ کس بات کا کر رہے ہیں ؟
- Featured Thumbs
- https://i.postimg.cc/3RmctnfK/Logo.png