Arslan
Moderator
نیشنلزم سیاسی گرامر کا وہ تاب خوردہ سوال ہے جو دیوہیکل ریاستوں کو لے ڈوبا۔ اس کی تاب خوردہ پیچیدگی کی تفہیم کیلئے دانش و حکمت کے کتنے کلیے سامنے آئے لیکن بے سود نکلے۔ انقلاب کے سپنے دیکھتی آنکھوں نے نظریات کی کتنی بہاریں گزار دیں لیکن سب ہی بے ثمر ثابت ہوئے۔ مارکسی اس کی فلسفیانہ گھتی سلجھاتے سلجھاتے خود ہی ڈھیر ہوگئے ۔ صحیح یا غلط؛ اس میں کچھ ایسا سیاسی جادو ہے جو ہر خاص و عام کو یک جان کردیتا ہے۔
سیاسی اصطلاح نیشنلزم اور زبانوں کی گرامر میں کچھ زیادہ فرق بھی نہیں۔ گرامر کی رو سے اگر نیشن آبجیکٹ ہے، تو جدوجہد یا اسٹرگل ورب کی جگہ سنبھال رہی ہے اور نیشلزم کا نظریہ سبجیکٹ قرار پائے گا۔ یعنی آبجیکٹ،ورب، سبجیکٹ۔ یکساں قاعدہ ہے۔
بلوچی ادب سے تعلق رکھنے والے، ایک نچلے درجے کے سرکاری ملازم نے نیشنلزم کی مختصر سی توجیح یوں پیش کی؛
اختر مینگل میرا جیسا مظلوم ہی ہے، جس زبان میں میں شاعری کرتا ہوں، اس کی وقعت نہیں اور اختر مینگل کی زبان کوئی سمجھتا نہیں۔ً
جب عارف علوی اردو بھی نہ سمجھ سکے
گزشتہ ماہ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) کے تربت سے واحد ایم این اے عیسٰی نوری نے جب قومی اسمبلی میں بلوچی زبان میں تقریر کرنا چاہی تو تحریک انصاف کے عارف علوی نے؛ جو اس وقت اسپیکر کے فرائض انجام دے رہے تھے؛ انہیں بلوچی میں خطاب کرنے کی اجازت نہیں دی، جس کے بعد نوری صاحب نے ایسی فصیح و بلیغ اردو بیان فرمائی کے علوی صاحب بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ؛
لگتا نہیں کہ اردو آپ کی مادری زبان نہیں ہے
تین سردار
فوجی آمریتوں کا سنگ بنیاد رکھنے والے ایوب خان نے بلوچستان کیلئے ایک سدا بہار سیاسی کلیہ دریافت کیا؛ تین سردار ۔۔۔ مری، مینگل، بگٹی؛ جو پروپیگنڈہ کیلئے پاکستان کے ہر سربراہ مملکت، چہ آمر و چہ جمہوریت پسند، سب ہی کے برابر کام آیا۔
ہر فرد کو بلوچستان کا جو عمومی عکس نظر آتا ہے؛ وہ زندگی کی رونقوں سے محروم بے آب و گیاہ ہے۔ پس منظر میں جاگیردارانہ رعب و داب لئے سینکڑوں سردار جھلکیاں دکھاتے ہیں۔ لسبیلہ میں جام و بھوتانی، سراوان میں رئیسانی، جھالاوان میں زہری، جعفرآباد میں جمالی .. غرضیکہ چھوٹے بڑے، انگشت برابر یا فیل حجم بے شمار سردار نظر آتے ہیں۔ جو کہیں سرکار کی پشت پر ہیں تو کہیں ان کی پشت پر سرکار نظر آتی ہے۔ بلوچستان میں سردار و سرکار میں بال برابر فرق نہیں۔
تین سردار ہیں جو سرکش بھی ہیں اور فرمانبردار بھی نہیں۔ ان تین سرداروں نے کیا شرارت کی؟ جو معتوب ٹھہرے؛ مشکوک قرار پائے۔
نواب اکبر بگٹی جاں سے گئے۔ نواب خیر بخش مری کو اپنے بیٹے نوابزادہ بالاچ مری و سردار عطاءاللہ مینگل کو اسد اللہ مینگل سے محروم ہونا پڑا۔
بلوچستان کے سینئر صحافی انور ساجدی سابق وزیراعلٰی بلوچستان تاج محمد جمالی کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں؛
ہم جب اسلام آباد میں بیوروکریسی سے میٹنگ کرنے جاتے ہیں تو ہمارے پاس سادہ کاغذ ہوتا ہے جو پہلے سے ٹیبل پر موجود ہوتا ہے جبکہ بیوروکریٹس کے پاس بڑی بڑی فائلیں ہوتی ہیں جو جعلی اعداد و شمار سے بھری ہوتی ہیں اس لئے ہم وہاں کوئی بات کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اس لئے عام طور پر ہم یہ کہہ کر بھیک مانگتے ہیں اگر آپ بلوچستان کو کچھ دیں گے تو اللہ آپ کا بھلا کرے گا اور اگر نہیں دیں گے تو اللہ آپ کا زیادہ بھلا کرے گا۔
ان (تاج محمد جمالی) کے مطابق ان بیوروکریٹس کا علاج تو نواب اکبر بگٹی جانتے تھے کیونکہ وہ ہماری طرح خالی ہاتھ نہیں ہوتے تھے اس لئے وہ ان کےسامنے بھیگی بلی بنے رہتے تھے۔
تاج محمد جمالی کی یہ بات اپنی مثال آپ ہے کہ جب تک اکبر خان، خیر بخش اور عطاء اللہ زندہ ہیں ہماری دال دلیا بھی چلتے رہیں گے اس کے بعد سب کے چولہے بجھ جائیں گے۔ (نواب اکبر بگٹی، قتل کیوں کیا گیا؟ / انور ساجدی، ص 94)
عینک کی عقب سے جھانکتی دونوں آنکھوں کو ناک کی سیدھ پر رکھ کر دیکھنے والے احسان شاہ ایک زیرک سیاستدان ہیں؛
مزاحمت کا فائدہ ہمیں (پارلیمنٹرین کو) زیادہ پہنچا، بلوچستان کی شورش کے باعث ہم توجہ کے مستحق ٹھہرے، سابق وزیر خزانہ احسان شاہ نے ایک نجی گفتگو میں مجھے بتایا۔
برطانوی دور میں بلوچستان انگریزی عملداری میں شامل اور ان کی حاکمیت کے زیر سایہ تھا۔ بلوچ معاشرے پر اس حاکمیت کے دور رس اثرات یوں مرتب ہوئے کہ انیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں جب انگریز بلوچستان میں وارد ہوئے اُس زمانے میں بلوچ معاشرے میں سماجی سلسلہ مراتب اس قدر منظم و موروثی نہیں تھے۔
خان، سردار کی سردارانہ حیثیت موروثی کے بجائے تاحال قبائلی تنظیم جرگہ کی جانب سے ایک اعزاز شمار ہوتا تھا۔ اس سلسلہ مراتب میں پہلی دور رس اور گہری دراڑ اسی زمانے میں پڑی جب سے سردار و نوابین ہمیشہ کیلئے اشرافیہ و امراء ٹھہرے۔
بلوچ طبعاً آزاد منش ہیں۔ کم و بیش ایک سو چھ سال کا عرصہ انیسویں صدی کی چوتھی دہائی 1842 سے 20 ویں صدی کی چوتھی دہائی 1948 تک بلوچستان میں بلوچ قوم کے گرد گھومنے والی قوم پرستانہ سیاست کا ایک ایسا دور چلا جسے بلوچ نیشنلزم کا دوسرا فیز شمار کیا جاسکتا ہے۔ اسی زمانے میں انگریزوں نے بلوچوں کو برٹش فوج میں بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ بلوچ بھرتی بھی ہوئے لیکن چونکہ وہ طبعاً آزاد منش ہیں، پیشہ سپاہ گری کی پابندیاں ان کو نوکر منش بنانے میں ناکام رہیں۔
آئیڈیا آف پاکستان نامی کتاب کے مصنف امریکی دانشور اسٹیفن فلپ کوہن اپنی کتاب پاکستان آرمی میں لکھتے ہیں کہ؛
جب انگریزوں نے سندھ فتح کیا تو بلوچوں کو فوج میں بھرتی کیا اور ان کو خلیج فارس، چین، افغانستان، جاپان، ایبی سینیا اور خود ہندوستان میں رکھا پھر انہیں نکال دیا گیا اور ان کی جگہ پٹھانوں اور پنجابی مسلمانوں کو بھرتی کیا گیا۔
پنجابیوں میں نظم و ضبط کی پابندی زیادہ تھی، بھرتی بھی آسان ہوتی تھی اور خانہ بدوش بلوچوں میں بغیر اطلاغ ڈی کیپ کرنے کی پریشان کن عادت تھی۔ اسٹیفن پی کوہن، پاکستان آرمی ص 42)
درحقیقت یہ وہ وقت تھا جب بڑی طاقتوں سے میل ملاپ کے راستے کھلے تھے۔ بلوچوں نے یہ موقع گنوادیا۔ غالباً اس موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے فرمانبرداری، غیر تحریر شدہ شرط تھی۔ بلوچوں کی طبعی آزاد منشی اپنے وقت اور آئندہ کی طاقتوں کیساتھ راہ و رسم میں ان کے آڑے آگئی جبکہ دوسری جنگ عظیم کے موقع پر مری بلوچوں نے برطانوی فوج میں بھرتیوں کی بھرپور مزاحمت کی۔ نوآبادیاتی فوج کیلئے لڑنے کے بجائے اپنی خانہ بدوشانہ زندگی میں خوش رہے۔
بلوچ سیاست کا خام نہیں، پختہ خیال یہی ہے کہ بلوچوں کی قسمت کی خرابی کا آغاز 1948 کو ہوا جب بلوچستان کو بزور پاکستان سے الحاق پر مجبور کیا گیا۔ بلوچ سیاست میں پاکستان کیساتھ الحاق کو خرابیوں کی ماں تصور کیا جاتا ہے۔ جب بلوچستان کیخلاف پہلا فوجی آپریشن کیا گیا تاآنکہ یہ سلسلہ پانچویں مرتبہ فوج کشی تک جاری ہے۔
پاکستان بننے کے بعد تین سردار منظر عام پر آتے ہیں۔ سب سے بڑے قبیلے مری کا نواب، خیر بخش مری، دوسرے بڑے قبیلے بگٹی کا نواب، اکبر بگٹی اور مینگل قبیلے کا سردار، عطاءاللہ مینگل۔
جاری ہے
Source
سیاسی اصطلاح نیشنلزم اور زبانوں کی گرامر میں کچھ زیادہ فرق بھی نہیں۔ گرامر کی رو سے اگر نیشن آبجیکٹ ہے، تو جدوجہد یا اسٹرگل ورب کی جگہ سنبھال رہی ہے اور نیشلزم کا نظریہ سبجیکٹ قرار پائے گا۔ یعنی آبجیکٹ،ورب، سبجیکٹ۔ یکساں قاعدہ ہے۔
بلوچی ادب سے تعلق رکھنے والے، ایک نچلے درجے کے سرکاری ملازم نے نیشنلزم کی مختصر سی توجیح یوں پیش کی؛
اختر مینگل میرا جیسا مظلوم ہی ہے، جس زبان میں میں شاعری کرتا ہوں، اس کی وقعت نہیں اور اختر مینگل کی زبان کوئی سمجھتا نہیں۔ً
جب عارف علوی اردو بھی نہ سمجھ سکے
گزشتہ ماہ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) کے تربت سے واحد ایم این اے عیسٰی نوری نے جب قومی اسمبلی میں بلوچی زبان میں تقریر کرنا چاہی تو تحریک انصاف کے عارف علوی نے؛ جو اس وقت اسپیکر کے فرائض انجام دے رہے تھے؛ انہیں بلوچی میں خطاب کرنے کی اجازت نہیں دی، جس کے بعد نوری صاحب نے ایسی فصیح و بلیغ اردو بیان فرمائی کے علوی صاحب بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ؛
لگتا نہیں کہ اردو آپ کی مادری زبان نہیں ہے
تین سردار
فوجی آمریتوں کا سنگ بنیاد رکھنے والے ایوب خان نے بلوچستان کیلئے ایک سدا بہار سیاسی کلیہ دریافت کیا؛ تین سردار ۔۔۔ مری، مینگل، بگٹی؛ جو پروپیگنڈہ کیلئے پاکستان کے ہر سربراہ مملکت، چہ آمر و چہ جمہوریت پسند، سب ہی کے برابر کام آیا۔
ہر فرد کو بلوچستان کا جو عمومی عکس نظر آتا ہے؛ وہ زندگی کی رونقوں سے محروم بے آب و گیاہ ہے۔ پس منظر میں جاگیردارانہ رعب و داب لئے سینکڑوں سردار جھلکیاں دکھاتے ہیں۔ لسبیلہ میں جام و بھوتانی، سراوان میں رئیسانی، جھالاوان میں زہری، جعفرآباد میں جمالی .. غرضیکہ چھوٹے بڑے، انگشت برابر یا فیل حجم بے شمار سردار نظر آتے ہیں۔ جو کہیں سرکار کی پشت پر ہیں تو کہیں ان کی پشت پر سرکار نظر آتی ہے۔ بلوچستان میں سردار و سرکار میں بال برابر فرق نہیں۔
تین سردار ہیں جو سرکش بھی ہیں اور فرمانبردار بھی نہیں۔ ان تین سرداروں نے کیا شرارت کی؟ جو معتوب ٹھہرے؛ مشکوک قرار پائے۔
نواب اکبر بگٹی جاں سے گئے۔ نواب خیر بخش مری کو اپنے بیٹے نوابزادہ بالاچ مری و سردار عطاءاللہ مینگل کو اسد اللہ مینگل سے محروم ہونا پڑا۔
بلوچستان کے سینئر صحافی انور ساجدی سابق وزیراعلٰی بلوچستان تاج محمد جمالی کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں؛
ہم جب اسلام آباد میں بیوروکریسی سے میٹنگ کرنے جاتے ہیں تو ہمارے پاس سادہ کاغذ ہوتا ہے جو پہلے سے ٹیبل پر موجود ہوتا ہے جبکہ بیوروکریٹس کے پاس بڑی بڑی فائلیں ہوتی ہیں جو جعلی اعداد و شمار سے بھری ہوتی ہیں اس لئے ہم وہاں کوئی بات کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اس لئے عام طور پر ہم یہ کہہ کر بھیک مانگتے ہیں اگر آپ بلوچستان کو کچھ دیں گے تو اللہ آپ کا بھلا کرے گا اور اگر نہیں دیں گے تو اللہ آپ کا زیادہ بھلا کرے گا۔
ان (تاج محمد جمالی) کے مطابق ان بیوروکریٹس کا علاج تو نواب اکبر بگٹی جانتے تھے کیونکہ وہ ہماری طرح خالی ہاتھ نہیں ہوتے تھے اس لئے وہ ان کےسامنے بھیگی بلی بنے رہتے تھے۔
تاج محمد جمالی کی یہ بات اپنی مثال آپ ہے کہ جب تک اکبر خان، خیر بخش اور عطاء اللہ زندہ ہیں ہماری دال دلیا بھی چلتے رہیں گے اس کے بعد سب کے چولہے بجھ جائیں گے۔ (نواب اکبر بگٹی، قتل کیوں کیا گیا؟ / انور ساجدی، ص 94)
عینک کی عقب سے جھانکتی دونوں آنکھوں کو ناک کی سیدھ پر رکھ کر دیکھنے والے احسان شاہ ایک زیرک سیاستدان ہیں؛
مزاحمت کا فائدہ ہمیں (پارلیمنٹرین کو) زیادہ پہنچا، بلوچستان کی شورش کے باعث ہم توجہ کے مستحق ٹھہرے، سابق وزیر خزانہ احسان شاہ نے ایک نجی گفتگو میں مجھے بتایا۔
برطانوی دور میں بلوچستان انگریزی عملداری میں شامل اور ان کی حاکمیت کے زیر سایہ تھا۔ بلوچ معاشرے پر اس حاکمیت کے دور رس اثرات یوں مرتب ہوئے کہ انیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں جب انگریز بلوچستان میں وارد ہوئے اُس زمانے میں بلوچ معاشرے میں سماجی سلسلہ مراتب اس قدر منظم و موروثی نہیں تھے۔
خان، سردار کی سردارانہ حیثیت موروثی کے بجائے تاحال قبائلی تنظیم جرگہ کی جانب سے ایک اعزاز شمار ہوتا تھا۔ اس سلسلہ مراتب میں پہلی دور رس اور گہری دراڑ اسی زمانے میں پڑی جب سے سردار و نوابین ہمیشہ کیلئے اشرافیہ و امراء ٹھہرے۔
بلوچ طبعاً آزاد منش ہیں۔ کم و بیش ایک سو چھ سال کا عرصہ انیسویں صدی کی چوتھی دہائی 1842 سے 20 ویں صدی کی چوتھی دہائی 1948 تک بلوچستان میں بلوچ قوم کے گرد گھومنے والی قوم پرستانہ سیاست کا ایک ایسا دور چلا جسے بلوچ نیشنلزم کا دوسرا فیز شمار کیا جاسکتا ہے۔ اسی زمانے میں انگریزوں نے بلوچوں کو برٹش فوج میں بھرتی کرنے کی کوشش کی۔ بلوچ بھرتی بھی ہوئے لیکن چونکہ وہ طبعاً آزاد منش ہیں، پیشہ سپاہ گری کی پابندیاں ان کو نوکر منش بنانے میں ناکام رہیں۔
آئیڈیا آف پاکستان نامی کتاب کے مصنف امریکی دانشور اسٹیفن فلپ کوہن اپنی کتاب پاکستان آرمی میں لکھتے ہیں کہ؛
جب انگریزوں نے سندھ فتح کیا تو بلوچوں کو فوج میں بھرتی کیا اور ان کو خلیج فارس، چین، افغانستان، جاپان، ایبی سینیا اور خود ہندوستان میں رکھا پھر انہیں نکال دیا گیا اور ان کی جگہ پٹھانوں اور پنجابی مسلمانوں کو بھرتی کیا گیا۔
پنجابیوں میں نظم و ضبط کی پابندی زیادہ تھی، بھرتی بھی آسان ہوتی تھی اور خانہ بدوش بلوچوں میں بغیر اطلاغ ڈی کیپ کرنے کی پریشان کن عادت تھی۔ اسٹیفن پی کوہن، پاکستان آرمی ص 42)
درحقیقت یہ وہ وقت تھا جب بڑی طاقتوں سے میل ملاپ کے راستے کھلے تھے۔ بلوچوں نے یہ موقع گنوادیا۔ غالباً اس موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے فرمانبرداری، غیر تحریر شدہ شرط تھی۔ بلوچوں کی طبعی آزاد منشی اپنے وقت اور آئندہ کی طاقتوں کیساتھ راہ و رسم میں ان کے آڑے آگئی جبکہ دوسری جنگ عظیم کے موقع پر مری بلوچوں نے برطانوی فوج میں بھرتیوں کی بھرپور مزاحمت کی۔ نوآبادیاتی فوج کیلئے لڑنے کے بجائے اپنی خانہ بدوشانہ زندگی میں خوش رہے۔
بلوچ سیاست کا خام نہیں، پختہ خیال یہی ہے کہ بلوچوں کی قسمت کی خرابی کا آغاز 1948 کو ہوا جب بلوچستان کو بزور پاکستان سے الحاق پر مجبور کیا گیا۔ بلوچ سیاست میں پاکستان کیساتھ الحاق کو خرابیوں کی ماں تصور کیا جاتا ہے۔ جب بلوچستان کیخلاف پہلا فوجی آپریشن کیا گیا تاآنکہ یہ سلسلہ پانچویں مرتبہ فوج کشی تک جاری ہے۔
پاکستان بننے کے بعد تین سردار منظر عام پر آتے ہیں۔ سب سے بڑے قبیلے مری کا نواب، خیر بخش مری، دوسرے بڑے قبیلے بگٹی کا نواب، اکبر بگٹی اور مینگل قبیلے کا سردار، عطاءاللہ مینگل۔
جاری ہے
Source
Last edited by a moderator: