Haris Abbasi
Minister (2k+ posts)
بس بہت ہوگیا
کہتے ہیں کبھی جوش میں ہوش نہیں کھو بیٹھنا چاہیے .مگر اس محاورے کا اطلاق ایک طبقے پر نہیں ہوتا کیونکہ خدا نے انھیں ہوش سے نوازا ہی نہیں .چلیں پہلے کل پیش آنے واقعہ کی تفصیل میں جاتے ہیں .ایک مشال نامی نوجوان اپنے ہوسٹل میں بیٹھا تھا کہ عبدل ولی خان یونیورسٹی میں ہر جگہ یہ بات پھیلنا شروع ہوگئی کہ مشال خان نے اسلام کے حوالے سے کوئی گستاخی کی ہے .جس پر تقریبا ١٠٠ کے لگ بھگ نوجوانوں کا گروہ ڈنڈے اٹھائی مشال خان کے کمرے کے باہر پہنچ گیا .عینی شاہدین کے مطابق پہلے مشال خان کو انہوں نے کہا کہ قرانی آیات پڑھو .مشال خان کی طرف سے قرانی آیات پڑھنے کے باوجود اسے ہوسٹل کی دوسری منزل سے نیچے پھینکا گیا .
مشال خان کے ایک دوست سید رخسار علی کے مطابق جب وہ زخمی حالت میں تھا تو اس نے مجھے کہا ہے کہ مجھ سے زیادہ حضرت محمّد کا کوئی ماننے والا نہیں .میں نے کوئی گستاخی نہیں کی .پلیز مجھے ہسپتال لے جاؤ ...مگر یہ نوجوان وہیں پڑا رہا .جس کو دل چاہا سر پر ڈنڈا مار دیا .گملا سر پر مار دیا .برہنہ کر دیا .حتاکہ لاش کے اپر چھلانگیں تک ماری گئیں .پولیس بھی جائے وقوع پر موجود تھی مگر شر پسندوں کا ہجوم ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا .میں نے اپنی زندگی میں کسی کو اس طرح تشدد کرتے نہیں دیکھا .اچھا خاصا وقت تشدد کرنے کے بعد مشتعل ہجوم کی جانب سے لاش جلانی چاہی تو پولیس نے لاش اپنی تحویل میں لے لی .سب سے تکلیف دہ بات یہ کہ اس موقع پر کے پی کے پولیس کے اہلکار بے بس کھڑے تھے .میرے خیال سے شاید اس "ثواب " کے عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں بننا چاہتے تھے .یہ واقعہ شام کو ہوا .میں نے رات کو فیس بک میں مشال خان کی آئی ڈی نکالی اور اس کے دوستوں کی پوسٹس پڑھیں تو صورتحال یکسر مختلف نظر آئی .اس کے تمام دوستوں کا کہنا تھا کہ مشال خان حضور پاک سے پیار کرتا تھا
اور وہ گستاخی کر ہی نہیں سکتا .ایک دوست نے بات کچھ تفصیل سے بتائی .مشال خان نے آج تک اسلام کے حوالے سے کوئی متنازہ بات نہیں بولی مگر اس کا ایک ہی گناہ تھا کہ وہ جمعہ کی نماز نہیں پڑھتا تھا . جہاں کئی مشال کے دوستوں کی پوسٹ پڑھیں سب بلکل یقین کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ مشال ایسا نہیں کرسکتا
اس دوران ایک پیج میں انتہائی بیوقوفانہ کمینٹ پڑھا .کمینٹ لکھنے والے کا تعلق جہلم سے تھا .موصوف فرما رہے تھے کہ "اس نوجوان کے خلاف یونیورسٹی کے طالبہ احتجاج بھی کر چکے ہیں .جب حکومت نے کاروائی نہ کی تو لوگوں کو کھڑا ہونا پڑا".اس دوران ان جیسے اور لوگ اس عمل کو درست ثابت کرنے کے لئے طرح طرح کی کہانیاں جڑ رہے تھے .آج صبح کے پی کے پولیس کا بیان پڑھا کہ نوجوان کے حوالے سے کوئی گستاخی کا ثبوت سامنے نہیں آیا .اب اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے .میں اپنی رائے دینا چاہتا ہوں .اگر مشال خان نے کوئی گستاخی کی تھی تو بہتر تھا
عدالت میں اس کے خلاف کیس کیا جاتا .جسٹس شوکت عزیز صدیقی جیسے جج عدالتوں میں بہت موجود ہیں اور کیس تیزی سے چلتا .دوسری بات کے پی کے پولیس کی موجودگی میں یہ سب کچھ ہونا انتہائی تشویش ناک اور حیران کن ہے .دوسری بات کیا ہم انتہائی اعلیٰ فاضل ہیں کہ ایک چوراہے میں کھڑے ہوکر گستاخ رسول ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کریں گے .ہماری اوقات ہے کیا .اپنے ذاتی فائدے کے لئے ہم جھوٹی قسمیں تک کھا لیتے ہیں اور اٹھ کھڑے ہوئے گستاخی کا فیصلہ کرنے .اگر عدالتیں ہم نے ہی لگانی ہیں ، چور،ڈکیت ،نوسر بار اور گستاخ رسول کا فیصلہ ہم نے ہی کرنا ہے تو بند کردو ان عدالتوں کو .اور انصاف کرنے کی طاقت گلی محلے کے چپراسیوں کو دے دو .جن کا جب دل چاہے اپنی جنونیت کے بلبوتے کسی کو بھی قتل کردیں .گستاخی کرنا یا نہ کرنا الگ معاملے ہے مگر فیصلہ گالی محلوں میں ہونا یہ انتہائی تشویشناک بات ہے .انتہائی سنجیدہ معملات کے فیصلے گلی محلوں میں ہو ہی نہیں سکتے .
ہمارے علما کو بھی چاہیے کہ عوام کو تلقین کریں کہ ایسے مقدمات کو عدالتوں میں لے کر جایا جائے نہ کہ خود قاضی بنا جائے .میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب وہ موڑ آگیا ہے کہ ہمیں گستاخی جیسے سنگین مقدمات کے حوالے سے خصوصی عدالتیں قائم کرنی ہوں گی .جن کا کام جلد سے جلد ایسے کیسز حال کرنا ہو .میں تحریک انصاف کے ورکر ہونے کی حیثیت سے خان صاحب سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ اس معاملے کو سنجیدہ طریقے سے لیں اور اسے اپنی پہلی پریوریٹی میں رکھیں .ورنہ کل کوئی بھی گستاخی کی افواہ پر قتل ہوجائے گا .ہم سب کو معلوم ہے کہ یہاں آدھی سے زیادہ عوام ڈنگر اور جاہل ہے
وہ ثبوتوں کو نہیں دیکھتے .انکی آنکھوں میں شارٹ کاٹ کا راستہ ہوتا ہے .بس کوشش ہوتی ہے کسی طرح کوئی گستاخ ملے اور ہم اسے مار کر جنت کا ٹکٹ کٹالیں .گستاخی جیسے سنگین مقدمات کو سننے کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں .تاکہ ان کیسز کو جلد سے جلد سنا جائے ورنہ پھر آپ ،یا میں یا پھر ہماری نسل میں ہی کوئی ناحق قتل ہوجائے گا اور ہم ایسے ہی بے بس ہوں گے جیسے مشال کے ماں باپ ہیں ....بس بہت ہوگیا .

کہتے ہیں کبھی جوش میں ہوش نہیں کھو بیٹھنا چاہیے .مگر اس محاورے کا اطلاق ایک طبقے پر نہیں ہوتا کیونکہ خدا نے انھیں ہوش سے نوازا ہی نہیں .چلیں پہلے کل پیش آنے واقعہ کی تفصیل میں جاتے ہیں .ایک مشال نامی نوجوان اپنے ہوسٹل میں بیٹھا تھا کہ عبدل ولی خان یونیورسٹی میں ہر جگہ یہ بات پھیلنا شروع ہوگئی کہ مشال خان نے اسلام کے حوالے سے کوئی گستاخی کی ہے .جس پر تقریبا ١٠٠ کے لگ بھگ نوجوانوں کا گروہ ڈنڈے اٹھائی مشال خان کے کمرے کے باہر پہنچ گیا .عینی شاہدین کے مطابق پہلے مشال خان کو انہوں نے کہا کہ قرانی آیات پڑھو .مشال خان کی طرف سے قرانی آیات پڑھنے کے باوجود اسے ہوسٹل کی دوسری منزل سے نیچے پھینکا گیا .
مشال خان کے ایک دوست سید رخسار علی کے مطابق جب وہ زخمی حالت میں تھا تو اس نے مجھے کہا ہے کہ مجھ سے زیادہ حضرت محمّد کا کوئی ماننے والا نہیں .میں نے کوئی گستاخی نہیں کی .پلیز مجھے ہسپتال لے جاؤ ...مگر یہ نوجوان وہیں پڑا رہا .جس کو دل چاہا سر پر ڈنڈا مار دیا .گملا سر پر مار دیا .برہنہ کر دیا .حتاکہ لاش کے اپر چھلانگیں تک ماری گئیں .پولیس بھی جائے وقوع پر موجود تھی مگر شر پسندوں کا ہجوم ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا .میں نے اپنی زندگی میں کسی کو اس طرح تشدد کرتے نہیں دیکھا .اچھا خاصا وقت تشدد کرنے کے بعد مشتعل ہجوم کی جانب سے لاش جلانی چاہی تو پولیس نے لاش اپنی تحویل میں لے لی .سب سے تکلیف دہ بات یہ کہ اس موقع پر کے پی کے پولیس کے اہلکار بے بس کھڑے تھے .میرے خیال سے شاید اس "ثواب " کے عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں بننا چاہتے تھے .یہ واقعہ شام کو ہوا .میں نے رات کو فیس بک میں مشال خان کی آئی ڈی نکالی اور اس کے دوستوں کی پوسٹس پڑھیں تو صورتحال یکسر مختلف نظر آئی .اس کے تمام دوستوں کا کہنا تھا کہ مشال خان حضور پاک سے پیار کرتا تھا
اور وہ گستاخی کر ہی نہیں سکتا .ایک دوست نے بات کچھ تفصیل سے بتائی .مشال خان نے آج تک اسلام کے حوالے سے کوئی متنازہ بات نہیں بولی مگر اس کا ایک ہی گناہ تھا کہ وہ جمعہ کی نماز نہیں پڑھتا تھا . جہاں کئی مشال کے دوستوں کی پوسٹ پڑھیں سب بلکل یقین کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ مشال ایسا نہیں کرسکتا
اس دوران ایک پیج میں انتہائی بیوقوفانہ کمینٹ پڑھا .کمینٹ لکھنے والے کا تعلق جہلم سے تھا .موصوف فرما رہے تھے کہ "اس نوجوان کے خلاف یونیورسٹی کے طالبہ احتجاج بھی کر چکے ہیں .جب حکومت نے کاروائی نہ کی تو لوگوں کو کھڑا ہونا پڑا".اس دوران ان جیسے اور لوگ اس عمل کو درست ثابت کرنے کے لئے طرح طرح کی کہانیاں جڑ رہے تھے .آج صبح کے پی کے پولیس کا بیان پڑھا کہ نوجوان کے حوالے سے کوئی گستاخی کا ثبوت سامنے نہیں آیا .اب اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے .میں اپنی رائے دینا چاہتا ہوں .اگر مشال خان نے کوئی گستاخی کی تھی تو بہتر تھا
عدالت میں اس کے خلاف کیس کیا جاتا .جسٹس شوکت عزیز صدیقی جیسے جج عدالتوں میں بہت موجود ہیں اور کیس تیزی سے چلتا .دوسری بات کے پی کے پولیس کی موجودگی میں یہ سب کچھ ہونا انتہائی تشویش ناک اور حیران کن ہے .دوسری بات کیا ہم انتہائی اعلیٰ فاضل ہیں کہ ایک چوراہے میں کھڑے ہوکر گستاخ رسول ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کریں گے .ہماری اوقات ہے کیا .اپنے ذاتی فائدے کے لئے ہم جھوٹی قسمیں تک کھا لیتے ہیں اور اٹھ کھڑے ہوئے گستاخی کا فیصلہ کرنے .اگر عدالتیں ہم نے ہی لگانی ہیں ، چور،ڈکیت ،نوسر بار اور گستاخ رسول کا فیصلہ ہم نے ہی کرنا ہے تو بند کردو ان عدالتوں کو .اور انصاف کرنے کی طاقت گلی محلے کے چپراسیوں کو دے دو .جن کا جب دل چاہے اپنی جنونیت کے بلبوتے کسی کو بھی قتل کردیں .گستاخی کرنا یا نہ کرنا الگ معاملے ہے مگر فیصلہ گالی محلوں میں ہونا یہ انتہائی تشویشناک بات ہے .انتہائی سنجیدہ معملات کے فیصلے گلی محلوں میں ہو ہی نہیں سکتے .
ہمارے علما کو بھی چاہیے کہ عوام کو تلقین کریں کہ ایسے مقدمات کو عدالتوں میں لے کر جایا جائے نہ کہ خود قاضی بنا جائے .میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب وہ موڑ آگیا ہے کہ ہمیں گستاخی جیسے سنگین مقدمات کے حوالے سے خصوصی عدالتیں قائم کرنی ہوں گی .جن کا کام جلد سے جلد ایسے کیسز حال کرنا ہو .میں تحریک انصاف کے ورکر ہونے کی حیثیت سے خان صاحب سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ اس معاملے کو سنجیدہ طریقے سے لیں اور اسے اپنی پہلی پریوریٹی میں رکھیں .ورنہ کل کوئی بھی گستاخی کی افواہ پر قتل ہوجائے گا .ہم سب کو معلوم ہے کہ یہاں آدھی سے زیادہ عوام ڈنگر اور جاہل ہے
وہ ثبوتوں کو نہیں دیکھتے .انکی آنکھوں میں شارٹ کاٹ کا راستہ ہوتا ہے .بس کوشش ہوتی ہے کسی طرح کوئی گستاخ ملے اور ہم اسے مار کر جنت کا ٹکٹ کٹالیں .گستاخی جیسے سنگین مقدمات کو سننے کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں .تاکہ ان کیسز کو جلد سے جلد سنا جائے ورنہ پھر آپ ،یا میں یا پھر ہماری نسل میں ہی کوئی ناحق قتل ہوجائے گا اور ہم ایسے ہی بے بس ہوں گے جیسے مشال کے ماں باپ ہیں ....بس بہت ہوگیا .

Last edited: