بریانی "شی" ہے، اللہ اس کی عزت محفوظ رکھے

London Bridge

Senator (1k+ posts)
_119724517_biryani.png

اسلام آباد میں ریستوران کے اشتہار میں بریانی کو ’خواتین سے تشبیہ‘ دینے پر بحث

ہر کمپنی کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی تشہیری مہم کو اس قدر پُرکشش بنائے کہ لوگ ان کے برانڈ کی جانب کھینچے چلے آئیں، ان کے کاروبار کو دن دگنی رات چوگنی ترقی حاصل ہو جائے۔ مگر لوگوں کے لیے یہ تب تک قابل قبول ہوتا ہے جب تک ان کے جذبات مجروح نہ ہوں۔
بعض اوقات ایک تشہیری مہم توجہ حاصل کرنے میں کامیاب تو ہو جاتی ہے لیکن اس کے کچھ پہلوؤں کو سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ یعنی ’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا۔‘
حال ہی میں ایسا ہی اسلام آباد کے ایک ریستوران کے ساتھ بھی ہوا جس نے اپنے ’بریانی فیسٹول‘ کی تشہیر کچھ ایسے انداز میں کی جیسے یہ کوئی کھانے کی چیز نہیں بلکہ کسی خاتون کی بات ہو رہی ہو۔
ریستوران کے بینر پر لکھے الفاظ کچھ یوں تھے: ’شی از ہاٹ، شی از سپائسی اینڈ شی از ارائیونگ‘ یعنی ’وہ پُرکشش ہے، وہ مصالحے دار ہے اور وہ آ رہی ہے۔‘
ان بینروں کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا جس کے بعد بعض خواتین نے اعتراض اٹھایا کہ اس میں بریانی کو خواتین سے تشبیہ دے کر انھیں ایک شے بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
مگر ریستوران نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہماری کوئی منفی سوچ نہیں تھی۔‘
_119724517_biryani.png

’بریانی بھی عورت ہو گئی اس ملک میں‘

سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے ’بریانی فیسٹیول‘ کی اس تشہیری مہم پر سوال اٹھائے ہیں اور کئی خواتین نے بریانی کو عورت سے ملانے پر غصے کا اظہار بھی کیا ہے۔
زارش نامی ایک صارف نے لکھا: ’بریانی بھی شی ہے آج پتہ چلا۔ بزنس کرنا آنا چاہیے بس ساتھ کچھ بھی لگا لو۔`
ایک صارف نے لکھا: ’اشتہاری مہم کا انداز چیک کریں۔ حد ہو گئی ہے۔‘
ایک اور صارف نے فیس بک پر لکھا: ’دنیا بھر میں یہ ہی مسئلہ ہے اور ہم اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ خواتین کو اشتہارات میں ایک شے کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی سوچا کہ ایک جوس کو بیچنے کے لیے کترینہ کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ پوری دنیا میں یہ ہی منافقت ہے اور خواتین کو اس کے خلاف بولنا چاہیے۔

_119737170_4b578293-1449-435c-ab78-7086475b6a23.jpg

_119724514_whatsappimage2021-08-03at9.56.30am.jpg

صحافی جویریہ صدیقی نے لکھا: ’بریانی بھی عورت ہو گئی اس ملک میں۔‘ جبکہ طیبہ فاروق کے مطابق ’بریانی شی ہے آج پتہ چلا۔ اللہ اس کی عزت محفوظ رکھے۔‘
ایک اور صارف نے لکھا کہ بریانی کو ’عورت بنا کر پیش کیا گیا تبھی تو سب بریانی کی تلاش کر رہے ہیں کہ کس چیز کا اشتہار ہے۔
’ورنہ کس نے پوچھنا تھا کون آ رہا ہے یا جا رہا ہے۔
‘​

’موٹر سائیکل کے اشتہار میں بھی خواتین کو میک اپ کرتے دکھایا جاتا ہے‘

ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی تشہیری مہم میں خواتین کو کوئی ’شے‘ بنا کر پیش کیا گیا ہو بلکہ ماضی میں بڑے بڑے برانڈ بھی ایسا کرتے رہے ہیں۔
15 برسوں سے ایڈورٹائزمنٹ کے شعبے سے وابستہ خضریٰ منیر کہتی ہیں کہ ایسے حربے اس لیے استعمال کیے جاتے ہیں کیونکہ کمپنیوں کو فوری شہرت چاہیے ہوتی ہے اور دنیا بھر میں بین الاقوامی سطح پر بھی ایسا ہوتا ہے۔
تاہم خضریٰ کے نزدیک یہ پدر شاہی نظام کا حصہ ہے کہ کسی کھانے کی چیز یا شے کو عورت سے منسوب کیا جائے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’عورت کو اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ عورت کو ایک شے سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ ہے کہ عورت کو نمائش میں بھی لگایا جا سکتا ہے اور آپ اس کے جسمانی خدوخال پر بھی بات کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’لوگ فیشن شو میں جاتے ہیں اور وہاں پر آدھے سے زیادہ لوگ کپڑوں کو نہیں بلکہ ماڈل کو دیکھنے آتے ہیں۔

SOURCE
 

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)
_119724517_biryani.png

اسلام آباد میں ریستوران کے اشتہار میں بریانی کو ’خواتین سے تشبیہ‘ دینے پر بحث

ہر کمپنی کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی تشہیری مہم کو اس قدر پُرکشش بنائے کہ لوگ ان کے برانڈ کی جانب کھینچے چلے آئیں، ان کے کاروبار کو دن دگنی رات چوگنی ترقی حاصل ہو جائے۔ مگر لوگوں کے لیے یہ تب تک قابل قبول ہوتا ہے جب تک ان کے جذبات مجروح نہ ہوں۔
بعض اوقات ایک تشہیری مہم توجہ حاصل کرنے میں کامیاب تو ہو جاتی ہے لیکن اس کے کچھ پہلوؤں کو سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ یعنی ’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا۔‘
حال ہی میں ایسا ہی اسلام آباد کے ایک ریستوران کے ساتھ بھی ہوا جس نے اپنے ’بریانی فیسٹول‘ کی تشہیر کچھ ایسے انداز میں کی جیسے یہ کوئی کھانے کی چیز نہیں بلکہ کسی خاتون کی بات ہو رہی ہو۔
ریستوران کے بینر پر لکھے الفاظ کچھ یوں تھے: ’شی از ہاٹ، شی از سپائسی اینڈ شی از ارائیونگ‘ یعنی ’وہ پُرکشش ہے، وہ مصالحے دار ہے اور وہ آ رہی ہے۔‘
ان بینروں کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا جس کے بعد بعض خواتین نے اعتراض اٹھایا کہ اس میں بریانی کو خواتین سے تشبیہ دے کر انھیں ایک شے بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
مگر ریستوران نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہماری کوئی منفی سوچ نہیں تھی۔‘
_119724517_biryani.png

’بریانی بھی عورت ہو گئی اس ملک میں‘

سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے ’بریانی فیسٹیول‘ کی اس تشہیری مہم پر سوال اٹھائے ہیں اور کئی خواتین نے بریانی کو عورت سے ملانے پر غصے کا اظہار بھی کیا ہے۔
زارش نامی ایک صارف نے لکھا: ’بریانی بھی شی ہے آج پتہ چلا۔ بزنس کرنا آنا چاہیے بس ساتھ کچھ بھی لگا لو۔`
ایک صارف نے لکھا: ’اشتہاری مہم کا انداز چیک کریں۔ حد ہو گئی ہے۔‘
ایک اور صارف نے فیس بک پر لکھا: ’دنیا بھر میں یہ ہی مسئلہ ہے اور ہم اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ خواتین کو اشتہارات میں ایک شے کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی سوچا کہ ایک جوس کو بیچنے کے لیے کترینہ کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ پوری دنیا میں یہ ہی منافقت ہے اور خواتین کو اس کے خلاف بولنا چاہیے۔

_119737170_4b578293-1449-435c-ab78-7086475b6a23.jpg

_119724514_whatsappimage2021-08-03at9.56.30am.jpg

صحافی جویریہ صدیقی نے لکھا: ’بریانی بھی عورت ہو گئی اس ملک میں۔‘ جبکہ طیبہ فاروق کے مطابق ’بریانی شی ہے آج پتہ چلا۔ اللہ اس کی عزت محفوظ رکھے۔‘
ایک اور صارف نے لکھا کہ بریانی کو ’عورت بنا کر پیش کیا گیا تبھی تو سب بریانی کی تلاش کر رہے ہیں کہ کس چیز کا اشتہار ہے۔
’ورنہ کس نے پوچھنا تھا کون آ رہا ہے یا جا رہا ہے۔
‘​

’موٹر سائیکل کے اشتہار میں بھی خواتین کو میک اپ کرتے دکھایا جاتا ہے‘

ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی تشہیری مہم میں خواتین کو کوئی ’شے‘ بنا کر پیش کیا گیا ہو بلکہ ماضی میں بڑے بڑے برانڈ بھی ایسا کرتے رہے ہیں۔
15 برسوں سے ایڈورٹائزمنٹ کے شعبے سے وابستہ خضریٰ منیر کہتی ہیں کہ ایسے حربے اس لیے استعمال کیے جاتے ہیں کیونکہ کمپنیوں کو فوری شہرت چاہیے ہوتی ہے اور دنیا بھر میں بین الاقوامی سطح پر بھی ایسا ہوتا ہے۔
تاہم خضریٰ کے نزدیک یہ پدر شاہی نظام کا حصہ ہے کہ کسی کھانے کی چیز یا شے کو عورت سے منسوب کیا جائے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’عورت کو اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ عورت کو ایک شے سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ ہے کہ عورت کو نمائش میں بھی لگایا جا سکتا ہے اور آپ اس کے جسمانی خدوخال پر بھی بات کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’لوگ فیشن شو میں جاتے ہیں اور وہاں پر آدھے سے زیادہ لوگ کپڑوں کو نہیں بلکہ ماڈل کو دیکھنے آتے ہیں۔

SOURCE
ہاہاہا..آجکل تو کسی بھی فیشن شو میں ماڈل نے کوئی کپڑے تو پہنے نہیں ہوتے تو لوگ
ماڈل کو ہی دیکھں گے کپڑوں کو نہیں.
 

Pakistan2017

Chief Minister (5k+ posts)
حیرت کی بات ہے جب انگریزی میں بکری، گاۓ، بھینس، یہاں تک ک کتیا کو شی که کر بولا جاتا ہے تب خواتین کیوں اعترض نہیں کرتی؟
 

rmunir

Minister (2k+ posts)
کیونکہ بریانی ہوتی ہے۔ اس لیئے شی ہے ۔
اگر بریانی ہوتا تو ہی ہوتی ؟؟؟؟
اب اگر یہ ریسٹورانٹ پلاؤ بنانے والے ہوتے تو یقینا "ہی" استعمال کرتے۔ویسے اشتہار انگلش میں ہے لہذہ عاصمہ شیرازی کی تھیوری کے مطابق آپ یہ اشتہار بنانے والوں کو جاہل نہیں کہ سکتے۔

:(​
 

Visionartist

Chief Minister (5k+ posts)
bohat si zabanon meyn dal chaval biryani kursi meyz ka bhi gender hota hey- lekin kuch nakamey log under the belt baat kehney sey nahiyn ruktey
 

ranaji

(50k+ posts) بابائے فورم
This is ridicules and not attractive at all ,
but offensive for ladies in our culture for Europe or Westren countries is ok because they Also ridicule and taunt Prophet Jesus peace be upon him
But not suitable for Pakistan
By ha ha
Allah or God is also called she in English ,
So this he and she is confusing
To better we consider Biryani a transgender