اسلام آباد میں ریستوران کے اشتہار میں بریانی کو ’خواتین سے تشبیہ‘ دینے پر بحث
ہر کمپنی کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی تشہیری مہم کو اس قدر پُرکشش بنائے کہ لوگ ان کے برانڈ کی جانب کھینچے چلے آئیں، ان کے کاروبار کو دن دگنی رات چوگنی ترقی حاصل ہو جائے۔ مگر لوگوں کے لیے یہ تب تک قابل قبول ہوتا ہے جب تک ان کے جذبات مجروح نہ ہوں۔
بعض اوقات ایک تشہیری مہم توجہ حاصل کرنے میں کامیاب تو ہو جاتی ہے لیکن اس کے کچھ پہلوؤں کو سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ یعنی ’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا۔‘
حال ہی میں ایسا ہی اسلام آباد کے ایک ریستوران کے ساتھ بھی ہوا جس نے اپنے ’بریانی فیسٹول‘ کی تشہیر کچھ ایسے انداز میں کی جیسے یہ کوئی کھانے کی چیز نہیں بلکہ کسی خاتون کی بات ہو رہی ہو۔
ریستوران کے بینر پر لکھے الفاظ کچھ یوں تھے: ’شی از ہاٹ، شی از سپائسی اینڈ شی از ارائیونگ‘ یعنی ’وہ پُرکشش ہے، وہ مصالحے دار ہے اور وہ آ رہی ہے۔‘
ان بینروں کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا جس کے بعد بعض خواتین نے اعتراض اٹھایا کہ اس میں بریانی کو خواتین سے تشبیہ دے کر انھیں ایک شے بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
مگر ریستوران نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہماری کوئی منفی سوچ نہیں تھی۔‘
بعض اوقات ایک تشہیری مہم توجہ حاصل کرنے میں کامیاب تو ہو جاتی ہے لیکن اس کے کچھ پہلوؤں کو سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ یعنی ’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا۔‘
حال ہی میں ایسا ہی اسلام آباد کے ایک ریستوران کے ساتھ بھی ہوا جس نے اپنے ’بریانی فیسٹول‘ کی تشہیر کچھ ایسے انداز میں کی جیسے یہ کوئی کھانے کی چیز نہیں بلکہ کسی خاتون کی بات ہو رہی ہو۔
ریستوران کے بینر پر لکھے الفاظ کچھ یوں تھے: ’شی از ہاٹ، شی از سپائسی اینڈ شی از ارائیونگ‘ یعنی ’وہ پُرکشش ہے، وہ مصالحے دار ہے اور وہ آ رہی ہے۔‘
ان بینروں کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا جس کے بعد بعض خواتین نے اعتراض اٹھایا کہ اس میں بریانی کو خواتین سے تشبیہ دے کر انھیں ایک شے بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
مگر ریستوران نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہماری کوئی منفی سوچ نہیں تھی۔‘
’بریانی بھی عورت ہو گئی اس ملک میں‘
سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے ’بریانی فیسٹیول‘ کی اس تشہیری مہم پر سوال اٹھائے ہیں اور کئی خواتین نے بریانی کو عورت سے ملانے پر غصے کا اظہار بھی کیا ہے۔
زارش نامی ایک صارف نے لکھا: ’بریانی بھی شی ہے آج پتہ چلا۔ بزنس کرنا آنا چاہیے بس ساتھ کچھ بھی لگا لو۔`
ایک صارف نے لکھا: ’اشتہاری مہم کا انداز چیک کریں۔ حد ہو گئی ہے۔‘
ایک اور صارف نے فیس بک پر لکھا: ’دنیا بھر میں یہ ہی مسئلہ ہے اور ہم اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ خواتین کو اشتہارات میں ایک شے کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی سوچا کہ ایک جوس کو بیچنے کے لیے کترینہ کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ پوری دنیا میں یہ ہی منافقت ہے اور خواتین کو اس کے خلاف بولنا چاہیے۔
صحافی جویریہ صدیقی نے لکھا: ’بریانی بھی عورت ہو گئی اس ملک میں۔‘ جبکہ طیبہ فاروق کے مطابق ’بریانی شی ہے آج پتہ چلا۔ اللہ اس کی عزت محفوظ رکھے۔‘
ایک اور صارف نے لکھا کہ بریانی کو ’عورت بنا کر پیش کیا گیا تبھی تو سب بریانی کی تلاش کر رہے ہیں کہ کس چیز کا اشتہار ہے۔
’ورنہ کس نے پوچھنا تھا کون آ رہا ہے یا جا رہا ہے۔‘
زارش نامی ایک صارف نے لکھا: ’بریانی بھی شی ہے آج پتہ چلا۔ بزنس کرنا آنا چاہیے بس ساتھ کچھ بھی لگا لو۔`
ایک صارف نے لکھا: ’اشتہاری مہم کا انداز چیک کریں۔ حد ہو گئی ہے۔‘
ایک اور صارف نے فیس بک پر لکھا: ’دنیا بھر میں یہ ہی مسئلہ ہے اور ہم اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ خواتین کو اشتہارات میں ایک شے کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی سوچا کہ ایک جوس کو بیچنے کے لیے کترینہ کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ پوری دنیا میں یہ ہی منافقت ہے اور خواتین کو اس کے خلاف بولنا چاہیے۔
صحافی جویریہ صدیقی نے لکھا: ’بریانی بھی عورت ہو گئی اس ملک میں۔‘ جبکہ طیبہ فاروق کے مطابق ’بریانی شی ہے آج پتہ چلا۔ اللہ اس کی عزت محفوظ رکھے۔‘
ایک اور صارف نے لکھا کہ بریانی کو ’عورت بنا کر پیش کیا گیا تبھی تو سب بریانی کی تلاش کر رہے ہیں کہ کس چیز کا اشتہار ہے۔
’ورنہ کس نے پوچھنا تھا کون آ رہا ہے یا جا رہا ہے۔‘
’موٹر سائیکل کے اشتہار میں بھی خواتین کو میک اپ کرتے دکھایا جاتا ہے‘
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی تشہیری مہم میں خواتین کو کوئی ’شے‘ بنا کر پیش کیا گیا ہو بلکہ ماضی میں بڑے بڑے برانڈ بھی ایسا کرتے رہے ہیں۔
15 برسوں سے ایڈورٹائزمنٹ کے شعبے سے وابستہ خضریٰ منیر کہتی ہیں کہ ایسے حربے اس لیے استعمال کیے جاتے ہیں کیونکہ کمپنیوں کو فوری شہرت چاہیے ہوتی ہے اور دنیا بھر میں بین الاقوامی سطح پر بھی ایسا ہوتا ہے۔
تاہم خضریٰ کے نزدیک یہ پدر شاہی نظام کا حصہ ہے کہ کسی کھانے کی چیز یا شے کو عورت سے منسوب کیا جائے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’عورت کو اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ عورت کو ایک شے سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ ہے کہ عورت کو نمائش میں بھی لگایا جا سکتا ہے اور آپ اس کے جسمانی خدوخال پر بھی بات کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’لوگ فیشن شو میں جاتے ہیں اور وہاں پر آدھے سے زیادہ لوگ کپڑوں کو نہیں بلکہ ماڈل کو دیکھنے آتے ہیں۔
SOURCE
15 برسوں سے ایڈورٹائزمنٹ کے شعبے سے وابستہ خضریٰ منیر کہتی ہیں کہ ایسے حربے اس لیے استعمال کیے جاتے ہیں کیونکہ کمپنیوں کو فوری شہرت چاہیے ہوتی ہے اور دنیا بھر میں بین الاقوامی سطح پر بھی ایسا ہوتا ہے۔
تاہم خضریٰ کے نزدیک یہ پدر شاہی نظام کا حصہ ہے کہ کسی کھانے کی چیز یا شے کو عورت سے منسوب کیا جائے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’عورت کو اس لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ عورت کو ایک شے سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ ہے کہ عورت کو نمائش میں بھی لگایا جا سکتا ہے اور آپ اس کے جسمانی خدوخال پر بھی بات کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’لوگ فیشن شو میں جاتے ہیں اور وہاں پر آدھے سے زیادہ لوگ کپڑوں کو نہیں بلکہ ماڈل کو دیکھنے آتے ہیں۔
SOURCE