ابابیل
Senator (1k+ posts)
برزخی زندگی اور اعادہ روح
سب سے پہلے تو اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ عذاب ِ قبر برحق ہے۔ قبر وبرزخ کے اندر سزاو جزاکا ہونادرست ہے، اللہ کے جو نیک بندے ہوتے ہیں، مرنے کے بعد قیامت سے پہلےان کی روحیں ان کے بدنوں میں لوٹا دی جاتی ہیں، انہیں راحت وآرام پہنچتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے نافرمان بندے ہوتے ہیں، ان کی روحیں، مرنے کے بعد قیامت سے پہلے ان کے بدنوں میں لوٹا دی جاتی ہیں اور ان کو سزا وعقاب ہوتا ہے۔ قبرو برزخ کے اس عذاب پر یا ثواب و جزا پر بہت سی آیات و احادیث دلالت کرتی ہیں۔
مثلاً: ” وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْأَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ “ کاش کہ آپ دیکھ لیں جب ظالم لوگ موت کے سکرات میں ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھوں کو پھیلانے والے ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ اب تم اپنی جانیں نکالو آج تمہیں رسوا کن عذاب دیا جائے گا۔یعنی جس دن بندے کی روح نکالی جارہی ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرمارہے ہیں کہ اسی دن ہی عذاب اس کو دیا جائے گا۔اور اسی دن قیامت نہیں قائم ہوئی بلکہ یہ قبروبرزخ والا عذاب ہے۔
عذاب قبر کہاں ہوتا ہے ؟
کچھ لوگ ایک اعتراض کرتے ہیں کہ بندہ ابھی فوت ہوا ہے، سامنے اس کی میت پڑی ہوئی ہے، اس کو اگلے دن دفنایا جائے گا، لیکن قرآن مجید فرقان حمید کی یہ آیت کہہ رہی ہے کہ جس دن روح نکلی، اس کے بعد اسی دن عذاب شروع ہوجاتا ہے۔ چاہے اس دن میت دفن کی جائے یا نہ ۔تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب ِ قبر تو ہوتا ہے لیکن اس دنیا والی قبر میں نہیں، یہ قبر وبرزخ کہیں آسمانوں میں ہے ، جہاں پر عذاب ہوتا ہے اور لوگوں کو راحت بھی پہنچائی جاتی ہے۔ یہ اعتراض کرنے کے بعد چند ایک دلائل ایسے بھی پیش کیے جاتے ہیں جن میں مرنے کے بعد جنت کی نعمتوں کا تذکرہ ملتا ہے۔مثلاً :اللہ رب العالمین شہداء کے بارہ میں فرماتے ہیں :” أَحْيَاءعِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ “ [آل عمران : 169] زندہ ہیں, اللہ کے پاس ان کو رزق دیا جاتا ہے۔نیز فرمایا: ” فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِوَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ “اللہ نے جو کچھ اپنے فضل سے دیا ہے یہ لوگ اس پر خوش بھی ہیں۔ ان کو خوشخبریاں بھی دی جاتی ہیں۔اسی طرح نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ شہداء احدکی روحیں سبز رنگ کے پرندوں میں ہیں، وہ جنت کے جو مرضی پھل چاہیں، کھائیں، خوشہ چینی کریں۔لہٰذا ثابت ہوا کہ اس قبر کے اندر عذاب اور سزا نہیں بلکہ عذاب کےلیے آسمانوں سے اوپر کوئی برزخ و قبر ہے، جہاں پر اس کو عذاب دیا جاتا ہے۔اور روح اس جسم کے اندر نہیں لوٹتی، بلکہ اس روح کو ایک نیا جسم دیا جاتا ہے۔ اعتراض کا جواب :اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ” وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ “ اس مرنے والے کے درمیان اور دنیا والوں کے درمیان آڑ اور پردہ ہے۔نیز فرمایا: ” أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ “ [البقرة : 154] یہ زندہ ہیں ,ان کی زندگی کا تمہیں شعور نہیں ہے۔یعنی یہ غیب کی باتیں ہیں، جن کے بارے میں ہمارا علم صرف اس قدر ہے جس قدر اللہ تعالیٰ نے یا رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتادیا ہے، ایک مؤمن بندے پر لازم ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے بتایا ہے، اس پر غیر مشروط ایمان لائے۔ اس کی سمجھ اور عقل میں کوئی بات آتی ہے ، پھر بھی مانے، اس کی عقل اور سمجھ میں کوئی بات نہیں آتی ، پھر بھی مانے۔ یہ ایمان لانے کا تقاضا ہے۔رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: شیطان انسان کے دماغ میں وسوسہ پیدا کرتا ہے، دل کے اندر خیال ڈالتا ہے ، فلاں کو کس نے پیدا کیا؟ فلاں کو کس نے پیدا کیا؟ فلاں کو کس نے پیداکیا؟ شیطان دماغ میں سوال کھڑا کرتا ہے ”من خلق الله“ تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ جب تم ایسا وسوسہ پاؤ تو سمجھ جاؤ کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ تمہیں اس کے شر سے، اس کے وسوسہ سے محفوظ رکھے اور کہو آمنت باللہ
[ صحيح مسلم كتاب الإيمان باب بيان الوسوسة من الإيمان (134)]
یہ ایمان کا بنیادی اصول اور قاعدہ ہے کہ اللہ رب العالمین کے فرامین اور امام الانبیاء جناب محمد مصطفیٰ ﷺ کے فرامین کو من وعن ، بلا چوں چرا، تسلیم کیا جائے ۔ سو اللہ رب العالمین نے جیسی خبر قرآن مجید میں دی ہے، نبیﷺ نے جیسی خبر حدیث میں دی ہے، ہماری عقل اس کو سمجھنے سے اگر کوتاہ ہے تو ہوتی رہے۔ہمارا کام ایمان لانا ہے۔ بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو انسان کی عقل سے بالاتر ہیں۔ انسان کی عقل چھوٹی سی اورمحدود سی۔ اور اللہ رب العالمین کا علم بڑا وسیع ہے، اللہ تعالیٰ کی کائنات بڑی وسیع ہے۔انسان کی عقل میں سما نہیں سکتی۔اب دیکھئے! یہ اعتراض کہ قبر میں تو اس کو دفنایا ہی نہیں گیا۔ اور منکرین ِ عذاب قبر ، جو کہتے ہیں کہ عذابِ قبر ہوتا ہی نہیں، وہ کہتے ہیں کہ کئی بندے ایسے ہیں جن کو قبرملتی ہی نہیں۔بم بلاسٹ ہوگیا، چیتھڑے بکھر گئے ۔کسی کو جانورکھا گئے، کسی کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔سمندروں میں بہا دیا گیا، اس کو تو قبر ملی ہی نہیں۔ تو پہلے یہ سمجھ لیں کہ اللہ رب العالمین کے ہاں قبر کیا ہے ؟
سب سے پہلے تو اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ عذاب ِ قبر برحق ہے۔ قبر وبرزخ کے اندر سزاو جزاکا ہونادرست ہے، اللہ کے جو نیک بندے ہوتے ہیں، مرنے کے بعد قیامت سے پہلےان کی روحیں ان کے بدنوں میں لوٹا دی جاتی ہیں، انہیں راحت وآرام پہنچتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے نافرمان بندے ہوتے ہیں، ان کی روحیں، مرنے کے بعد قیامت سے پہلے ان کے بدنوں میں لوٹا دی جاتی ہیں اور ان کو سزا وعقاب ہوتا ہے۔ قبرو برزخ کے اس عذاب پر یا ثواب و جزا پر بہت سی آیات و احادیث دلالت کرتی ہیں۔
مثلاً: ” وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْأَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ “ کاش کہ آپ دیکھ لیں جب ظالم لوگ موت کے سکرات میں ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھوں کو پھیلانے والے ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ اب تم اپنی جانیں نکالو آج تمہیں رسوا کن عذاب دیا جائے گا۔یعنی جس دن بندے کی روح نکالی جارہی ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرمارہے ہیں کہ اسی دن ہی عذاب اس کو دیا جائے گا۔اور اسی دن قیامت نہیں قائم ہوئی بلکہ یہ قبروبرزخ والا عذاب ہے۔
عذاب قبر کہاں ہوتا ہے ؟
کچھ لوگ ایک اعتراض کرتے ہیں کہ بندہ ابھی فوت ہوا ہے، سامنے اس کی میت پڑی ہوئی ہے، اس کو اگلے دن دفنایا جائے گا، لیکن قرآن مجید فرقان حمید کی یہ آیت کہہ رہی ہے کہ جس دن روح نکلی، اس کے بعد اسی دن عذاب شروع ہوجاتا ہے۔ چاہے اس دن میت دفن کی جائے یا نہ ۔تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب ِ قبر تو ہوتا ہے لیکن اس دنیا والی قبر میں نہیں، یہ قبر وبرزخ کہیں آسمانوں میں ہے ، جہاں پر عذاب ہوتا ہے اور لوگوں کو راحت بھی پہنچائی جاتی ہے۔ یہ اعتراض کرنے کے بعد چند ایک دلائل ایسے بھی پیش کیے جاتے ہیں جن میں مرنے کے بعد جنت کی نعمتوں کا تذکرہ ملتا ہے۔مثلاً :اللہ رب العالمین شہداء کے بارہ میں فرماتے ہیں :” أَحْيَاءعِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ “ [آل عمران : 169] زندہ ہیں, اللہ کے پاس ان کو رزق دیا جاتا ہے۔نیز فرمایا: ” فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِوَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ “اللہ نے جو کچھ اپنے فضل سے دیا ہے یہ لوگ اس پر خوش بھی ہیں۔ ان کو خوشخبریاں بھی دی جاتی ہیں۔اسی طرح نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ شہداء احدکی روحیں سبز رنگ کے پرندوں میں ہیں، وہ جنت کے جو مرضی پھل چاہیں، کھائیں، خوشہ چینی کریں۔لہٰذا ثابت ہوا کہ اس قبر کے اندر عذاب اور سزا نہیں بلکہ عذاب کےلیے آسمانوں سے اوپر کوئی برزخ و قبر ہے، جہاں پر اس کو عذاب دیا جاتا ہے۔اور روح اس جسم کے اندر نہیں لوٹتی، بلکہ اس روح کو ایک نیا جسم دیا جاتا ہے۔ اعتراض کا جواب :اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ” وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ “ اس مرنے والے کے درمیان اور دنیا والوں کے درمیان آڑ اور پردہ ہے۔نیز فرمایا: ” أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ “ [البقرة : 154] یہ زندہ ہیں ,ان کی زندگی کا تمہیں شعور نہیں ہے۔یعنی یہ غیب کی باتیں ہیں، جن کے بارے میں ہمارا علم صرف اس قدر ہے جس قدر اللہ تعالیٰ نے یا رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتادیا ہے، ایک مؤمن بندے پر لازم ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے بتایا ہے، اس پر غیر مشروط ایمان لائے۔ اس کی سمجھ اور عقل میں کوئی بات آتی ہے ، پھر بھی مانے، اس کی عقل اور سمجھ میں کوئی بات نہیں آتی ، پھر بھی مانے۔ یہ ایمان لانے کا تقاضا ہے۔رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: شیطان انسان کے دماغ میں وسوسہ پیدا کرتا ہے، دل کے اندر خیال ڈالتا ہے ، فلاں کو کس نے پیدا کیا؟ فلاں کو کس نے پیدا کیا؟ فلاں کو کس نے پیداکیا؟ شیطان دماغ میں سوال کھڑا کرتا ہے ”من خلق الله“ تو اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ جب تم ایسا وسوسہ پاؤ تو سمجھ جاؤ کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ تمہیں اس کے شر سے، اس کے وسوسہ سے محفوظ رکھے اور کہو آمنت باللہ
[ صحيح مسلم كتاب الإيمان باب بيان الوسوسة من الإيمان (134)]
یہ ایمان کا بنیادی اصول اور قاعدہ ہے کہ اللہ رب العالمین کے فرامین اور امام الانبیاء جناب محمد مصطفیٰ ﷺ کے فرامین کو من وعن ، بلا چوں چرا، تسلیم کیا جائے ۔ سو اللہ رب العالمین نے جیسی خبر قرآن مجید میں دی ہے، نبیﷺ نے جیسی خبر حدیث میں دی ہے، ہماری عقل اس کو سمجھنے سے اگر کوتاہ ہے تو ہوتی رہے۔ہمارا کام ایمان لانا ہے۔ بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو انسان کی عقل سے بالاتر ہیں۔ انسان کی عقل چھوٹی سی اورمحدود سی۔ اور اللہ رب العالمین کا علم بڑا وسیع ہے، اللہ تعالیٰ کی کائنات بڑی وسیع ہے۔انسان کی عقل میں سما نہیں سکتی۔اب دیکھئے! یہ اعتراض کہ قبر میں تو اس کو دفنایا ہی نہیں گیا۔ اور منکرین ِ عذاب قبر ، جو کہتے ہیں کہ عذابِ قبر ہوتا ہی نہیں، وہ کہتے ہیں کہ کئی بندے ایسے ہیں جن کو قبرملتی ہی نہیں۔بم بلاسٹ ہوگیا، چیتھڑے بکھر گئے ۔کسی کو جانورکھا گئے، کسی کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔سمندروں میں بہا دیا گیا، اس کو تو قبر ملی ہی نہیں۔ تو پہلے یہ سمجھ لیں کہ اللہ رب العالمین کے ہاں قبر کیا ہے ؟
قبر کیا ہے؟؟؟
اللہ رب العالمین نے قرآن مجید فرقان حمید میں وضاحت کی ہے: ” ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ [عبس : 21] “ اللہ رب العالمین نے انسان کو زندگی دی اور زندگی کے کچھ عرصہ بعد موت دی تو مرتے ہی اس کو قبر دی۔موت کس کو آئی ہے؟ انسان کو، جو انسان روح وجسم کا مجموعہ تھا۔جو زمین پر چلتا تھاتو یہ روح وجسم کا مجموعہ تھا! ” ثُمَّ أَمَاتَهُ “ اللہ نے جب تک چاہا اس کو زندگی بخشی، پھر کچھ عرصہ بعد اللہ نے اسے موت دی ” فَأَقْبَرَهُ [عبس : 21]“ پھر اسی روح وجسد کے مجموعے کو اللہ رب العالمین نےقبر عطا کردی۔عربی زبان کا اصول ہے”فا“ اور ”ثم“ان دونوں کا مطلب ہوتا ہے ”بعد، پھر“ ”ثم “ کا معنی بھی ”پھر “ اور ”فا“ کا معنی بھی ”پھر“ لیکن تھوڑا سا فرق ہے۔ ”ثم“ کے اندر لفظ زیادہ ہیں، اس کا معنی ذرا وسیع ہے۔ ”تھوڑی سی مہلت“ ’ثم‘ کا معنى ہوتا ہے کہ ’ثم‘ سے پہلے جو لفظ استعمال ہوا ہےاور بعد میں جو لفظ استعمال ہوا ہے ان دونوں کے درمیان کچھ وقفہ ہے ۔اور ’فا‘ کا معنی ہوتا ہے کہ ’فا‘ سے پہلے جولفظ استعمال ہوا ہے اور جو بعد میں استعمال ہوا ہے ان دونوں کے درمیان وقفہ نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں: ’ ثُمَّ ‘تھوڑے سے وقفے کے بعد’ أَمَاتَهُ ‘ اس کو موت دی۔’ فَ ‘ موت دینے کے فوراً بعد ’ أَقْبَرَهُ‘ اس کو قبر دے دی۔تو نتیجہ کیا نکلا کہ مرنے کے بعد بندے کا جسم اور روح جہاں پر بھی ہو، چاہے وہ چارپائی پر پڑا ہو، چاہے زمین کے نیچے دبا دیا گیا ہو، چاہے ریزہ ریزہ ہوگیا ہو، جل کر راکھ ہوجائے، وہ اس کی قبر ہے۔
مرنے کے بعد بندے کا جسم اور روح جہاں پر ہوگی ، وہ اس کےلیے قبر ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے: ثُمَّ أَمَاتَهُفَأَقْبَرَهُ [عبس : 21] مسعود الدین عثمانی اور اسکے پیروکار جس آسمانی برزخ وقبر کے دعویدار ہیں اس میں توانکے زعم کے مطابق صرف مرنے والے کی روح جاتی ہے جبکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ تونہیں کہا: ’فاقبر روحہ‘ اللہ نے اس کی روح کو قبر دی، ۔ بلکہ فرمایا ہے : فَأَقْبَرَهُ جس کو اللہ نے موت دی ہے اسی کو اللہ نے قبر دی ہے۔ موت روح وجسم کے مجموعہ ایک انسان کو ملی ہے ، تو قبر بھی اکیلی روح کو نہیں، اکیلے جسم کو نہیں کیونکہ اللہ نے ’فاقبرروحہ‘ ’فاقبر جسدہ‘نہیں فرمایا یعنی کہ اللہ نے اس کی روح کو قبر دی، یا اللہ نے اس کے جسم کو قبر دی۔بلکہ فرمایا ہے: ” ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ [عبس : 21] “ اللہ نے اس روح وجسم کے مجموعہ انسان کو موت دی اور پھر اسی روح وجسم کے مجموعہ کو قبر بھی عطا کی ہے۔ اسی ایک آیت سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ مرنے کے فوراً بعد بندے کا جسم اور روح جہاں پر ہوتی ہے وہ اس کےلیے قبر ہے۔ اور یہ بھی علم ہو گیا کہ مرنے کے بعد بندے کے جسم میں اس کی روح لوٹتی ہے ، کیونکہ مرنے کے بعد روح لوٹی ہے تو روح وجسم کے مجموعے کو قبر ملی ہے! اگر روح علیحدہ ہوتی، اور جسم علیحدہ ہوتا تو پھر ’فاقبر روحہ واقبر جسدہ‘ آنا چاہیے تھا، علیحدہ علیحدہ ہوتی بات۔لیکن ایسا نہیں ہے۔
مرنے کے بعد بندے کا جسم اور روح جہاں پر ہوگی ، وہ اس کےلیے قبر ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے: ثُمَّ أَمَاتَهُفَأَقْبَرَهُ [عبس : 21] مسعود الدین عثمانی اور اسکے پیروکار جس آسمانی برزخ وقبر کے دعویدار ہیں اس میں توانکے زعم کے مطابق صرف مرنے والے کی روح جاتی ہے جبکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ تونہیں کہا: ’فاقبر روحہ‘ اللہ نے اس کی روح کو قبر دی، ۔ بلکہ فرمایا ہے : فَأَقْبَرَهُ جس کو اللہ نے موت دی ہے اسی کو اللہ نے قبر دی ہے۔ موت روح وجسم کے مجموعہ ایک انسان کو ملی ہے ، تو قبر بھی اکیلی روح کو نہیں، اکیلے جسم کو نہیں کیونکہ اللہ نے ’فاقبرروحہ‘ ’فاقبر جسدہ‘نہیں فرمایا یعنی کہ اللہ نے اس کی روح کو قبر دی، یا اللہ نے اس کے جسم کو قبر دی۔بلکہ فرمایا ہے: ” ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ [عبس : 21] “ اللہ نے اس روح وجسم کے مجموعہ انسان کو موت دی اور پھر اسی روح وجسم کے مجموعہ کو قبر بھی عطا کی ہے۔ اسی ایک آیت سے یہ بھی پتہ چل گیا کہ مرنے کے فوراً بعد بندے کا جسم اور روح جہاں پر ہوتی ہے وہ اس کےلیے قبر ہے۔ اور یہ بھی علم ہو گیا کہ مرنے کے بعد بندے کے جسم میں اس کی روح لوٹتی ہے ، کیونکہ مرنے کے بعد روح لوٹی ہے تو روح وجسم کے مجموعے کو قبر ملی ہے! اگر روح علیحدہ ہوتی، اور جسم علیحدہ ہوتا تو پھر ’فاقبر روحہ واقبر جسدہ‘ آنا چاہیے تھا، علیحدہ علیحدہ ہوتی بات۔لیکن ایسا نہیں ہے۔
موت کسے کہتے ہیں (موت کی تعریف)
ایک یہ اشکال پیدا کرتے ہیں کہ اگر روح مرنے کے بعد بندے میں لوٹ آتی ہے ، پھر تو بندہ زندہ ہوگیا ، پھر تو مردہ تو نہ رہا۔ کیونکہ بندے کے جسم میں روح ہوتو بندہ زندہ ہے، روح نہ ہوتو بندہ فوت شدہ ہے۔ اسکی بنیاد انکا یہ اصول ہے کہ : جسم کے اندر روح کی موجودگی کا نام زندگی ہے اور جسم سے روح کے نکل جانے کا نام موت ہے۔ حقیقت میں موت اور زندگی کی یہ تعریف ہی ہے غلط۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے کہ بندے کے جسم میں روح نہیں ہوتی ،لیکن بندہ زندہ ہوتا ہے۔اور قرآن مجید میں ہی اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ بندے کے جسم میں روح ہوتی ہے اور بندہ مردہ ہوتا ہے۔لہٰذا یہ تعریف کرنا موت کی کہ روح کا جسم سے نکل جانا موت ہے ، یہ تعریف ہی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الزمر میں بیان فرمایا ہے: ” اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا “ اللہ روحوں کو موت کے وقت بھی نکال لیتا ہے اور نیند کے وقت بھی نکال لیتا ہےسوئے ہوئے کو مردہ نہیں زندہ ہی مانا جاتا ہے؟
اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ اللہ سوئے ہوئے کی روح کو نکال لیتا ہے اور حالت نیند میں جس کو موت دینی ہوتی ہے ، اس کی روح کو تھوڑی دیر کےلیے روک لیتا ہے۔ جس کو موت نہیں دینی ہوتی ، اس کی روح کو واپس جسم میں لوٹا دیتا ہے ، جس میں روح واپس آتی ہے تو بندہ جاگ جاتا ہے، بیدا رہوجاتا ہے۔ یعنی نیند کی حالت میں بندے کے اندر روح نہیں ہوتی ۔ لیکن کیا وہ مردہ ہے؟ یقینًا نہیں۔ ساری کائنات اس کو زندہ مانتی ہے کہ یہ زندہ ہے، مردہ نہیں ہے۔ لہٰذا موت کی یہ تعریف کرنا کہ روح جسم سے نکل جائے تو موت ہوتی ہے ، غلط قرار پاتی ہے۔ موت کی یہ صحیح تعریف نہیں ہے۔ موت کی صحیح تعریف اللہ تعالیٰ نےقرآن مجید میں بیان کی ہے: ” أَمْواتٌ غَيْرُ أَحْيَاء [النحل : 21] “ مردہ ہیں، زندہ نہیں۔ یعنی موت کی تعریف یہ ہے: دنیوی زندگی کے ختم ہوجانے کا نام موت ہے۔ دنیوی زندگی کے ختم ہوجانے کا نام موت ہے۔ لہٰذا روح کا جسم میں لوٹ آنا یہ دنیاوی زندگی کو مستلزم نہیں۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ بندہ زندہ ہوگیا۔قیامت سے قبل مرنے والے کے جسم میں روح کا لوٹنا قرآن سے ثابت ہے اور یہی رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا عقیدہ ہے !!!
اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ اللہ سوئے ہوئے کی روح کو نکال لیتا ہے اور حالت نیند میں جس کو موت دینی ہوتی ہے ، اس کی روح کو تھوڑی دیر کےلیے روک لیتا ہے۔ جس کو موت نہیں دینی ہوتی ، اس کی روح کو واپس جسم میں لوٹا دیتا ہے ، جس میں روح واپس آتی ہے تو بندہ جاگ جاتا ہے، بیدا رہوجاتا ہے۔ یعنی نیند کی حالت میں بندے کے اندر روح نہیں ہوتی ۔ لیکن کیا وہ مردہ ہے؟ یقینًا نہیں۔ ساری کائنات اس کو زندہ مانتی ہے کہ یہ زندہ ہے، مردہ نہیں ہے۔ لہٰذا موت کی یہ تعریف کرنا کہ روح جسم سے نکل جائے تو موت ہوتی ہے ، غلط قرار پاتی ہے۔ موت کی یہ صحیح تعریف نہیں ہے۔ موت کی صحیح تعریف اللہ تعالیٰ نےقرآن مجید میں بیان کی ہے: ” أَمْواتٌ غَيْرُ أَحْيَاء [النحل : 21] “ مردہ ہیں، زندہ نہیں۔ یعنی موت کی تعریف یہ ہے: دنیوی زندگی کے ختم ہوجانے کا نام موت ہے۔ دنیوی زندگی کے ختم ہوجانے کا نام موت ہے۔ لہٰذا روح کا جسم میں لوٹ آنا یہ دنیاوی زندگی کو مستلزم نہیں۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ بندہ زندہ ہوگیا۔قیامت سے قبل مرنے والے کے جسم میں روح کا لوٹنا قرآن سے ثابت ہے اور یہی رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا عقیدہ ہے !!!
اعاده روح پر دوسری قرآنی دلیل
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ” حَتَّى إِذَا جَاء أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ [المؤمنون : 99] “ ان میں سے کسی کو موت آتی ہے، تو وہ کہتا ہے: اے اللہ!مجھے واپس لوٹا دیجئے۔ مرنے کے بعد وہی کہہ رہا ہے جس کو موت آئی ہے۔تو روح اور جسم کے مجموعے کو آئی تھی۔ کیونکہ جب زندہ تھا تو روح وجسم کا مجموعہ تھا ! اکیلا جسم نہیں تھا, نہ ہی اکیلی روح تھی ۔ مرنے کے بعد روح اور جسم کا مجموعہ یہ کلمات کہہ رہا ہے ۔ تو ثابت ہوگیا کہ مرنے کے بعد روح اور جسم اکھٹے ہوتے ہیں۔ تو روح کا لوٹنا بھی قرآن مجید سے ثابت ہوگیا۔ اس میں اشکال والی بات ہی کوئی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی روح کہتی ہے: مجھے واپس جسم میں لوٹا دو ۔ عجیب عجیب قرآن کی تاویل کرتے ہیں۔ سچ کہا تھا کسی نے :
احكام تیرے حق ہیں مگراپنے مفسر
تاویل سے کردیتے ہیں قرآن کو پاژند
اللہ نے یہ تو نہیں کہا کہ جب ان میں سے کسی موت آتی ہے تو ’قال روحہ‘ اس کی روح کہتی ہے : مجھے لوٹاؤ۔ روح کا لفظ تو اللہ نے نہیں بولا، اپنی طرف سے لگا رہے ہیں۔ اللہ کہہ رہا ہے کہ جس کو موت آئی تھی وہی کہہ رہا ہے کہ مجھے لوٹاؤ تاکہ میں نیک اعمال کروں۔ اللہ فرمائے گا: ” كَلَّاإِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَاوَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ“ [المؤمنون : 100] ہرگز ایسا نہیں ہوگا ہاں! یہ بول یہ ضرور بولے گا۔ ان کے اور دنیا کے درمیان قیامت تک کےلیے اب ایک آڑ اور برزخ ہے۔ توقرآن مجید سے بھی ثابت ہے کہ بندے کے جسم میں روح لوٹتی ہے۔ اور رسول اللہﷺ نے واضح لفظوں میں فرمایا ہے: ”فتعاد روحہ في جسدہ , “ بندہ نیک ہو بد ہو، دونوں کی روح مرنے کے بعد جسم میں لوٹا دی جاتی ہے۔
سنن ابی داؤد(4753) , مسند احمد(389,ط:الرسالة)
سنن ابی داؤد(4753) , مسند احمد(389,ط:الرسالة)
آسمانی قبر میں جزاء و سزا ہونے کا عقیدہ قرآن وحدیث دونوں کے خلاف ہے !!!
منكرين حديث کا عقیدہ ہے کہ عذاب وثواب اس زمین والی قبر میں نہیں بلکہ آسمانوں والی قبر میں ہوتا ہے ، اور وہ اس بات کا بہت ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ لیکن انکا یہ عقیدہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ دونوں کےمتضاد ہے ۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : اور جو بد آدمی ہے اس کی روح کو سختی کے ساتھ نکالا جاتا ہے، ، بدبودار ٹاٹ میں اس کو لپیٹا جاتا ہے۔ اور اسے آسمان کی طرف لے جایا جاتا ہے، آسمان کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے ، لیکن دروازہ نہیں کھلتا۔ ساتھ ہی نبیﷺ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت کردی۔” لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء “ ان کےلیےآسمانوں کے دروازے نہیں کھولے جاتے۔ ” وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ “یہ جنت میں بھی نہ جائیں گے ” حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ [الأعراف : 40] “ حتی کہ اونٹ سوئی کے سوراخ میں سے داخل ہوجائے۔جب تک اونٹ سوئی کے سوراخ میں سے داخل نہیں ہوجاتا تب تک نہ توا ن کےلیے آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ ہی یہ جنت میں داخل ہوسکیں گے۔ مسند احمد(389,ط:الرسالة)دوسروں پر کفر کے فتووں کی توپ چلانے والے ذرا خود ہوش کے ناخن لیں۔ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں: ” لاَ تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاء وَلاَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ “ دونوں کام نہیں ہوسکتے۔نہ آسمان کے دروازے کھلیں اور نہ یہ جنت میں جائیں۔ ” حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ “ حتى کہ اونٹ سوئی کے سوراخ میں داخل ہو جائے ۔اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ روح کے جسم میں لوٹائے جانے کا عقیدہ , رسول اللہﷺ کا عقیدہ ہے۔
برزخ کیا ہے ؟؟؟
اللہ تعالى کافرمان ہے :
” وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [المؤمنون : 100] “ ان کے (یعنی جس کو موت آئی تھی۔ موت کس کو آئی تھی؟ روح وجسم کے مجموعے کو , اس روح وجسم کے اس مجموعے کے) درمیان اور ” رَبِّ ارْجِعُونِ [المؤمنون : 99] “ ان کی اس بات کے جواب کے درمیان یعنی دنیا میں لوٹنے کے درمیان آڑ ہے ۔تو برزخ کیا ہے؟ مرنے کے بعد بندے کی روح اور جسم جہاں ہوتا ہے وہی اس کےلیے قبر ہے اور وہی اس کےلیے برزخ ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوچکی ہے۔
” وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ [المؤمنون : 100] “ ان کے (یعنی جس کو موت آئی تھی۔ موت کس کو آئی تھی؟ روح وجسم کے مجموعے کو , اس روح وجسم کے اس مجموعے کے) درمیان اور ” رَبِّ ارْجِعُونِ [المؤمنون : 99] “ ان کی اس بات کے جواب کے درمیان یعنی دنیا میں لوٹنے کے درمیان آڑ ہے ۔تو برزخ کیا ہے؟ مرنے کے بعد بندے کی روح اور جسم جہاں ہوتا ہے وہی اس کےلیے قبر ہے اور وہی اس کےلیے برزخ ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوچکی ہے۔
ایک اعتراض کہ دنیاوی قبر تو مرقد ہے
عذاب قبر کے منکرین کہتے ہیں کہ اگر قبر میں عذاب ہوتا ہے تو قیامت کے دن مشرکین کہیں گے ” يَا وَيْلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّرْقَدِنَا “ ہمیں ہماری ’مرقد‘ آرام گاہ سے کس نے بیدار کیا ہے؟ آرام گاہ تو کہا جاتا ہے آرا م کرنے کی جگہ کو۔ اگر عذاب ہوتا ہے تو اس کو عذاب گاہ کہنا چاہیے ۔ آرام گاہ نہیں کہنا چاہیے۔ اولا: مرقد کا معنی آرام گاہ نہیں ہوتا۔ یہ معنی ہی غلط ہے۔ غلط معنی کرکے اس پر ایک غلط عقیدے کی بناء استوار کیا جارہی ہے۔ لہٰذا اعتراض ہی غلط ہے۔ ثانیا: فرض کر لیا کہ مرقد کا معنى آرام گاہ ہے, اور یہ قبر آرام گاہ ہی ہے۔ تو اس پر سوال اٹھتا ہے کہ آرام اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے یا نہیں؟ یقینًا نعمت ہے ! تو پھر جزا مل گئی!! اگر مرقد کا معنی آرام گاہ کرتے ہو تو پھر قبر میں جزا تو مل گئی۔ سزا کا تم کہتے ہو کہ نہیں ملتی ، جزاتو پھر بھی مان ہی گئے ہو۔ تو جب جزا قبر میں مل سکتی ہے تو سزا کیوں نہیں؟
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
ثالثا: اللہ تعالى نے قرآن مجید فرقان حمید میں قیامت سے پہلے ایک صعقہ یعنی بے ہوشی کا بھی ذکر فرمایا ہے ۔ اللہ تعالى فرماتے ہیں "وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ" ( الزمر:68) ۔ یعنی روز محشر صور پھونکا جائے گا ۔ تو فورا زمین وآسمان کے تمام تر مخلوق بے ہوش ہو جائے گی سوائے ان کے جنہیں اللہ تعالى بچا لے پھر اسکے تھوڑی دیر بعد دوسرا صور پھونک جائے گا تو سارے ہی کھڑے ہوکر دیکھ رہے ہوں گے ۔
اس آیت کریمہ میں دو صوروں کے درمیان ایک بے ہوشی کا تذکرہ ہے ۔کہ پہلے صور کے بعد بے ہوشی ہوگی اور پھر تھوڑی دیر بعد دوسرا صور پھونک جائے گا تو سبھی ہوش میں آجائیں گے ۔ یہ لوگ جنہیں سزا مل رہی تھی پہلے صور کے بعد بےہوش ہوں گے انہیں بے ہوشی کی وجہ سے عذاب کا احساس ختم ہو جائے گا تو جونہی دوسرا صور پھونک جائے گا یہ کہیں گے "من بعثنا من مرقدنا[FONT=&]" ہمیں ہماری مرقد سے کس نے اٹھایا ہے ۔ مرقد اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں بندہ سوتا ہے ۔ خواہ سوتے میں تکلیف ہو یا راحت وآرام ۔ تو یہ بے ہوشی کی وجہ سے اسے مرقد کہہ رہے ہیں ۔ خوب سمجھ لیں۔
محمد رفيق طاهر
[/FONT]
اس آیت کریمہ میں دو صوروں کے درمیان ایک بے ہوشی کا تذکرہ ہے ۔کہ پہلے صور کے بعد بے ہوشی ہوگی اور پھر تھوڑی دیر بعد دوسرا صور پھونک جائے گا تو سبھی ہوش میں آجائیں گے ۔ یہ لوگ جنہیں سزا مل رہی تھی پہلے صور کے بعد بےہوش ہوں گے انہیں بے ہوشی کی وجہ سے عذاب کا احساس ختم ہو جائے گا تو جونہی دوسرا صور پھونک جائے گا یہ کہیں گے "من بعثنا من مرقدنا[FONT=&]" ہمیں ہماری مرقد سے کس نے اٹھایا ہے ۔ مرقد اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں بندہ سوتا ہے ۔ خواہ سوتے میں تکلیف ہو یا راحت وآرام ۔ تو یہ بے ہوشی کی وجہ سے اسے مرقد کہہ رہے ہیں ۔ خوب سمجھ لیں۔
محمد رفيق طاهر
[/FONT]
Last edited by a moderator: