پنجابی میں ایک کہاوت ہے گرا گدھے سے اور غصہ کمہار پر . اس وقت دیوالیہ معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے جو سیٹر ٹیجی سامنے آ رہی ہے اس کا نام ہے اٹھارہویں ترمیم کا خاتمہ . اٹھارہویں ترمیم کا خاتمہ اس لیے ضروری ہے کہ ملک کے عوام کو بنیادی ضروریات سرکاری تعلیم و علاج سے محروم کرکے اس پیسے کو ملک کے دفاع کے لیے وقف کر دیا جائے .
مطلب ٹیکس دیتی عوام کو اب بدلے میں صرف موٹے پیٹ والی پولیس دینی ہے . اس سے بھی کام بنتا نظر نہیں آ رہا . کیوں کے جو ٹیکس کولیکشن ہے وہ سارے کا سارا قرض کی ادائیگی میں جاتا نظر آ رہا ہے کیوں کے معیشت کی تباہی جاری ہے تو آئندہ وقت میں قرض ادا کرنے کے لیے بھی قرض لینا پڑے گا .
مطلب یہ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے . ہماری بربادی کی انتہا یہ ہے کہ جہاں آج کل بین الاقوامی چھوٹی پرائیوٹ کمپنیاں اربوں ڈالروں کا کاروبار سمیٹتی ہیں ہم چھے ارب ڈالر میں بیس کروڑ عوام فروخت کر دیتے ہیں . دو ارب ڈالر کے ہے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بھیک مانگتے ہیں . ہمارا فارن ریزرو غیر ملکی امداد پر مشتمل ہے اور نوشتہ دیوار ہے یہ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے . کیوں کے ہمارے اداروں کو جو سیاست میں مداخلت کا کیڑا تھا
جو یہاں حکومتوں کی ادلا بدلی اور دھرنوں اور احتساب کا کنجر خانہ چلا رہے تھے انہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ صرف چھ ارب ڈالر میں یہ قوم بیچ دی جائے گی . ہماری ترجیح صرف ہماری انا تھی اور اس کی بھینٹ یہ ملک چڑھ گیا ہے . ہمارے پاس قرض چکانے کے پیسے نہیں ہم اپنی خود مختاری کا سودا کرکے سٹیٹ بنک پرائیویٹ کرنے یا رہے ہیں اور روتھ چائلڈ واردات کی مانند ہمارا مرکزی بینک ہتھیا جا چکا ہے . اب یہ قوم ساہو کاروں کی غلام بن کے رہے گی .
نہ بجلی سستی ہوگی نہ تیل اور نہ ہی ترقی کا کوئی رستہ نکلے گا . قوم کا گلے میں آئی ایم ایف کا پھندہ مزید ٹائٹ ہوگا . بیروزگاری اور غربت کا سونامی آئے گا . آخر میں خانہ جنگی ہو گی اور یہودی اپنے ایجنڈے میں کامیاب ہو جائیں گے
مطلب ٹیکس دیتی عوام کو اب بدلے میں صرف موٹے پیٹ والی پولیس دینی ہے . اس سے بھی کام بنتا نظر نہیں آ رہا . کیوں کے جو ٹیکس کولیکشن ہے وہ سارے کا سارا قرض کی ادائیگی میں جاتا نظر آ رہا ہے کیوں کے معیشت کی تباہی جاری ہے تو آئندہ وقت میں قرض ادا کرنے کے لیے بھی قرض لینا پڑے گا .
مطلب یہ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے . ہماری بربادی کی انتہا یہ ہے کہ جہاں آج کل بین الاقوامی چھوٹی پرائیوٹ کمپنیاں اربوں ڈالروں کا کاروبار سمیٹتی ہیں ہم چھے ارب ڈالر میں بیس کروڑ عوام فروخت کر دیتے ہیں . دو ارب ڈالر کے ہے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بھیک مانگتے ہیں . ہمارا فارن ریزرو غیر ملکی امداد پر مشتمل ہے اور نوشتہ دیوار ہے یہ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے . کیوں کے ہمارے اداروں کو جو سیاست میں مداخلت کا کیڑا تھا
جو یہاں حکومتوں کی ادلا بدلی اور دھرنوں اور احتساب کا کنجر خانہ چلا رہے تھے انہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ صرف چھ ارب ڈالر میں یہ قوم بیچ دی جائے گی . ہماری ترجیح صرف ہماری انا تھی اور اس کی بھینٹ یہ ملک چڑھ گیا ہے . ہمارے پاس قرض چکانے کے پیسے نہیں ہم اپنی خود مختاری کا سودا کرکے سٹیٹ بنک پرائیویٹ کرنے یا رہے ہیں اور روتھ چائلڈ واردات کی مانند ہمارا مرکزی بینک ہتھیا جا چکا ہے . اب یہ قوم ساہو کاروں کی غلام بن کے رہے گی .
نہ بجلی سستی ہوگی نہ تیل اور نہ ہی ترقی کا کوئی رستہ نکلے گا . قوم کا گلے میں آئی ایم ایف کا پھندہ مزید ٹائٹ ہوگا . بیروزگاری اور غربت کا سونامی آئے گا . آخر میں خانہ جنگی ہو گی اور یہودی اپنے ایجنڈے میں کامیاب ہو جائیں گے