Asad Mujtaba
Chief Minister (5k+ posts)

سال2003ء میں راناثناء اللہ خان پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر کے ساتھ ساتھ ن لیگ کے پارلیمانی لیڈر بھی تھے۔مارچ2003ء کے دوسرے ہفتے میں جب وہ ایک رات فیصل آباد میں اپنے چیمبر سے واپس لوٹ رہے تھے تو انہیں درجن بھر نقاب پوشوں نےمبینہ طور پر اغواء کر لیا تھا۔ ڈان نیوز کی 10مارچ2003ء کی رپورٹ کے مطابق رانا ثناء اللہ کو اغواء کے بعد،جس جگہ لے جایا گیا تھا،وہ بقول رانا ثناء اللہ کے ایک”انٹیلی جنس ایجنسی“ کا آفس تھا۔رانا ثناء اللہ کے مطابق اغواء کرنیوالوں نے انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق راناثناء اللہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے تشدد کا نشانہ بنانیوالے افراد میں میجر کی رینک کا ایک آرمی افسر بھی تھا،جسے وہ پہلے بھی کہیں دیکھ چکے تھے۔اس رات رانا ثناء اللہ کے سر،بھنوؤں اور مونچھوں کے بال صاف کر نے کے بعد انہیں لوہے کی سلاخوں سے پیٹا گیا تھا۔رپورٹ کے مطابق رانا ثناء اللہ کے جسم پر بلیڈز کی مدد سے کئی کٹ لگانے کے بعد ان پر کیمیکل کا چھڑکاؤ کرکے انکی اذیت میں اضافہ کیاگیا تھا۔

رانا ثناء اللہ کے بقول تشدد اور اذیت کا یہ سلسلہ چار گھنٹے جاری رہا تھا،جس کے بعد انکی آنکھوں پر پٹی باندھ کر سڑک پر پھینک دیا گیا تھا۔
رانا ثناء اللہ کی پنجاب اسمبلی میں تقریر
اس افسوس ناک واقعے کے چند روز بعد رانا ثناء اللہ خان نے پنجاب اسمبلی میں ایک انتہائی جذباتی اور قدرے خطرناک تقریر کی تھی،جس میں ان کی جانب سے واقعہ کے کئی پہلؤوں پر روشنی ڈالی گئی تھی۔ رانا ثناء اللہ کی جانب سے اس تقریر میں جو کچھ کہا گیا تھا،اسکے اہم حصوں کی تفصیل یوں ہے:۔
”کسی زندہ انسان کے جسم کو تیز دھار آلے سے کاٹنا بربریت ہے؛ذہنی پستی ہے اور ایسا گند ہے کہ اس سے زیادہ اور پستی کوئی نہیں ہوسکتی۔اس سے پہلے حکمران اپنے خلاف بولنے والوں کو اپنی تسکین کیلئے خونخواردرندوں اور بھیڑیوں کے سامنے ڈالا کرتے تھے اور ان (درندوں) سے انکے جسم کو چیرایاکرتے تھے۔اس سارے عمل سے حکمران لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔لیکن آج کے حکمرانوں نے ان جانوروں کا کام بھی انسانوں سے لینا شروع کر دیا ہے۔میں اس سے زیادہ نہیں کہوں گا۔۔میں یہ نہیں کہوں گا کہ مجھے بڑی اذیت ہوئی۔۔تین سرجنز نے میرا میڈیکل کیا ہے اور میرے زخموں کی میڈیکولیگل رپورٹ پیش کی ہے۔۔میں خود نہیں بیان کرتا۔۔میں وہ میڈیکل رپورٹ اور اپنی درخواست،جو پہلے بھی کئی دفعہ پریس میں چھپ چکی ہے اور وہ پٹی،جو انہوں نے میری آنکھوں پر باندھی ہوئی تھی اور جب وہ رات کے دو بجے مجھے سروس روڈ پر دھکا دیکر گئے تو انہیں اتنی جرات نہیں ہوئی کہ میری آنکھوں سے پٹی اتار کر دھکا دے دیں۔۔میں یہ تینوں چیزیں آپ کے سپردکرتا ہوں تاکہ یہ ریکارڈ میں رہے۔۔
کہا گیا کہ رانا ثناء اللہ نے حمودالرحمان کمیشن رپورٹ کا حوالہ دیکر بہت بڑاجرم کیا تھا۔ میں اس معزز ایوان سے سوال کرتا ہوں کہ کیا حمودالرحمان کمیشن رپورٹ ایک پبلک ڈاکومنٹ نہیں ہے؟کیا اسے نوٹیفائی نہیں کیاگیا؟کیا اس کا ہرلفظ جو نوٹیفائی ہوا،جو شائع ہوا،اسے اس حکومت کی sanctityحاصل نہیں ہے؟اگر حمودالرحمان کمیشن رپورٹ ایک پبلک ڈاکومنٹ ہے تو اس کا حوالہ دینا کہاں کا جرم ہے؟کیا یہاں پر ہیر یا وارث شاہ کے حوالے دئے جائیں گے؟اگر ان ایوانوں میں پبلک ڈاکومنٹ کے حوالے نہیں دئے جا سکتے تو پھر یہاں پر کس چیز کے حوالے دئے جا سکتے ہیں؟
جناب اسپیکر!یہاں یہ بھی کہا گیا کہ آپ نے ریٹائرڈ فوجیوں کی نوکری سے متعلق بات کی تھی۔کیا(اس حوالے سے)میری تحریکِ التوائے کارآپ کے چیمبر سے اِن آرڈر نہیں ہوئی؟میں تو کہتا ہوں کہ ان ایجنسیز والوں کو آپ اپنے چیمبر یا ڈپٹی اسپیکر کے ساتھ بٹھا دیں،جو چیز وہ چاہیں کہ اس ایوان میں آسکتی ہے،اسے آنے دیں جو نہیں چاہتے اسے نا آنے دیں۔جب میری تحریک اِن آرڈر ہوئی تو اس ایوان میں زیرِ بحث آئی اور میں نے18آدمیوں کی فہرست پیش کی کہ یہ لوگ فوج میں نوکری کرتے رہے،وہاں سے تنخواہیں لیتے رہے،وہاں سے پلاٹ لئے،پنشن لی اور اب یہ35ہزار سے لیکر60ہزار کی نوکری کر رہے ہیں جبکہ اس ملک کا ڈبل گریجوایٹ 35سو کی نوکری لینے کیلئے ہاتھوں میں ڈگری لئے پھررہا ہے مگر اسے نوکری نہیں ملتی۔
یہ سر کے بال اتاریں یا سراتاریں کلمہ حق تو بلندہوکررہے گا۔میرے جسم پر22کٹ لگا کر یہ سمجھتے ہیں کہ کلمہ حق کہنے سے کوئی رک جائے گا۔۔تاریخ میں لوگوں کے جسموں کے22,22ٹکڑے کر دئے گئے،اسکے باوجود سچ مٹ نہیں سکاتو22کٹ سے سچ کیسے مٹ سکتا ہے؟
میں ان ہاتھوں کا جو بندوق اٹھا کرمیرے ملک کی حفاظت کرے،احترام کر سکتا ہوں لیکن جو نشتر اٹھا کرمیرے جسم پر زخم لگائے ان کا احترام نہیں کر سکتا۔یہ میری مجبوری ہے۔میں منافقت نہیں کر سکتا۔ہم فوج کے سیاسی کردار کی مذمت کرتے ہیں۔
یہ کونسا معرکہ ہے کہ کسی کو زخم لگائے جائیں؟کسی کے ہاتھوں میں ہتھکڑی باندھی جائے۔آنکھوں پر پٹی باندھی جائے اور اسکے بعداس پر تشدد کیا جائے؟میں تو ان لوگوں کو دیکھنا چاہتاہوں کہ وہ کتنے حوصلہ مند اور بہادر تھے؟میں خود کو اتنا بے حوصلہ نہیں سمجھتا لیکن اگر میرے سامنے کوئی آدمی لایا جائے،جس کی آنکھوں پر پٹی،ہاتھوں میں ہتھکڑی ہواور مجھے کہا جائے کہ تم اسے تھڈالگا ؤ یا اس پر تشدد کروتو مجھ میں اتنا حوصلہ نہیں بلکہ ٹھڈا لگانے سے پہلے میں خود گرجاؤں گا۔
یہ کونسا معرکہ ہے کہdefaceکیا جائے؟رانا ثناء اللہ کے سر کے بال قلم کرنا کونسی بڑی بات ہے؟یہ معرکہ تو تب ہوتا کہ آپ حمودالرحمان کمیشن رپورٹ بنانے والے جنرل اروڑہ سنگھ کی مونچھوں کوبھی کاٹتے۔۔اسکی مونچھیں رانا ثناء اللہ سے بڑی تھیں لیکن وہ آپ کو نظر نہیں آئیں۔۔۔لیکن ہمارا کیا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ ایک رانا ثناء اللہ کیا یہ تو یہاں پر14کروڑ (عوام)کی بھی مونچھیں مونڈ سکتے ہیں۔۔14کروڑ کے بھی بال کاٹ سکتے ہیں۔یہ کوئی معرکہ نہیں۔وہ انڈین تھا اور ہمارا جرم صرف یہ ہے کہ ہم پاکستانی ہیں۔
ہم پاکستانی قوم نہیں اپنے حکمرانوں کی رعایا ہیں۔اسی لئے یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں۔ میں اس سلسلے میں ان حکمرانوں سے گزارش کروں گا کہ وہ کس طرف جا رہے ہیں؟ ہم اپنے ہمسایہ ملک ایران سے سبق سیکھیں۔ وہاں پر ”ساواک (SAVAK)“بھی یہی کچھ کرتی تھی۔ وہ بھی لوگوں کو اٹھا لیتی تھی۔۔۔ ٹارچر کرتی تھی اور رات گئے دور پھینک آتی تھی تا کہ شہنشاء کا اقتدار بلند رہے اور وہ طول پکڑے لیکن آخر میں ”ساواک“ اپنے ملک میں قبر کے برابر بھی جگہ حاصل نہ کر سکی۔ جو لوگ نشہ حکمرانی میں اس قسم کے ہتھکنڈوں پر اترتے ہیں تو پھر ان کے لئے اسی ملک کی زمین تنگ ہو جاتی ہے۔ میں یہ عرض کروں گا کہ اس قدر دور نہ جائیں کہ وہ اپنی قبروں کو اس ملک سے باہرمنتقل کرلیں۔
جناب سپیکر! executing agency تو کوئی بھی ہو سکتی ہے لیکن یہ محمود الرحمن کمیشن رپورٹ یہ ریٹائرڈ فوجیوں کا مسئلہ یہ تو کل کی باتیں ہیں۔ یہ باتیں تو ابھی آخری اجلاس میں زیربحث آئیں۔ یہ سلسلہ تو تقریباً پچھلے دو ماہ سے چل رہا تھا۔۔۔ اگر آپ سیکرٹیریٹ میں تھوڑی سی تحقیقات کریں تو آپ کو پتا چل جائے گا کہ یہاں سے کون اسمبلی کی”پروسیڈنگز“ کی ٹیپ حاصل کرتا رہا ہے۔ اگر وزیرقانون صاحب اپنی منسٹری اور ہوم ڈیپارٹمنٹ سے پتہ کریں تو انہیں معلوم ہوجائے گا کہ کون قانونی ماہرین سے مشورے کرتا رہا ہے کہ بتائیں کہ اس کے متعلق کوئی پرچہ درج ہو سکتا ہے یا کوئی قانونی کارروائی ہو سکتی ہے؟
فیصل آباد کی مقامی انتظامیہ، ڈی پی او سے پوچھولیں کہ کس نے اسے کہا تھا کہ رانا ثناء اللہ کا ریکارڈ اکٹھا کرو اور اس میں سے کچھ نہ کچھ نکالو؟ کس نے اسے کہا تھا کہ اس کے شب و روز چیک کرو اور دیکھو کہ کسی جگہ سے وہ پکڑے جاسکیں؟ کس نے انہیں کہا تھا کہ وہ تمام معاملات جو نیب تین سال تک کھنگال کھنگال کر آخر تھک ہار کر بیٹھ گئی ہے ان کو دوبارہ”ری ٹیک“ کرو تو ساری بات سامنے آجاتی ہے۔
آخر میں کہنا چاہتا ہوں کہ محبت گولیوں سے نہیں بوئی جاتی۔۔وطن کا چہرہ خون سے نہیں دھویاجاتا۔ ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔“
source