بجٹ ، برات ، اور 70 ارب روپے بینظیر کے نام
June 2, 2012
June 2, 2012
کنول اکبر
ابھی ابھی بجٹ کی تقریر کو سر سے گزارتے ہوئے صرف ایک چیز پر سوئی اٹک گئی اور پھر دماغ بھٹک گیا- پھر آگے سمجھ نہیں آیا کے کیسا بجٹ اور کس کابجٹ- خبر یہ تھی کے بینظیر انکم سپورٹ کے لئے 70 ارب روپے مختص – گو کے ابھی یہ معلوم نہ ہوا کے تعلیم کے لئے کیا مختص ہوگیا مگر ستر ارب کی خبر سن کر دماغ کے گھوڑے سر کش دوڑنے لگے- اور بچپن میں سنایا ہوا بزرگوں کا ایک قصہ دماغ کی دیواروں سے ٹکرانے لگا جو یقیناً سنایا تو کسی اور وجہ سے ہوگا لیکن خیر اس 70 ارب پرضرور صادق آتا ہے-
قصہ کچھ یوں ہے کے ایک جگہ شادی تھی، برات آئی نکاح ہوا، کھانے کا وقت تھا جب میزبان کی طرف سے ایک عجیب وغریب شرط رکھ دی گئی کہ ہمارے یہاں ایک رسم ہے وہ پوری ہوگی تو کھانا کھلے گا اور رخصتی ہوگی – جب رسم یا شرط بتائی گئی تو پوری برات میں کھلبلی مچ گئی- شرط یہ تھی کے رخصتی اسی صورت میں ہوگی جب ہر باراتی کے حصے کا ایک بکرا کھایا جائے گا- یعنی اگر 100 باراتی تو100 بکرے –
پھر کیا تھا جتنے منہ اتنی باتیں- خیر باراتیوں نے سوچا کہ بزرگوں سے مشورہ کیا جائے.- سارے بزرگ سر جوڑ کر بیٹھ گئے تو ایک بزرگ نے مشورہ دیا اور میزبان سے کہا کہ ہمیں شرط منظور ہے لیکن ایسا کرنا بکرے ایک کے بعد ایک لانا یعنی ایک ختم ہوجاے تو دوسرا لانا. میزبان راضی ہوگئے- ان بزرگ نے سارے باراتیوں کو ایک جگہ جمع کیا اور کہا کے سب ایک ساتھ کھائیں گے – ادھر ایک بکرا آتا ادھر سارے باراتی ہاتھ بڑھاتے اور شاید ایک ایک نوالے میں ہی بکرا ختم ہوجاتا – پھر کیا تھا ایک کے بعد ایک سارے بکرے ختم اور کسی کا پیٹ بھرا کسی کا نہیں-
خیر قصہ مختصر جب 70 ارب کا سنا تو یہ قصہ دماغ میں گونجنے لگا کے غریبوں کو بھکاریوں کی طرح 2 ، 3 ، یا 4 ہزار ماہانہ دیا جاےگا جس سے نہ تو راشن پورا ہوگا نہ کسی کا خواب – اور اخیر رزلٹ صفر- کیوں کے یہ ستر ارب کی تقسیم جس فارمولے سے کی جائے گی اس سے نہ تو غربت ختم ہوگی اور نہ کسی غریب کی زندگی بدلے گی – ہاں البتہ یہی ستر ارب روپے تعلیم کے لئے رکھ دیے جاتے تو شاید یہ ملک ایسے افراد پیدا کر دیتا جو ایسے فارمولے بنانے میں کامیاب ہوجاتے جس سے ملک ترقی بھی کرتا اور لوگ بھی خوش حال ہوجاتے اور انھیں اس بھیک میں ملے چند ہزار کی ضرورت نہیں ہوتی اور آگے چل کر وہ اپنی نسلوں کو بھی کامیاب بناتے ، پڑھاتے لکھاتے، یعنی ایک ایسا پودا لگ جاتا جو صدیوں تک پھل دیتا –
یا پھر بجلی کی مزید پیداوار میں لگا دیتے تو اس پیداوار سے ملک کی معیشت میں بھی ترقی ہوتی اور بجلی کے بل کی صورت میں دہائیوں تک پیسا وصولتے اور اسے عوام کی فلاح میں خرچ کرتے یا پھر غریبوں کو کاروبار کے لئے ادھار دے دیتے اور غریب کاروبار کر کے ملک کی معیشت میں اضافہ کرتے اور پیسے بھی واپس کردیتے – یا پھر ایسے کسی پروجیکٹس پر لگا دیتے جن سے غریبوں کو نوکریاں دیتے اور ان اداروں سے فائدہ بھی حاصل کرتے جس سے عوام کو عزت کی روٹی دے پاتے –
اگر یہ ستر ارب بینظیر کے نام کرنے کے بجاے کسی صحیح جگہ لگ جاتے تو شاید کام آتے لیکن اب یہ ان باراتیوں کے کھانے کی مانند ہیں جس سے کسی کا پیٹ بھی نہیں بھرتا اور رقم بھی ختم شد- ہاں البتہ ستر ارب روپے رکھنے کا جو جواز نظر آتا ہے وہ یہی فائدہ ہے جو حکومت لینا چاہتی ہے یعنی خیرات دو اور ووٹ لو- تو آو سب مل کر اپنے ٹیکس کے ان روپوں پر فاتحہ پڑھ لیں جو مزید لوگوں کو بھکاری بنانے میں صرف ہوگی -
اضافی نوٹ ؛ اپوزیشن کا کردار اس بجٹ میں یہ تھا کے چور مچاے شور – کیوں کے اپوزیشن ( جسے ہم اپوزیشن نہیں سمجھتے کے ساٹھ فیصد پاکستان پر حکومت کرنے والے ایک ہی وقت میں حکومت میں بھی ہوں اور اپوزیشن میں بھی) کا کردار یہ ہوتا ہے کے وہ ہر بجٹ پر ایک متبادل بجٹ پیش کرتے ہیں کے اگر بجٹ ایسا ہوتا تو عوام کے لئے اچھا ہوتا جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کے وہ اگلی باری کے لئے تیار ہیں- لیکن گزشتہ پانچ سال سے ہر بجٹ میں اپوزیشن شور مچاتی ہے باتیں بناتی ہے اور بجٹ منظور کر لیتی ہے جس سے ہم یعنی عوام اب یہ نتیجہ نکالتے ہیں کے اگر آج پی پی پی کی حکومت ہے اور آیندہ آنے والے دور میں پی ایم ایل نواز لیگ کی حکومت ہو تو فارمولا کچھ یوں بنے گا۔
PPP =PMLN