بجلی پیدا کرنے والے اداروں نے پاکستان سے فراڈ کیا،سیاسی رہنما متفق
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنما اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بجلی کی پیداوار کرنے والے اداروں نے پاکستان سے فراڈ کیا،جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے کہا جب تک آئی پی پیز کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی بجلی سستی نہیں ہو سکتی۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے انکشاف کیا آئی پی پیز کے مالکان کو غیر ملکی دکھایا گیا تھا مگر آئی پی پیز کے مالکان پاکستانی ہیں، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا 2019 میں کہا گیا تھا پانچ آئی پی پیز سے پیسے واپس لیے جائیں جو کہ 40 ارب روپے بنتے ہیں مگر ایک روپیہ بھی واپس نہیں لیا گیا کیوں کہ انہیں اس وقت کے حکومتی پی ٹی آئی ارکان عمر ایوب اور ندیم بابرکا تحفظ حاصل تھا،مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر توانائی انجینئر خرم دستگیر نے کہا کہ آئی پی پیز سے معاہدے ختم ہونے والے ہیں اب دوبارہ ان سے نئے معاہدے نہیں کرنے چاہئیں۔
تین سو یونٹ کے گھریلوصارف کے بل پر 50فیصد ٹیکسز جبکہ کمرشل صارف پر 68 فیصد اضافے ٹیکسز وصول کیے جاتے ہیں، گھریلو صارفین کو 6 ٹیکسز ادا کرنے پڑتے ہیں جن میں سب سے پہلے جی ایس ٹی کی مد میں 2ہزار236روپے لاگو ہوتا ہے ، دوسرے نمبرپرایف سی سرچارج کی مد میں 981روپے ادا کرنے پڑتے ہیں ، تیسرے نمبرپرفیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 450 سو وصولی کیے جاتے ،چوتھے نمبرپرجی ایس ٹی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ پر65 روپے شامل ہیں ، پانچویں نمبرپرماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 380 روپے بھی شامل ہیں اور آخری میں ٹی وی دیکھیں یا نہ دیکھیں ، لیکن 35 روپے فیس وصول کی جاتی ہے
کمرشل بلزپر68 فیصد کا اضافی ٹیکس کے ساتھ تین سو یونٹ بجلی استعمال کرنے پر 11ہزار212روپے بل آتاہے کمرشل صارف سے سیلزٹیکس ،ایکسٹرا ٹیکسز ،انکم ٹیکس ،فردر ٹیکسز ،ریٹیلرزٹیکس ،فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ،ایف سی سرچارج اورسہہ ماہی ایڈجسٹنٹ عائد کے جاتے ہیں تمام ٹیکسزکوملاکر 300 یونٹ کی مد میں 11ہزار212روپے کا بل 20ہزار005روپے تک جا پہنچتا ہے۔