بتاو میں کیا تحریر کروں ؟؟؟

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)

images


سب چھوڑو اپنی بات کرو۔۔۔!!



اسریٰ غوری
ہاتھ میں قلم تھامے کئی لمحے یوںہی گزر گئے لفظوں کو کاغذ کے حوالے کرنا کبھی کبھی کتنا کٹھن ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔!!
آج مجھے لگ رہا تھا جیسے میرے قلم نے مجھ سے سوال کیا ہو کہ بتاو میں کیا تحریر کروں ؟؟؟
برما میں کٹی پھٹی ہر طرف بکھری ہوئی لاشوں پر سوگ منائوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
شام میں اٹھتے ہوئے شعلوں سے آنے والی ان معصوم بچوں کی چیخوں پر ماتم کروں جنہوں نے ابھی زندگی کی چند بہاریں بھی نہ دیکھیں تھی۔۔۔؟؟
کشمیر میں لٹتی عصمتوں پر مرثیہ لکھوں۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
بنگلہ دیش میں ہونے والے ظلم اوربربریت کو روکوں۔۔۔۔؟؟
لہو میں نہائے ہوئے فلسطین کا نوحہ لکھوں ؟؟
اپنے اطراف میں ہر روز ہونے والے دھماکوں اور ان ڈرون حملوں پر آنسو بہائوں جنہوں نے ہنستے بستے گھروں کو اجاڑ کر رکھ دیا ؟؟
یا مصر میں اخوان کے لہو سے رقم کی جانی والی ساٹھ سالہ اس تاریخ کو موضوع بنائوں جو اس وقت بھی اپنے عزم و حوصلوں کے ساتھ پوری دنیاکے لیے مرکز نگاہ بنی ہوئی ہے۔۔؟؟

میرے پاس کوئی جواب نہ تھا کہ یہ سب میرے ہی جسم کی اعضا تھے میں ان میں سے میں کسی ایک کو بھی کیسے نظر انداز کردوں۔۔۔۔ !
کیسے کہہ دوں کہ میرے اس کٹے ہوئے بازو کو چھوڑو کہ میرا دوسرا بازو تو کم از کم سلامت ہے۔۔۔۔۔۔!
میری ایک آ نکھ اگر زخمی ہے تو اس کو رہنے دو کہ مجھے دوسری آنکھ سے ابھی دکھائی دے رہا ہے۔۔۔۔!
کسی نے میرے سینے پر ضرب لگائی ہے تو کیا ہوا میرا دل تو ابھی دھڑک رہا ہے۔۔۔۔۔!
میری ایک ٹانگ اگر دشمن نے کاٹ دی تو کیا ہوا کہ ایک ٹانگ تو باقی ہے۔۔۔۔!
میرا وجود زخموں سے چور صحیح مگر ابھی سانسیں تو چل رہی ہیں نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
تم ان سب کو چھوڑو اور اپنی بات کرو۔۔۔۔۔۔!!
کہا ں سے لایا جائے اتنا حوصلہ کہ میرے وجود پر اتنا کچھ بیت جائے اور میں پھر بھی اتنی بے نیازی برتوں ؟؟

جبکہ میرے آقا نبی اکرم
pbuh نے تو فرمایا کہ تمہاری مثال ایک جسم کی طرح ہے جب جسم کے کسی ایک عضو میں ٹیس اٹھتی ہے تو پورا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے۔
اور برحق فرمایا میرے محبوب نبی pbuhنے باخدا ہم نے یہ درد کی ٹیسیں اپنے وجود میں محسوس کیں ہیں۔۔۔۔۔

ابھی تو دل اس غم سے ہی نہیں نکل پایا تھا اور برما سے آنے والی دردناک خبروں نے ہی ہلا کر رکھا ہوا تھا ہر روز آنے والی تصویریں اور ویڈیوز جن میں مسلمانوں کے ایک ایک اعضا کو کاٹتے ہوئے تو کہیں معصوم بچوں کو زندہ جلاتے ہوئے دکھایا گیا تھا کوئی بھی ویڈیو ایسی نہیں تھی جس کو چند لمحوں سے زیادہ دیکھنے کی سکت ہو نگاہوں کو اسکرین پر رکھنے کے لیے بڑا حوصلہ درکار تھا پر حوصلہ کہاں سے لاتے ؟؟

شام کی میں مسلمانوں کا بہتا لہو اور شہید ہونے والوں کی تعداد اب ایک لاکھ کے قریب ہے۔ بنگلہ دیش میں نمازیوں سے بھری مساجدکو نشانہ بنایا جاتا رہا نہتے لوگوں کو کس بے دردی سے شہید کیا جارہاتھا اور اب مصر کے نہتے عوام جو ہاتھوں میں قرآن تھامے پُر امن احتجاج کر رہے تھے ان پر کیسے ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے۔غرض یہ ظلم جو دنیا کہ ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک پھیلا تھا ملک ، قوم ، فرقے ، رنگ و نسل بے شک الگ الگ تھے مگر جرم سب کا یکساں تھا اور وہ تھا ‘‘مسلماں ’’ ہونا اور یہی وہ ناقابل معافی جرم تھا جس کی وجہ سے دنیاکے کسی بھی خطہ میں انسانی حقوق کی پاسداری کے دعوے کرتیں ان نام نہاد تنظیموں نے بھی ان مظلوموں کے لیے نہ کسی نے آواز اٹھائی نہ ہی کوئی احتجاج کیا نہ انسانی حقوق کا سبق یاد دلایا تھا۔مگر ہم غیروں سے کیا شکوہ کریں کہ جب ہمارے اپنوں نے ہی اس ظلم کے خلاف آواز تک اٹھانا گوارا نہیں کیا تھا۔۔۔۔اور اس بے حسی میں ہم شاید سب سے آگے تھے کہ ہم تو اپنے گھر میں بھی ڈرون حملے روکنے تو کجا ہم تو ان حملوں میں شہید ہونے والوں پر بھی احتجاج بھی کرنے کے قابل نہیں۔۔۔۔۔ کہ جب غیرتیں ہی گروی رکھ دی جائیں تو جھکے ہوئے سر کبھی نہیں اٹھتے۔۔۔۔

جبکہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے

’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اْن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے
جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے، و ہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں، پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں’’(75-76 النسائ)

آج دنیا کے نقشے پر پچپن اسلامی ممالک میں سے کون تھا جو ان آیا ت کو سمجھتا اور ان پر عمل کرتا اور ان بے بس اور بے سہارا مسلمانوں کی مدد کو جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟

پچپن اسلامی ممالک میں سے صرف دو ملک ایسے تھے جنہوں نے اس اظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت کی تھی ترکی اور مصر اور آج مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک بہت بڑی وجہ یہی جرأت تھی جس نے باطل کے ایوان میں کھڑے ہو کر یہ باور کروادیا تھا کہ فلسطین پر اگر اسرائیل نے اپنے ظلم بند نہ کیے تو اسرائیل کو اس کا جواب دیا جا سکتا ہے یہ مرسی ہی تھے جنہوں نے غزہ کے ان بے سہارا لوگوں کے لیے مصر کی اس سرحد کو کھول دیا تھا جو پچھلے کئی عشروں سے امریکی غلام حسنی مبارک نے بند کی ہوئی تھی۔شام میں ہونے والے ظلم کے خلاف قاہرہ میں نامور علماء کی کانفرنس حال ہی میں بلائی گئی اور اس میں بھی صدر محمد مرسی کی کوششیں شامل تھیں مگر مرسی کے یہ اقدام دشمنوں کو قبول نہ تھے اور انہوں نے ایک بار پھر اخوان پر شب خون مارا اور ظلم و ستم کا بازار گرم کردیا مگر وہ یہ بھول گئے کہ اخوان ان ہتھکنڈوں سے ڈرنے والے سہم کر بیٹھنے والے نہیں بلکہ اخوان تو جس بھٹی سے گزر کر یہاں تک پہنچے وہ کندن بن چکے ہیں جنہیں اب شکست نہیں دی جاسکتی کہ اخوان کی قربانی دنوں ، مہینوں یا سالوں کی نہیں تھی یہ قربانی تو نسلوں پر محیط ہے اور اس میں اخوان مردوں کے ہمراہ خواتین کے صبر و استقامت کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی اخوان پر ڈھائے گئے ظلم کی داستانیں جن میں زینب الغزالی کی کتاب روداد قفس ان عقوبت خانوں میں گزارے ان دنوں کی روداد جسے مضبوط سے مضبوط اعصاب کا مالک بھی پڑھ کر اپنی برداشت کھو بیٹھتا ہے۔مگر آج حسن البناء شہید کے لگائے ہوئے وہ ننھے پودے جن کو کچلنے کے لیے ہر دور کے فرعونوں نے اپنی تمام تر قوتیں صرف کردیں تھیں اور آج بھی وہ اپنی ان ناپاک کوششوں میں لگے ہوئے ہیں مگر وقت کی ان تیز آندھیوں کے باوجود دنیا نے دیکھا کہ آج وہ ننھے پودے تناور درخت کی صورت اختیار کرچکے ہیں اور آج پوری امت مسلہ کو اپنی گھنی اور سایہ دار چھائوں میں ڈھانپ لینے کی پوری صلا حیت رکھتے ہیں اور یہی وہ خوف جس نے نہ صرف باطل کی بلکہ بہت سے نام نہاد اسلامیوں کی بھی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں کیونکہ اخوان کی کامیابی کی صورت میں انہیں اپنی سلطنتیں بھی ڈولتی دکھائی دے رہی ہیں جو انہیں کسی صورت قبول نہیں۔۔۔۔۔۔۔

مگر اللہ نے چاہا تو انشاء اللہ اخوان کی یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور آج جس طرح اخوان اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطر دیوانہ وار نکل رہے ہیں مائیں اپنے جوان بیٹوں کی شہادتوں کی خبریں جس جذبے سے سنا رہی ہیں یقین کامل ہے کہ میرا رب ان جذبوں پر اپنے فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہوگا اور اس کی راہ میں بہنے والا لہو رائیگاں نہیں جائے گا فرشتے ان لہو کے قطروں کو گرنے سے پہلے ہی اپنی پلکوں سے اٹھاتے ہوں گے باخدا یہ جذبے کوئی کچل نہیں سکتا انہیں کوئی مات نہیں دے سکتا وہ دن دور نہیں کہ جب یہی اخوان امت مسلمہ کا سب سے مضبوط ستون بنیں گے محمد بن قاسم اور ایوبی کے جانشیں بنیں گے۔

اے اسلام کے سپوتوں خدا تمہیں کامیاب کرے ان مائوں کو سلام جنہوں نے آج اپنے جگر گوشوں کو خدا کی راہ میں قربان کر کے ان صحابیات کی یادیں تازہ کر ڈالیں جن کی قربانیاں اسلام کی تاریخ کا سنہری باب ہیں۔آج پھر تاریخ نے خود کو اسی دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے جہاں اسلام اور کفر ایک بار پھر کھل کر آمنے سامنے نبردآزما ہیں بس اب دیکھنا یہ ہے کہ کہ اس معرکہ میں کس کے حصے میں عمر ابن خطابؓ اور امیر حمزہؓ اور خالد بن ولیدؓ کی جانشینی آتی ہے تو کون خود کو عبداللہ بن ابی کی وراثت کا حق دار بناتا ہے۔

جو بیت رہے الم ہیں کن کے وہ نام لکھوں
کن لفظوں میں اتنے دکھ کی بات سمیٹو ں
اپنوں کے میں زخم دکھائوں ، یا غیروں کی تھی یہ چال لکھوں
غم کوکیا میں غم نہ لکھوں، درد کو میں نہ درد لکھوں
لہو میں ڈوبے قلم سے کیسے ، خوشیوں کی سوغات لکھوں
بھڑکتے شعلوں کو کیا میں روشن چراغ لکھوں
بوڑھے باپ کے کاندھوں پر ہیں جو لاشے
کیسے ان کو میں بارات لکھوں
کیسے لکھوں میں سکھ چین کی باتیں
کیسے چڑیوں کی چہکار لکھوں
زرد پتوں سے بھرے شجر کو کیسے سایہ دار لکھوں
طوفانوں میں گھری ہے کشتی کس کا میں جشن منائوں
ماتم کرتی فضاوں کو کیسے میں بہار لکھوں
چھائے ہر سمت ہیں غم کے بادل
سرخ آندھیوں کو کیسے آمد برسات کی لکھوں
آگ لگی ہے گھر گھر کس امن کا راگ الاپوں
کفن میں لپٹی لاشوں کے، کیا کیا تھے سوالات لکھوں

لہو میں ڈوبی اس بستی میں کیا ہیں لہو کے دام لکھوں
لٹتی عصمتوں کے کس نے سجائے بازار لکھوں
سسکتے ارمانوں نے کیسے کاٹی، وہ سیاہ رات لکھوں
بیچ کے اپنی غیرت کیا کیا تھے کمائے ثمرات لکھوں
سہمی آنکھوں میں جو دیکھی ، کیسے وہ فریاد لکھوں
ٹوٹے کھلونوں کے سنگ جو ٹوٹے تھے ، کیسے وہ جذبات لکھوں
کس بستی کے تھے بسنے والے، کیسے ان کے تھے حالات لکھوں
روح میں اٹھتی ہیں درد کی ٹیسیں اسریٰ
اٹھائے دل نے جو، کیسے وہ صدمات لکھوں



http://jasarat.com/index.php?page=03&date=2013-08-19
 
Last edited:

sahirmushtaq

Politcal Worker (100+ posts)
آ میں تجھے بتاؤں کہ کیا تحریر کر


سعودی عبداللہ کو منافق لکھ


پاکستانی طالبان کو جانور لکھ


شام میں امریکیوں کی مداخلت کو لعنت لکھ


افغانستان میں فرقہ واریت کو پھٹکار لکھ


ایک دوسرے کو کافر کہنے کو بکواس لکھ


غزل مت لکھ سیدھی طرح سچ لکھ
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
آ میں تجھے بتاؤں کہ کیا تحریر کر


سعودی عبداللہ کو منافق لکھ


پاکستانی طالبان کو جانور لکھ


شام میں امریکیوں کی مداخلت کو لعنت لکھ


افغانستان میں فرقہ واریت کو پھٹکار لکھ


ایک دوسرے کو کافر کہنے کو بکواس لکھ


غزل مت لکھ سیدھی طرح سچ لکھ

سب لکھ دیا اب کچھ لکھو مظلوموں کے حق میں اگر دل ہے تو
 
Last edited:

Qureshi sb

Voter (50+ posts)
Beautifully copied thought from this article.

باقاعدہ لکھنے والے جانتے ہیں کہ کسی کسی دن ذہن بالکل خالی سکرین کی طرح ہوجاتا ہے۔ قلم کی نِب غصیلے گدھے کی طرح اینٹھ جاتی ہے۔ لاکھ ایڑ لگائیں آگے نہیں بڑھتی۔ موضوعات کی لاشیں ادھر ادھر بکھری ہوتی ہیں۔ پر سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کے چہرے سے کپڑا اٹھا کر دیکھیں، کس کی نبض ٹٹولیں، کس کے اکڑے ہوئے لاشے کو سیدھا کرنے کی کوشش کریں اور کس کے کھلے ہوئے ڈراؤنے منہ کو حروف کی روئی سے بند کرنے کا سوچیں۔ بالکل سجھائی نہیں دیتا کہ کون سے موضوع کا جسم ابھی بھی گرم ہے اور کونسا تعفن زدہ ہو رہا ہے۔
آج دن بھر حروف اور الفاظ کی خوشامد میں گذر گیا۔ لیکن کوئی حرف خوف سے پیچھے ہٹ گیا، کوئی لفظ غصے سے گھورنے لگا۔ کوئی طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنا کر کھسک لیا۔ کسی نے فحش اشارے شروع کردئیے، کسی نے دانت نکوس دیے اور کچھ حروف نے طنزیہ حملےشروع کردیے ۔
ابے علامہ اب تک تو نے ہمیں اتنی بے دردی سے استعمال کر کے کیا اکھاڑ لیا۔ کیا ہم کوئی زرِ خرید غلام ہیں کہ جب بھی کوئی اچھوتا فلسفہ بگھارنے کو تیرا دل چاہے گا تو ہم سرجھکا کے تیرے قدموں میں بیٹھ جائیں گے۔ ارے او داد پرست سستے کالم باز، کیا ہمیں آرام کرنے کا حق نہیں، ہمارا دل نہیں، ہماری اپنی کوئی زندگی نہیں۔ چل یہاں سے پھوٹ لے اور ہمیں بھی کچھ دیر کمر سیدھی کرنے دے۔
میں نے حرف و لفظ کو جذباتی کرنے کی بھی کوشش کی۔ یہاں تک کہا کہ کچھ شرم کرو خیبر پختونخوا کے ایک نڈر سیاست داں بشیر بلور کی موت پر ہی چند جملوں میں ڈھل جاؤ۔ یہ نہیں ہوسکتا تو شہدائے پولیو کو ہی خراجِ عقیدت پیش کردو یا پھر جناح اسپتال کراچی میں لائے جانے والے ایک زخمی کو اس کے مخالفین نے جس طرح ایمرجنسی وارڈ کے بستر پر پڑے پڑے کلاشنکوف سے بھون دیا، کچھ اس کی ہی لاج رکھ لو ۔
اور اگر تمہیں ان موضوعات پر ساتھ دینا گراں گزرتا ہے تو پھر ضلع دادو کے علاقے سیتا روڈ میں ایک ہزار لوگوں کے مجمع نے توہینِ قرآن کے الزام میں تھانے میں بند ایک شخص کو پولیس سے چھین کر ہلاک کر کے چوک میں اس کی لاش جو جلا دی ، اس واقعے پر ہی تین حرف بن جاؤ۔ لیکن کوئی حرف ٹس سے مس ہوا اور نا ہی کسی لفظ کے دل میں میرے لئے رحم پیدا ہوا۔
میری بے بسی اور حروف و الفاظ کی بے اعتنائی دیکھ کر ادھر ادھر کھڑے کچھ موضوعات میری طرف چلتے ہوئے آئے اور ہمدردانہ نگاہوں سے دیکھنے لگے۔
جیسے کیا اکیس دسمبر کو قیامت ٹل گئی ہے یا پھر اکیس دسمبر کو دراصل سور پھونکا جا چکا ہے جس کی آواز آہستہ ایک پرکیف نغمے کی طرح ابھرے گی اور پھر بلند ہوتی اور ہوتی اور ہوتی چلی جائے گی یہاں تک کہ اس کی شدت سے پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑنے لگیں۔
کیا موجودہ حالات میں اتتخابات کا بروقت انعقاد ممکن ہے ؟
علامہ طاہر القادری اب اپنی واسکٹ کی جیب میں کونسی اور کس کی گیدڑ سنگھی لائے ہیں ؟
کیا ستائیس دسمبر کو گڑھی خدا بخش کے مزار سے بلاول بھٹو کی نئی قیادت ابھرے گی؟ مگر سچی بات یہ ہے کہ خود میرا دل بھی حرف و لفظ کی بے مروتی سے بجھ سا گیا تھا لہٰذا میں نے ان موضوعات سے معذرت کرلی۔
ایک بات کہوں؟ واقعی میں اس وقت خالی پیپے کی طرح محسوس کر رہا ہوں۔ طرح طرح کے الٹے سیدھے خیالات آرہے ہیں۔ کراچی کے ساحل پر ٹہلنے والے مداری کا وہ بندر یاد آرہا ہے جو شام تک کرتب دکھاتے دکھاتے تھک کے چور ہوجاتا ہے پھر بھی تماشائیوں کے منورنجن کے لئے اسے مداری ڈنڈے کے اشاروں اور گلے میں بندھی رسی کے جھٹکوں سے ڈگڈگی کی ڈگ ڈگ پر کبھی جنٹل مین کی طرح چلواتا ہے، کبھی اسے آہنی چھلے میں سے گزرنے کا حکم دیتا ہے تو کبھی لکڑی کی چھوٹی سی پیڑھی پر صاحب لوگوں کی طرح ٹانگ پر ٹانگ رکھ کے بیٹھنے کی فرمائش جاری کر دیتا ہے۔ کیونکہ بچے تالیاں بجائیں گے تو ہی پیٹ بھرے گا۔
اور مجھے ایک پرانی بلیک اینڈ وائٹ ہندی فلم کا کوٹھا بھی بری طرح یاد آرہا ہے۔ جس پر شام ڈھلے تماشائی گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے اگال دان سامنے رکھے مورچھل کی ہوا کے سائے میں چھنو کے مجرے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور چھنو شدید اداسی کے عالم میں اپنے کمرے میں ٹہل رہی ہے۔ آج اس کا مجرا کرنے کا قطعاً موڈ نہیں لیکن نائکہ سر پے سوار ہے۔
بیٹی تماشائی منتظر ہیں۔ جلدی سے بندیا ٹھیک کر کے آجاؤ۔ مجھے تمہاری طبیعت کا پورا احساس ہے مگر ناچنا تو پڑے گا۔۔۔۔
اس وقت مجھے میرا قلم کبھی مداری لگ رہا ہے تو کبھی نائکہ ۔۔۔۔
بٹ دا شو مسٹ گو اون۔

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/12/121223_baat_say_baat_sa.shtml
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
آ میں تجھے بتاؤں کہ کیا تحریر کر


سعودی عبداللہ کو منافق لکھ


پاکستانی طالبان کو جانور لکھ


شام میں امریکیوں کی مداخلت کو لعنت لکھ


افغانستان میں فرقہ واریت کو پھٹکار لکھ


ایک دوسرے کو کافر کہنے کو بکواس لکھ


غزل مت لکھ سیدھی طرح سچ لکھ

ایک آخری بات تو رہ ہی گئی

اپنے کو' را طوطا ' لکھ ، جس کو بغیر عقل کے سب کچھ یاد ہوتا جو ملا سکھاۓ :lol:


یہ ہمارا بڑا پیارا را طوطا ہے جو عید کی چھٹیاں گزار کر واپس آ گیا ہے اپنی ڈیوٹی پر
 
Last edited: