[h=4]
[/h][h=4]
بندہ ایک ادنیٰ سا صحافی ہے جو نہ جانے کیا کیا سوچ کر قلم کی تلوار لے کر میدان صحافت میں اترا،اخبارات پڑھنا اور بچپن میں خبرنامہ دیکھنا کچھ ایسی عادات تھیں جن کی وجہ سے روح میں جاننے اور پوچھنے کا تجسس بڑھتا ہی گیا ،،جوان ہوئے تو پاکستانی میڈیا میں ایک فوجی کی بدولت انقلاب برپا ہوتے دیکھا،، اینکرز اور کالم نویسوں کو راتوں رات فلمی ستاروں کی جگہ سنبھالتے دیکھا،،پھر کیا تھا ،،لیا داخلہ لاہور کی ایک ماڈرن یونیورسٹی میں اور اساتذہ کے دکھائے ہوئے سہانے خواب آنکھوں میں سجا کر اورصحافت کی ڈگری ہاتھ میں پکڑے نکل پڑے نوکری کی تلاش میں،،کوئی جوبن نہ بن پایا تو ایک رئیس اور خدا ترس دوست نے اپنا انٹرٹینمینٹ چینل کھولنے کی نوید سنائی،،اسکے چینل میں نوکری ملی لیکن نیوز چینل میں کام نہ کرکے روح کو سکون نہ ملا،،کچھ عرصے بعد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایک بڑے چینل میں نوکری مل ہی گئی،،وقتی خوشی ملی کہ اب ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا اور سچی لگن کے ساتھ کام کرنے کا جذبہ دنیا کو دکھا دیں گے،،دوسری نوکری ملنے کے کچھ عرصے بعد ہی آہستہ آہستہ میڈیا کے رنگ اور چالاکیاں بھر پور طریقے سے سمجھ آنے لگی،،لوگوں سے سنا تھا کہ کئی ایسے ادارے بھی ہوتے ہیں جہاں ایک ماہ پوری لگن سے کام بھی کرلیا جائے تو تنخواہ نہیں ملتی،،اس میدان میں اترے تو حقیقت کھلی کہ نہ صرف کئی ماہ کی تنخواہ اکثر چینل نہیں دیتے بلکہ بن بتائے نوکری سے لات ماردینے کی روایت بھی اب ان چینل مالکان کی عادت سی بن گئی ہے،،چلئے صاحب یہ تو تھی پیٹ کی باتیں،،مگر دانتوں میں انگلیاں دبانے کی نوبت تب آئی جب دیکھا کہ کسطرح بڑے بڑے صحافی حضرات ان چینل مالکان (سیٹھوں) کے سامنے صبح شام اپنا ضمیر بیچنے میں مصروف عمل ہیں،،آئے روز مالکان کے خوشامدیوں سے پیغامات وصول کرنا تو اب جیسے ایک عادت بن گئی ہے،،فلاں سیاست دان کی کوئی خبر ،ٹکر نہیں چلے گا،،فلاں ادارے کیخلاف کچھ نہیں رپورٹ ہوگا،،فلاں خبر کو اسطرح چلانا ہے،، بیپر دیتے وقت الفاظ کی ادائیگی کا خاص خیال رکھنا ہے،،اور ایسا کام کرنا تو گناہ کبیرہ ہوگا جس میں کوئی ریٹنگ نہ آئے،،تنخواہ ملے نہ ملے،،عید شب رات کی چھٹی مانگنا تو تھپڑ کھا کر منہ لال کرنے کے معترادف ہے،،یہ ہرگز نہیں کہ چینل میں کام کرنے والے تمام حضرات اس کرب سے گزرتے ہیں،،کلیجے پر چھریاں چلتی ہیں جب ایک اینکر یا کسی اور پروگرام کے جوکر کو لاکھوں میں تنخواہ اور عزت ملتی ہے،،ان کیلئے دس دس ریسرچرز ،،پروڈیوسرز اور بہت سے لوازمات،،وہ چینل کی شان،،اور باقی بس مت پوچھئیے،، یقین مانیے ان اداروں کی زیادتیوں کی فہرست بہت لمبی ہے اور لکھنے کی جگہ کم،،بے شک صحافت شائد دنیا کی ایسی نوکری ہوگی جس کے ساتھ دوسری نوکری کرنا صرف ایک خواب ہی رہ جاتا ہے،،آج میں اور میرے دیگر نوجوان ساتھی اس دن کو کوستے ہیں جب اس صحافت کی چمک دمک دیکھ کر میدان میں اتر آئے تھے،،لیکن حضور فیصلہ کرلیا،،آج نہیں تو کل ،،یہ میدان چھوڑدینا ہے،،بھوکے رہ سکتے ہیں مگر ضمیر فروشی نہیں ہوتی،،نصیحت ہے ان نوجوانوں کیلئے جو مختلف تعلیمی اداروں کی چمک دمک میں پھنس کے دھڑا دھڑ صحافت میں داخلے لے کر اور بعدازاں ڈگریاں ہاتھ میں لیے بیٹھے ہیں،،ائے نوجوانوں،،ابھی بھی وقت ہے،،سنبھل جاو،،کچھ اور کرلو،،ہوش کے ناخن لو،،نوکریاں نہیں ہیں،،اگر ہیں تو بغیر تنخواہ اور ضمیر فروشی کے ساتھ،،پھر نہ کہنا کسی اجنبی نے مفت میں مشورہ بھی نہ دیا۔۔سوچ رہے ہو گے کہ اجنبی کیوں،،ارے بھائی جب تک کچھ اور نہیں ملتا تو نوکری تو کرنی ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
[/h]
Saach
بندہ ایک ادنیٰ سا صحافی ہے جو نہ جانے کیا کیا سوچ کر قلم کی تلوار لے کر میدان صحافت میں اترا،اخبارات پڑھنا اور بچپن میں خبرنامہ دیکھنا کچھ ایسی عادات تھیں جن کی وجہ سے روح میں جاننے اور پوچھنے کا تجسس بڑھتا ہی گیا ،،جوان ہوئے تو پاکستانی میڈیا میں ایک فوجی کی بدولت انقلاب برپا ہوتے دیکھا،، اینکرز اور کالم نویسوں کو راتوں رات فلمی ستاروں کی جگہ سنبھالتے دیکھا،،پھر کیا تھا ،،لیا داخلہ لاہور کی ایک ماڈرن یونیورسٹی میں اور اساتذہ کے دکھائے ہوئے سہانے خواب آنکھوں میں سجا کر اورصحافت کی ڈگری ہاتھ میں پکڑے نکل پڑے نوکری کی تلاش میں،،کوئی جوبن نہ بن پایا تو ایک رئیس اور خدا ترس دوست نے اپنا انٹرٹینمینٹ چینل کھولنے کی نوید سنائی،،اسکے چینل میں نوکری ملی لیکن نیوز چینل میں کام نہ کرکے روح کو سکون نہ ملا،،کچھ عرصے بعد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایک بڑے چینل میں نوکری مل ہی گئی،،وقتی خوشی ملی کہ اب ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا اور سچی لگن کے ساتھ کام کرنے کا جذبہ دنیا کو دکھا دیں گے،،دوسری نوکری ملنے کے کچھ عرصے بعد ہی آہستہ آہستہ میڈیا کے رنگ اور چالاکیاں بھر پور طریقے سے سمجھ آنے لگی،،لوگوں سے سنا تھا کہ کئی ایسے ادارے بھی ہوتے ہیں جہاں ایک ماہ پوری لگن سے کام بھی کرلیا جائے تو تنخواہ نہیں ملتی،،اس میدان میں اترے تو حقیقت کھلی کہ نہ صرف کئی ماہ کی تنخواہ اکثر چینل نہیں دیتے بلکہ بن بتائے نوکری سے لات ماردینے کی روایت بھی اب ان چینل مالکان کی عادت سی بن گئی ہے،،چلئے صاحب یہ تو تھی پیٹ کی باتیں،،مگر دانتوں میں انگلیاں دبانے کی نوبت تب آئی جب دیکھا کہ کسطرح بڑے بڑے صحافی حضرات ان چینل مالکان (سیٹھوں) کے سامنے صبح شام اپنا ضمیر بیچنے میں مصروف عمل ہیں،،آئے روز مالکان کے خوشامدیوں سے پیغامات وصول کرنا تو اب جیسے ایک عادت بن گئی ہے،،فلاں سیاست دان کی کوئی خبر ،ٹکر نہیں چلے گا،،فلاں ادارے کیخلاف کچھ نہیں رپورٹ ہوگا،،فلاں خبر کو اسطرح چلانا ہے،، بیپر دیتے وقت الفاظ کی ادائیگی کا خاص خیال رکھنا ہے،،اور ایسا کام کرنا تو گناہ کبیرہ ہوگا جس میں کوئی ریٹنگ نہ آئے،،تنخواہ ملے نہ ملے،،عید شب رات کی چھٹی مانگنا تو تھپڑ کھا کر منہ لال کرنے کے معترادف ہے،،یہ ہرگز نہیں کہ چینل میں کام کرنے والے تمام حضرات اس کرب سے گزرتے ہیں،،کلیجے پر چھریاں چلتی ہیں جب ایک اینکر یا کسی اور پروگرام کے جوکر کو لاکھوں میں تنخواہ اور عزت ملتی ہے،،ان کیلئے دس دس ریسرچرز ،،پروڈیوسرز اور بہت سے لوازمات،،وہ چینل کی شان،،اور باقی بس مت پوچھئیے،، یقین مانیے ان اداروں کی زیادتیوں کی فہرست بہت لمبی ہے اور لکھنے کی جگہ کم،،بے شک صحافت شائد دنیا کی ایسی نوکری ہوگی جس کے ساتھ دوسری نوکری کرنا صرف ایک خواب ہی رہ جاتا ہے،،آج میں اور میرے دیگر نوجوان ساتھی اس دن کو کوستے ہیں جب اس صحافت کی چمک دمک دیکھ کر میدان میں اتر آئے تھے،،لیکن حضور فیصلہ کرلیا،،آج نہیں تو کل ،،یہ میدان چھوڑدینا ہے،،بھوکے رہ سکتے ہیں مگر ضمیر فروشی نہیں ہوتی،،نصیحت ہے ان نوجوانوں کیلئے جو مختلف تعلیمی اداروں کی چمک دمک میں پھنس کے دھڑا دھڑ صحافت میں داخلے لے کر اور بعدازاں ڈگریاں ہاتھ میں لیے بیٹھے ہیں،،ائے نوجوانوں،،ابھی بھی وقت ہے،،سنبھل جاو،،کچھ اور کرلو،،ہوش کے ناخن لو،،نوکریاں نہیں ہیں،،اگر ہیں تو بغیر تنخواہ اور ضمیر فروشی کے ساتھ،،پھر نہ کہنا کسی اجنبی نے مفت میں مشورہ بھی نہ دیا۔۔سوچ رہے ہو گے کہ اجنبی کیوں،،ارے بھائی جب تک کچھ اور نہیں ملتا تو نوکری تو کرنی ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
[/h]
Saach