باسمتی چاول کی عالمی ملکیت: پاکستان کی بڑی کامیابی، بھارت کو شکست

rice-4.jpg

پاکستان نے عالمی سطح پر باسمتی چاول کی ملکیت کے تنازع میں ایک بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے، جس میں بھارت کو واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے باضابطہ طور پر باسمتی کو پاکستانی پراڈکٹ تسلیم کر لیا ہے، جبکہ یورپی یونین کی جانب سے بھی اسی قسم کے فیصلے کی توقع کی جا رہی ہے۔

پاکستان کے باسمتی چاول کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھارت کے دعوے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ تاریخی حوالہ جات اور بین الاقوامی تجارتی ماہرین کے مطابق، باسمتی چاول کی اصل جائے پیدائش پاکستان کے ضلع حافظ آباد میں ہے۔

بھارت کی جانب سے پاکستان کے حق کو چیلنج کرنے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں، جبکہ عالمی تجارتی ماہرین کی تحقیقات نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان ہی باسمتی چاول کا اصل پیداواری ملک ہے۔

پاکستان کا باسمتی چاول اپنی منفرد خوشبو، اعلیٰ معیار اور مناسب قیمتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبول ہے۔ پاکستان کی چاول برآمدات 4 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں، جس سے پاکستان نے 27 ارب ڈالر کے عالمی چاولی منڈی میں اپنی مضبوط حیثیت بنا لی ہے۔

پاکستان کے بڑھتے ہوئے برآمدی حجم سے پریشان ہو کر بھارت نے باسمتی چاول کی تجارت پر کنٹرول حاصل کرنے کی متعدد کوششیں کیں، مگر یہ اقدامات الٹے بھارت پر ہی بھاری پڑ گئے۔ چاول برآمد کرنے والے تاجر چوہدری تنویر کے مطابق، بھارت اصل باسمتی چاول پیدا ہی نہیں کرتا بلکہ پاکستان کے باسمتی چاول کو دبئی میں بھارتی برانڈ کے نام سے دوبارہ پیک کر کے عالمی منڈی میں فروخت کرتا ہے۔

بھارت کے دعووں کو مزید کمزور کرنے والے تاریخی شواہد کے مطابق، 1965 سے پہلے بھارت نے ایک دانہ باسمتی بھی برآمد نہیں کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) کو دیے گئے ڈیٹا کے مطابق، 1960 کی دہائی میں پاکستان پہلے ہی یورپ اور خلیجی ممالک کو باسمتی چاول برآمد کر رہا تھا، جبکہ بھارت اس تجارت میں موجود ہی نہیں تھا۔

تجارتی ماہر شمس الاسلام کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان باسمتی چاول کی ملکیت پر یورپی یونین میں جاری تنازعہ اگرچہ تاخیر کا شکار ہوا ہے، تاہم بین الاقوامی دانشورانہ املاک (Intellectual Property) کے قوانین کے تحت اصل پیداواری ملک کو ہی جغرافیائی شناخت (GI) کا حق حاصل ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کے اعتراضات بے بنیاد ہیں اور جی آئی سرٹیفکیشن پاکستان کا حق ہے۔

عالمی تجارت میں جغرافیائی شناخت (GI) کے حقوق کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے، باسمتی چاول کی ملکیت کا تحفظ پاکستان کے لیے نہ صرف معاشی بلکہ اسٹریٹجک طور پر بھی ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ اس کامیابی سے پاکستان کو عالمی منڈی میں اپنی برآمدات مزید بڑھانے اور بھارتی چالاکیوں کو روکنے کا موقع ملے گا۔
 

Shan ALi AK 27

Chief Minister (5k+ posts)
یہ ویسی ہی کامیانی ہے جیسی ١٩٦٥ میں لی تھی
خوب ذلیل ہونے کے بعد ہم نے اپنا علاقہ واپس لے لیا ہے 😂
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
باسمتی کا ریٹ مارکیٹ میں لے کر آوٗ۔ یہ سرٹیفیکیٹ سے کچھ نہیں ہوتا
کاشتکاروں کو بیج اچھا دو
بجلی اور پانی کا سستا نظام لے کر آوٗ
فضول کے ٹیکسوں سے کسان کی کمر نہ توڑو

۹۰ فیصد لوگ پراڈکٹ کی قیمت دیکھ کر متوجّہ ہوتے ہیں۔ وہاں بھارت ابھی بھی تمھاری مارے گا ۔۔۔۔ مارکیٹ
 

ahaseeb

Minister (2k+ posts)
Frankly India doesn't care much either. They're focused on IT and items that generate most money. We need to improve our yield and quality and then focus on products with highest returns. None the less, a win is a win
 

Back
Top