بادل اور بچپن کی یادیں

Haidar Ali Shah

MPA (400+ posts)
اہ کیا زبردست موسم ہے. یہ سرد ہوا یہ کالے بادل؛ پرندوں کی چہچاہٹ. دور سے مسافر بحری جہاز "آرورا" کھڑی ہے. شہر میں کئی غیر ملکی غیریورپین* میرے شہر کے بازاروں میں گھوم رہے ہونگے. اس شہر کا یہ باسی کام پر بیٹھا اس خوبصورت موسم کو اپنے تخیل میں موزوں الفاظ کا جامہ پہنانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے.جہاں میں کام کرتا ہو وہاں عمارتوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے گھاس سے بھرے پارکس ہیں.ان میں جا بجا زرد اور سفید پھول اٌگے ہوئے ہے. پارکس میں موجود خوبانی کا درخت پھولوں سے بھرا ہوا ہے. جب تیز ہوا چلتی ہے تو پھولوں کی نازک پتیاں ادھر اٌدھر اٌڑنے لگتے ہے. دل کرتا ہے کہ کام چھوڑ کر خوبانی کے نیچے گھاس پر لیٹ جاؤ. پھر انکھیں بند کرکے اپنے بچپن کی تلاش میں دبے پاؤں نکل جاؤ. اپنے پیارے دوستوں کو گھروں سے نکالو کہ چلو کرکٹ کھیلتے ہے.*چلو کوئی بات نہیں کرکٹ نہیں کھیلنی تو دریا کے کنارے چلتے ہے. پکنک کرلیتے ہے مچھلیاں بھون لینگے دریا کے کنارے کنارے نہا لینگے ابھی بارشیں شروع نہیں ہوئی ابھی برف پوش پہاڑوں کا برف پگھلا نہیں ابھی تیرنا جان لیوا نہیں. چلو گھر والوں سے جھوٹ بول لیتے ہے کہ ہم چشموں پر جا کے نہائینگے ہم دریا نہیں جائینگے چلو دوستوں یہ موسم بہار ہے ہر طرف پھول ہی پھول ہے. دوستوں دریا پر نہیں جانا کرکٹ نہیں کھیلنی کوئی بات نہیں بازار چلے جاتے ہے کسی جگہ بیٹھ کر پکوڑیں کھا لینگے بازار میں موجود دوستوں سے چائے پی لینگے. دوستوں تم چھپ کیوں ہو مجھے وحشت سی ہو رہی ہے. پیارے دوستوں کچھ تو بولو ایسا کیا ہوا ہے تم بت بنے کیوں کھڑے ہو؟ اچانک "ارورا" نے جانے کیلئے ہارن بجائی میں اپنے خیالات سے نکل آیا۔ میرا کوئی بھی دوست میرے سامنے نہیں کھڑا سب "ارورا" کی ہارن کے ساتھ غائب ہوگئے. میں اب بھی اپنی کرسی پر بیٹھا ہو خوبانی کے درخت اور میری کرسی کے درمیان ایک منٹ کا راستہ ہے لیکن اس کو پار کرنے کیلئے "بچہ" بننا پڑے گا. کالے بادلوں کے اوٹ میں افتاب نے چہرا نکال اپنی دید کرائی یا شاید میرا دیدار کر لیا سارا منظر بلیک این وائٹ سے بدل کر رنگین ہوگیا. یہ بھی اچھا منظر تھا لیکن بادلوں نے سورج کو اپنے پردوں میں چھپا لیا. شام تک سورج بادلوں کو شکست نہیں دے گا شاید آج رات بادل برس جائے. اچانک خوبانی کے کی ٹہنیاں ہلنے لگی اور پھولوں کی پتیاں ہواؤں میں اٍڑنے لگی اور میں پھر خیالوں میں............... "دوستوں چلو سعودی چلتے ہیں؛امارت چلتے ہیں یار یورپ چلتے ہیں اس ملک میں خاک چھاننے کا کوئی فائدہ نہیں. دوستوں یہ ڈگریاں جلا دو یہی بے معنی کاغذات ہمارے پیروں کی زنجیر بنے ہوئے ہے". سب دوست سامان باندھ کر ماؤں کو روتا چھوڑ کر مجھ سے باری باری گلے مل کر ائیرپورٹ کیطرف چلے جاتے ہیں اور میں حیران ہو کہ یہ کیا ہوگیا ہم اگر اسکول اکھٹے جا سکتے تھے؛ نہانے جا سکتے تھے تو اکھٹے ایک ہی ملک ایک ہی شہر کیوں نہیں جاسکتے؟* شاید بچپن کے بعد نصیب "اپنا اپنا" ہوتا ہے۔ بچپن میں محبتیں خلوص سے بھری ہوتی ہے اسلئے بچے اپنے نصیب کو دوسروں دوستوں کے ساتھ بانٹتے ہے پھر جیسے جیسے "عقل" آتی ہے "خلوص" نصیب اور حرص کے بادلوں میں چھپ جاتا ہے. محبت کے پتے حالات کے ہواؤں میں اٌڑ جاتے ہے. زندگی خوبانی کے درخت کیطرح آہستہ آہستہ محبت کے پتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے پھر صرف "خیالات" رہ جاتے ہے جو گلے ملتے دوست احسان کرکے پاس چھوڑ جاتے ہیں
 
Last edited:

Back
Top