صدیاں گزر گئیں آج کے بادشاہ یا حکمران بھی اسی مصنوعی دنیا میں رہتے ہیں جہاں اینڈرسن کا بادشاہ رہتا ہے، وہی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش اور وہی سچ سے دوری اور جھوٹ کا سہارا۔
تضادستان کا بادشاہ تو پہلے ہی بہت طاقتور تھا اس کی پرانی پوشاک بھی اختیارات سے مزین تھی لیکن کئی سیاہ پوش منصفوں کو غلط فہمی ہو گئی تھی کہ وہ شہرت کے گھوڑے پر سوار ہو کر بادشاہ کے منصوبے ناکام بنا دینگے، اس کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیکر بابا منصف کو عملی بادشاہ بنا دیں گے۔ مگر وہ جنرل آصف نواز کا یہ قول بھول گئے کہ جس کی چھنگلی (جھوٹی انگلی یا پنجابی میں چیچی) کے اشارے سے 6لاکھ مسلح آدمی اِدھر سے اُدھر ہو جائیں اس کی بادشاہت کو چیلنج کرنا فی الحال ممکن نہیں اور پھر وہی ہوا جو طاقت کے کھیل میں ہوتا ہے، سیاہ پوش منصف کہیں کے نہ رہے، نہ عہدے ملے نہ اختیار رہا ،نہ حکومت بدلنے کے خواب پورے ہوئے اور نہ ہی وہ ہیرو بن سکے۔ سیاہ پوش منصف نام کے تو شاہ تھے مگر طاقت کے کھیل میں پیادے جیسی حکمت عملی بھی نہ دکھا سکے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ بادشاہ اختیارات کے نئے کپڑے پہن چکا ہے، اس وقت وہ طاقت کے نصف النہار پرہے پہلے اسے کبھی عدلیہ، کبھی اپنے گھر اور کبھی کپتان سے خطرہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ سارے اس کی بنائی ہوئی عمارت کو توڑنا چاہتے تھے مگر اس نے سب کو شکست دے ڈالی ہے توسیع اور توثیق کے چکروں سے نکل کر وہ طاقت کے سنگھاسن پر پوری قوت سے براجمان ہے۔
کہتے ہیں کہ طاقت اور اختیار آ جائے تو ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں، آج سے بادشاہ کا نیا دور شروع ہے، سب سے بڑا سٹیک ہولڈر وہ خود ہے یا اس کے چند ساتھی۔ اب اسے ریاست کی ساری منصوبہ بندی کرنی پڑے گی اگر وہ سیاست سے تائب رہا اور پرانے مہروں کے ساتھ ہی کھیلنے پر اصرار کیا تو کوئی نہ کوئی بچہ اسے ننگا کہہ دے گا۔ اب تضادستان کی خرابیوں اور خوبیوں کا سب سے بڑا ذمہ دار وہ ہے نونی یا پپلے نہیں۔ انہوں نے تو اختیارات کی سنہری تاروں والی پوشاک پہنا کر اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے ہیں، اب جو کرنا ہے بادشاہ نے کرنا ہے۔
بادشاہ کا پہلا چیلنج سکیورٹی ہے۔ بلوچستان اور پختونخوا میں ہر روز کے انسانی نقصانات بہت بڑا چیلنج بن گئے ہیں۔ بادشاہ کو نئے سرے سے اس معاملے پر سوچنا ہو گا۔ 75سال کی بلوچستان جنگ میں مسلسل فوجی آپریشن حالات کو خراب سے خراب تر کر رہے ہیں۔ افغانستان سے آنے والے خطرات بڑھ رہے ہیں، ہماری طالبان سے نہ دوستی کام آ رہی ہے اور نہ ہماری دھمکیاں۔ بادشاہ کو نئے کپڑے پہننے کے بعد اس حکمت عملی پر ازسرنو غور کرنا ہو گا۔ سیاسی عدم استحکام اور قیدی 804 کا مستقبل بھی طے کرنا باقی ہے۔ قیدی، قومی حکومت میں اپنی پارٹی کو شامل کر دے تو ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔ قیدی اگر سارے نظام کو توڑ کر غالب آنے کی خواہش چھوڑدے اور کمزور پارٹنر کے طور پر نئے نظام کو مان لے تو مصالحت ہو سکتی ہے۔
نئے کپڑے پہننے والے بادشاہ کی صرف اور صرف ایک خواہش ہے کہ استحکام آئے اور ملک آگے چلے۔ تحریک انصاف دو سال کے وقفے کیلئے خاموشی اور قومی حکومت میں شمولیت مان لے تو آج ہی ملکی صورتحال تبدیل ہو جائے گی۔ کوئی مانے نہ مانے آج سے بادشاہ کی نئی سیاست بھی شروع ہو چکی ہے، اب وہ سیاست کے نئے مہروں سے کھیلے گا۔ پہلے اسے نونی اور پیپلز پارٹی کی بیساکھیوں کی ضرورت تھی، اسے سیاسی حمایت سے اپنے لیےقانونی اور اخلاقی جواز چاہئے تھا جو اسے مل چکا، بلکہ ضرورت سے زیادہ مل چکا۔ اب اسے بیساکھیوںکی ضرورت نہیں، لاٹھی اب اس کے پاس ہے۔ وہ اس لاٹھی سے سیاسی نظام کا ہانکا کرے گا اور اپنے پسندیدہ اور نئے چہرے لائے گا اور ایک نیا سیاسی گروہ جنم لے گا جو ڈیلیور کرے، بادشاہ ننگا نہ لگے، کارکردگی اور بیانیے سے بادشاہ کی پوشاک مرصع نظر آئے۔
بادشاہ کا دوسرا بڑا چیلنج معیشت ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کا خواب ابھی تک پورا نہیں ہو پا رہا چین کو سکیورٹی خدشات نے پریشان کر رکھا ہے۔ خلیجی ممالک وعدے تو کرتے ہیں عمل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ امریکہ سے امید نہیں۔ کچھ نئی حکمت عملی اپنانی پڑے گی۔ بادشاہ کی کامیابی کا انحصار سیاسی اور معاشی استحکام پر ہے، اس نے پوشاک پہنے نظر آنا ہے تو خود میدان میں اترنا ہو گا وگرنہ کل کو گلی کا کوئی معصوم اور گستاخ بچہ یہ کہہ دے گا کہ بادشاہ ننگا ہے!!!