بادشاہ وقت کے تخت کو جھٹکے
آزادی مارچ اور انقلاب مارچ اپنے آخری مراحل میں داخل ہو گئے ہیں, دھرنا دینے والے مزاحمت کاروں نے 'بادشاہ سلامت' کے تخت کو اتنے جھٹکے لگا دیے ہیں کہ اب اگرتخت بچ بھی جائے تو ہلی ہوئی چولوں کے ساتھ بادشاہ وقت زیادہ عرصہ اقتدار کے مزے نہیں لوٹ سکیں گے, اور اتفاق فونڈری کا سریا اب کافی نرم پڑ گیا ہے, اب توبادشاہ وقت اسمبلی (خواہ جعلی اور جھوٹی ہی سہی) کا بھی چکر لگا لیتے ہیں
بادشاہ وقت کےاقتدارکے حلوے میں عام لوگوں (لوئراور لوئر مڈل کلاس) اورخوشحال طبقے (مڈل اوراپر مڈل کلاس) نے اتنے کنکرڈال دیے ہیں کہ بادشاہ کا سارا مزہ اب 'بد مزہ' بن چکا ہے اور باقی کا سارا وقت اب یہ کنکر چننے میں ہی نکل جائے گا, اور اقتدار کی دیگ کے باقی 'حصے دار' (زرداری, فضلو, طافو, اچکزئی, شیرپاؤ اور دیگر) اب اپنا 'جائز حصہ' مانگ مانگ کر بادشاہ وقت کو پریشان کیے رکھیں گے اور اندھا بانٹے ریوڑیاں مڑ مڑ اپنوں اپنوں میں والی کہانی اب خاتمے کی جانب سفر شروع کرے گی (اورریوڑ نما قوم کی بد قسمتی دیکھیے کہ) وہی چند کرپٹ خاندان عملی طور پر اس ملک کے وسائل پر قبضہ کر لیں گے جو 66 سالوں سے اس پر قابض تھے اور پچھلے ایک سال میں اقتدار کی جو دیگ ایک خاندان کی پلیٹیں بھر رہی تھی اب اس میں چند درجن خاندانوں کے آٹھ نو سو مزید حصے دار اپنا اپنا حصہ وصول کریں گے
اینٹی سٹیٹس کو قوتیں ایک بار ناکام بھی ہو جائیں تو جو ڈینٹ انھوں نے گزشتہ کچھ دنوں میں ڈال دیا ہے وہ اتنی آسانی سے نہیں نکلے گا- سترہ لوگوں کے بہیمانہ قتل اور 100 کے قریب زخمیوں کی ایف آئی آر تو شاید درج ہو جائے لیکن موجودہ نظام انصاف سے کوئی امید نہیں کہ وہ موجودہ حکمرانوں کے ہوتے ہوئے انصاف پر مبنی فیصلہ کر کے قصورواروں کوسزا بھی دے سکے کیونکہ اس ملک میں قانون,سزائیں اور'مقدس آئین' صرف کمزور کے لئے ہے, اور یہ ہی وہ وجہ ہے جو آج ہزاروں لاکھوں لوگوں کواسلام آباد جیسے شہر کی سڑکوں تک لے آئی ہے
سیاسی مافیاز نے میڈیا اور سول سوسائٹی کے کچھ بے ضمیر اور بکاؤ طبقات سے مل کر اس جعلی جمہوریت اور ظلم کے نظام کو بچانے کی جو سر توڑکوششیں کی ہیں وہ سب کے سامنے ہیں لیکن سچائی کا پانی اپنا رستہ بنا لیتا ہے اور مزاحمت کی یہ جدوجہد کسی نہ کسی شکل میں زندہ رہے گی, اور جس دن اللہ کو منظور ہوا اس دن اس ملک میں وہ تبدیلی اور نظام آئے گا جس کے لئے یہ بنایا گیا تھا, لیکن ابھی بہت کوشش باقی ہے
عمران خان اور طاہرالقادری کی ذات پر کیے جانے والے حملے وقت کے ساتھ اپنا اثر کھو دیں گے اور یہ روزوشب تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہو جائیں گے کہ کس طرح ملک میں ایک طبقہ ظلم کے نظام کے خلاف کھڑا ہوا تھا اور ملک کو مافیاز کے تسلط سے آزاد کرانے کی تحریک کا آغاز ہوا تھا کیونکہ غیرت مند لوگوں نے غلامی قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے
جو لوگ تعصب کی عینک کے باعث یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو وزیر اعظم کی کرسی یا پروٹو کول کی خواہش ہے تو وہ شاید نہیں جانتے کہ پاکستان کی تاریخ میں عمران خان سے بڑا سپر سٹار پیدا نہیں ہوا, اور عالمی شہرت کے جو مزے عمران خان نے لیے ہیں اس ملک کا بڑے سے بڑا حاکم بھی اس تک نہیں پہنچ سکتا, اور قائد اعظم کی وفات کے بعد سربراہ حکومت و ریاست کی کرسی کی تکریم بحال ہی اس دن ہو گی جس دن اس پر عمران خان جیسا کوئی دلیر لیڈر براجمان ہو گا, ابھی تو سیاسی کمی کمینوں اور سماجی مافیاز کا راج ہے جو بضد ہیں کہ اسے جمہوریت مانا جائے, اور جو حقیقی مغربی جمہوری معاشروں پر نگاہ رکھتے ہیں وہ اس جعلی کھسرہ نما جمہوریت کو تسلیم نہیں کریں گے
ووٹ کے تقدس کی جنگ لڑنے پر عمران تجھے سلام
معصوموں کے خون اور عوام کے بنیادی انسانی وآئینی حقوق کی جنگ لڑنے پر قادری کی جرآت کو سلام