دیکھیے! کہیں ہم سے تو اس فرمان کی مخالفت نہیں ہو رہی، اکثر لوگ جو دین کا علم نہیں رکھتے، وہ فرض جماعت کے ہوتے ہوئے پچھلی صفوں میں سنتیں پڑھ رہے ہوتے ہیں،جس سے نہ فرض ادا ہوئے اور نہ سنتیں۔
جب جماعت کھڑی ہو تو جماعت کے ساتھ مل جائیں اور فرض نماز ادا کرنے کے بعد سنتیں ادا کر لیں ۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : إذا أتى أحدكم الصلاة والإمام على حال فليصنع كما يصنع الإمام جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے آئےاور امام کسی بھی حالت میں ہو تو وہ ویسے ہی کرے جس طرح امام کر رہا ہے ۔ جامع الترمذی : 591 لہذا جب بھی کوئی شخص مسجد میں داخل ہو اور جماعت کھڑی ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ فورا امام کے ساتھ مل جائے خواہ امام قیام میں ہو, رکوع میں ہو, سجدہ میں ہو, یا تشہد میں, کیونکہ فورا امام والی حالت میں چلے جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ نہ تو امام کے اگلے رکن میں داخل ہونے کا انتظار کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی سنتیں یا نوافل ادا کرنے کی رخصت ۔ بلکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ جب اقامت کہہ دی جائے تواسکے بعد فرضی نماز کے علاوہ کوئی نماز نہیں ہوتی ۔ سنن أبي داود: 1266 اسی طرح مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَثَ بِهِ النَّاسُ، وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الصُّبْحَ أَرْبَعًا، الصُّبْحَ أَرْبَعًا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ فجر کی اقامت ہو جانے کے بعد دو رکعتیں پڑھ رہا تھا , تو جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم جماعت کروا کر فارغ ہوئے تو لوگوں نے اسے گھیر لیا اور رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : کیا صبح کی چار رکعتیں ہیں ؟ کیا صبح کی چار رکعتیں ہیں؟ صحيح البخاري: 663 یعنی فجر کی فرضی نماز تو دو رکعتیں ہی ہے اور اقامت کے بعد صرف فرضی نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ تو یہ اقامت کے بعد بھی کیا پڑھ رہا تھا؟ گویا اسے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ڈانٹ دیا۔ فجر کی فرض نماز کے بعد سورج طلوع ہونے تک کوئی بھی نفلی نماز نہیں پڑھی جاسکتی ۔ البتہ اگر کسی کی فجر کی سنتیں رہ جائیں تو وہ انہیں فجر کی نماز کے فورا بعد بھی ا دا کر سکتا ہے ۔ قیس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الصُّبْحَ، ثُمَّ انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَنِي أُصَلِّي، فَقَالَ: مَهْلًا يَا قَيْسُ، أَصَلَاتَانِ مَعًا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمْ أَكُنْ رَكَعْتُ رَكْعَتَيِ الفَجْرِ، قَالَ: فَلَا إِذَنْ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم جماعت کروانے کے لیے تشریف لائے , اقامت کہی گئی , میں نے بھی آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی , پھر جب آپ فارغ ہوئے تو مجھے دیکھا کہ میں نمازپڑھنے لگا ہوں, تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے قیس! ٹھہرو! کیا دو نمازیں اکٹھی پڑھ رہے ہو؟ تو میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم میں نے فجر کی دو سنتیں ادا نہیں کی تھیں, تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کوئی حرج نہیں ۔ جامع الترمذي: 422 اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فجر کی نماز کے بعد نوافل پڑھنا منع ہے البتہ فجر کی سنتیں ادا کی جاسکتی ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ۔