بائیں اور دائیں کے درمیان

Osama Altaf

MPA (400+ posts)
بائیں اور دائیں کے درمیان




انسان کی سوچ انسان کے افعال و اقوال کی رہنما ہوتی ہے،انسان اپنی سوچ ،اپنے اعتقاد کے تحت زندگی میں مختلف اقدامات اٹھاتا اور مختلف فیصلہ کرتا ہے۔انسانی سوچ کی اہمیت اس وقت بڑھ جاتی ہے جب یہ سوچ ذاتی مصلحتوں اور شخصی اغراض کی حدودو سے نکل کر معاشرہ کے مسائل اور ان کے حل پر استعمال ہوتی ہے،کیونکہ ایک فرد کی ذاتی سوچ جس کے وہ ذاتی نتائج بھگت رہاتھا(اچھے ہو یا برے) جب معاشرے کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوگی تو اس سوچ سے پورا معاشرہ اثر انداز ہوگا۔
چھٹی صدی ہجری میں مسلمان اندرونی خلفشار اور بیرونی حملوں کا شکار تھے،شام سے عماد الدین زنکیؒ کی ذاتی سوچ نے مسلمانوں کو ایک جھندے تلے جمع کیا اور مسلمانوں کی ہزیمت فتح میں بدل گئی،اس کے برعکس بیسوی صدی عیسوی میں خلافت عثمانیہ آخری سانس لیں رہی تھی اور مسلمان ممالک میں یورپی اثر و نفوذ مستقل بڑھ رہا تھا،ترکی کے سیاسی منظر نامہ پر مصطفی کمال اتاتورک ظاہر ہوئے اور ان کی ذاتی سوچ کے نتیجہ میں نہ صرف خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا بلکہ ترکی میں بے دینی و بد دینی کی ایسی فضا قائم ہوئی کے آج تک اس کے منفی اثرات باقی ہے،یہ ذاتی سوچ کی طاقت ہے،جب اس سوچ کو بڑا منصب یا کثیر تعداد حامی مل جاتے ہیں تو اس سوچ کے( منفی یا مثبت) اثرات گہرے اور دیر پا ہوتے ہے، جیسا کہ سابقہ دو مثالوں میں ذکر کیا گیا۔
اس مقدمہ کے پیش نظر مسلمانوں کے موجودہ مسائل کی طرف اگر ایک نظر دوڑائیں اور ان سوچوں کا جائزہ لیں جو موجودہ مسائل کا حل تلاش کر رہی ہیں تو اولا ایک خوش آئند بات سامنے آئیگی کہ کم از کم مسائل کے حل کی کوششیں تو کی جارہی ہیں،طریقہ کار میں اختلاف بھی وقت کے ساتھ ساتھ ان شاء اللہ محدود ہوجائیگا۔
مجموعی طور پر اگر امت مسلمہ کا جائزہ لیا جائے تو بنیادی طور پر دو بڑی سوچیں ہے جو امت کے مسائل کاحل اپنے اپنے طریقوں سے پیش کر رہی ہے،ایک طرف سیکولر لبرلزم ہیں جو مسائل کا حل دینی و دنیوی امور کے دائرہ کار کو علیحدہ علیحدہ کرنے میں بتلاتی ہے،دین کا دائرہ کار ارکان اسلام ادا کرنے تک محدود ہو، جبکہ اجتماعی امور (سیاست،معاشیت وغیرہ) میں دینی اصول و ضوابط سے مکمل آزاد ی ہو،اس سوچ کے حامل افراد یہ دلیل دیتے ہیں کہ کچھ صدیوں قبل یورپ بھی دینی راہبوں اور کنیسہ کا تابع تھا،اس زمانہ یں یورپی ممالک اندھیر ویرانے میں تھے،لیکن انقلاب فرانس کے بعد جب یورپی ممالک دینی حدود سے آزاد ہوئے تو تمدن و ترقی میں پوری دنیا کی قیادت کرنے لگے،لہذا مسلمانوں کو بھی دینی حدود سے آزاد ہونا ہوگا۔دوسری طرف یہ سوچ ہے کہ عالم اسلام کے موجودہ تمام مساءٗل کا حل دین کی طرف لوٹنے اور دینی رہنماوں کی اتباع میں ہے،اس سوچ کے حامل افراد کی یہ دلیل ہے کہ مسلمان جب دینی اصول پر کاربند تھے تو اس زمانے کی سپر پاورز بھی مسلمانوں کی ماتحت تھی۔
یہ دو بڑی سوچیں عالم اسلام میں رائج ہیں،اور دونوں میں اختلافات معمول کی بات ہے،ضروری امر یہ ہے کی دونوں سوچوں میں انتہا پسندی ناقابل قبول ہے،دین کو اجتماعی امور سے مکمل علیحدہ کرنا عقل سے بعید ہے،یقیناًیورپ نے ترقی کی ہے،لیکن یورپی ممالک میں اخلاقی تنزلی انتہائی نچلے درجے پر ہے جس کی وجہ دینی حدود کی پامالی ہے،اسی طرح اقوام عالم کے تجربات اور نظریات کو سرے سے پس پشت ڈال دینا اور صرف عبادات پر اکتفاء کرنا مفید نہیں ،بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ دور جدیدکے تقاضوں کو اسلام کے اصولوں میں ڈھال کر اور اسلامی ضوابط کے تحت ترقی کی راہ اختیار کی جائے،عبادات میں کمزوری کی علماء اصلاح کریں،اور جدید علوم کے ماہرین مغربی تجربات کو بد دینی کے شوائب سے پاک کر کے امت کے سامنے پیش کریں،تاکہ ترقی مادیت یا رہبانیت کی شکل اختیار نہ کرجائے۔

Osama Altaf
 

Back
Top