اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو ذکر الٰہی کی طرف لپکو

Amal

Chief Minister (5k+ posts)

بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ


يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِذَا نُـوْدِىَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّـٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذٰلِكُمْ خَيْـرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ (9)
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو ذکر الٰہی کی طرف لپکو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، تمہارے لیے یہی بات بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔


اس رکوع میں نماز جمعہ کے احکام اور آداب کا ذکر فرمایا جا رہا ہے ۔ یہاں مخاطب صرف فرزندان اسلام ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اے ایمان والو! جب تم نماز جمعہ کی اذان سنو تو جلدی سے اللہ کے ذکر کی طرف پہنچنے کی کوشش کرو اور اسی وقت خرید وفروخت بند کردو۔ نودی سے مراد جمعہ کی اذان ہے اور احناف کے نزدیک یہ پہلی اذان ہے جو خطبہ سے کچھ دیر پہلے دی جاتی ہے ۔ اسعوا کا معنی دوڑنا یا بھاگنا نہیں ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بھاگ کر نماز میں شرکت کرنے سے منع فرمایا ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا نماز کی اقامت سنو تو بھاگ کر نہ آؤ بلکہ بڑے سکون اور وقار کے ساتھ نماز کی طرف آؤ ۔ جو رکعتیں مل جائیں وہ امام کے ساتھ پڑھو اور جو فوت ہوجائیں انہیں سلام کے بعد پورا کرو۔
اس لیے علماء نے سعی کا معنی یہ کیا ہے اخلاص النیۃ والعمل یعنی ارادہ کرلو اور وہاں جانے کی تیاری شروع کردو۔
صرف خرید وفروخت کو ختم کرنے پابند کرنے کا حکم نہیں بلکہ تمام وہ مشاغل جو جمعہ کی حاضری میں رکاوٹ بن سکیں تمام کو ترک کرنا ضروری ہے اور خرید وفروخت کا خصوصی ذکر اس لیے ہوا کہ جمعہ کے روز لوگ باہر سے آتے اور بیچنے کے لیے اپنا سامان بھی لاتے اور شہر سے اپنی ضروریات خرید کر بھی لے جاتے۔ ملحقہ بستیوں کے لوگوں کے آنے کی وجہ سے جمعہ کے دن بڑی چہل پہل ہوجاتی اور خرید وفروخت کا بازار خوب گرم ہوجاتا اس لیے خصوصیت سے وذروا البیع کا حکم فرمایا گیا ۔
یعنی خرید وفروخت اور جملہ مشاغل کو پس پشت ڈال کر مکمل تیاری سے نماز جمعہ میں حاضری تمہارے لیے تمام چیزوں سے زیادہ سود مند اور نفع بخش ہے ۔

جمعہ کی وجہ تسمیہ، اس کی ابتداء اور جمعہ کے بارے میں چند ضروری مسائل بالاختصار کردیے جاتے ہیں

زمانہ جہالت میں اس دن کو عروبہ کہا جاتا تھا ۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ حضور کے جد امجد کعب بن لؤی اس روز قریش کو اکٹھا کر کے خطبہ دیا کرتے تھے اور انہیں حضور سرور عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بعثت کی خوشخبری سناتے اور انہیں تاکید کرتے کہ حضور پر ایمان لائیں اور حضور کی نصرت میں غفلت سے کام نہ لیں ۔
حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پہلے حضرت مصعب ابن عمیر کو تبلیغ کیلیے یثرب روانہ کیا تھا : ان کی مساعی جمیلہ سے یثرب کے کافی لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ہفتہ میں یہودی ایک دن یوم سبت مل کر عبادت کرتے ہیں۔ اسی طرح نصاریٰ اتوار کو اجتماع کرتے ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہفتہ میں کوئی دن مقرر کریں۔ اس دن سب چھوٹے بڑے اکٹھے ہو کر اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی عبادت کریں اور اس کا شکر ادا کریں۔ انہوں نے اپنے اس اجتماع کے لیے عروبہ کا دن منتخب کیا۔ چنانچہ اس روز یثرب کے سارے مسلمان اکٹھے ہوئے اور حضرت اسعد ابن زرارہ نے خطبہ دیا اور نماز پڑھائی۔ یہ پہلا جمعہ تھا جو ادا کیا گیا۔ حضرت کعب ابن مالک جب جمعہ کی اذان سنتے تو دعا مانگتے کہ اے اللہ سب پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ چنانچہ ان مسلمانوں کی ایمانی بصیرت نے دو چیزوں کی طرف ان کی رہنمائی کی۔ ایک یہ کہ انہیں ہفتہ میں ایک روز عبادت، ذکر اور شکر کے لیے مخصوص کرنا چاہیے۔ دوسری یہ کہ وہ دن ہفتہ اور اتوار نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کے علاوہ کوئی اور دن مقرر کرنا چاہیے۔ تاکہ ہماری ملی انفرادیت برقرار اور نمایاں ہو۔ یہ فیصلہ انہوں نے ازروئے اجتہاد کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اجتہاد پر مہر تصدیق ثبت کردی اور اس وقت سے اس دن کا نام عروبہ سے یوم الجمعہ ہوگیا اور اسی نام کو پھر مقبولیت عام اور شہرت دوام حاصل ہوگئی ۔ رحمت عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) مکہ سے ہجرت کر کے تشریف لائے تو چند روز یثرب کی نواحی بستی قبا میں قیام فرمایا اور مسجد قبا کی بنیاد رکھی۔ سوموار، منگل، بدھ ، جمعرات قبا میں ہی ٹھہرے اور جمعہ کے روز وہاں سے یثرب کی طرف روانہ ہوئے تاکہ اسے مدینہ طیبہ بننے کا شرف عطا فرمائیں۔ بنی سالم بن عوف کی وادی میں پہنچے تو نماز جمعہ کا وقت ہوگیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے وہیں توقف فرمایا ۔ خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور نماز جمعہ پڑھائی۔ یہ پہلا جمعہ ہے جو حضور رحمتِ دو عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ادا کیا۔

چند مسائل

جمعہ فرض عین ہے ۔ اس کی فرضیت کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت ہے اور اس کا انکار کفر ہے ۔ قرآن کریم کی یہ آیت جمعہ کی فرضیت کی محکم دلیل ہے ۔ ارشاد ہے کہ جب نماز جمعہ کی اذان سنو تو سب کاروبار فورا چھوڑ دو اور تیزی سے اس کو ادا کرنے کے لیے روانہ ہوجاؤ۔
سعی کا حکم اور خرید وفروخت چھوڑ دینے کا امر اس کی فرضیت پر واضح دلالت کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ بکثرت احادیث موجود ہیں جن سے اس کی فرضیت کا پتہ چلتا ہے ۔
حضرت ابی عمر اور حضرت ابی ہریرہ کہتے ہیں ہم نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو منبر پر بیٹھے ہوئے یہ فرماتے سنا جو لوگ جمعہ ترک کرتے ہیں وہ اس سے ضرور باز آجائیں ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا اور وہ غافل ہوجائیں گے ۔ (رواہ مسلم)
حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا جس نے نماز جمعہ کو معمولی اور حقیر سمجھتے ہوئے تین جمعے ترک کیے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے گا۔(ابو داوٗد، ترمذی، نسائی)
حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اس پر جمعہ فرض ہے ۔ سوائے مریض، مسافر، عورت، نابالغ اور غلام کے ۔ جو شخص کسی لہوولعب یا تجارت کے باعث اس سے بےپرواہی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بےپرواہی کرے گا اور اللہ تعالیٰ غنی اور حمید ہے۔ (الدارقطنی)
ہر شخص پر جمعہ فرض ہے اور جس نے اس کو فرض کفایہ کہا ہے وہ بالکل غلط ہے۔
مسئلہ : جن لوگوں پر جمعہ فرض نہیں ۃے یہ اگر ادا کریں گے تو ہوجائے گا۔ نابینا شخص جس کو پکڑ کر مسجد تک لے جانے والا کوئی نہ ہو اس کا شمار بھی بیماروں میں ہے ۔ اس پر جمعہ فرض نہیں۔
مسئلہ: امام صاحب کے نزدیک جمعہ کی ادائیگی کے لیے اذن شرط ہے۔
مسئلہ: انعقاد جمعہ کے لیے خطبہ شرط ہے ۔ خطبہ کے بغیر جمعہ نہیں ہوسکتا۔ خطبہ میں پانچ چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ حمد باری تعالیٰ درود وسلام، تقویٰ کی وصیت ، قرأت قرآن اور اہل ایمان کے لیے دعا۔
مسئلہ: اگر امام کے سالام پھیرنے سے پہلے کوئی آدمی شریک ہوجائے گا تو وہ اٹھ کر دو رکعت ہی پڑھے گا۔ امام صاحب کے نزدیک اس کی نماز جمعہ ادا ہوجائے گی۔ بعض ائمہ فقہ کے نزدیک اگر نماز جمعہ کی ایک رکعت امام کے ساتھ پا لے گا تو اس کی نماز جمعہ ہوگی ورنہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد ظہر کی چار رکعتیں ادا کرے گا۔
چندچیزیں نماز جمعہ کے لیے مسنون ہیں۔ حضور کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان کے کرنے کے متعلق ارشاد فرمایا ہے ۔ جمعہ کے روز غسل کرے۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اذا جاء احدکم الی الجمعۃ فلیغتسل (متفق علیہ) جب کوئی شخص نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے آئے تو غسل کرے، نئے یادھلے ہوئے کپڑے پہننا، مسواک کرنا، خوشبو لگانا مسنون ہے۔
حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے، مسواک کرے، اگر اس کے پاس خوشبو ہو تو وہ لگائے اور اچھا لباس پہنے، پھر گھر سے نکل کر مسجد کی طرف آئے۔ پھر لوگوں کی گردنوں کو پھاندتا ہوا آگے نہ جائے اور پھر اللہ کی توفیق سے نفل پڑھتا رہے اور جب امام خطبہ دینے کے لیے آئے تو خاموشی سے بیٹھ جائے تو اس کا یہ عمل کفارہ بن جائے گا ان کوتاہیوں اور غفلتوں کا جو گزشتہ جمعہ سے اس جمعہ تک اس سے سرزد ہوئی ہیں۔(ابو داوٗد
جمعہ کے دن کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث مذکور ہیں۔
اوس بن اوس کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن وفات پائی اسی دن صورت پھونکا جائے گا مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جائے گا جبکہ آپ خاک میں مل چکے ہوں گے حضور نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء کے جسموں کو کھائے۔ (ابو داوٗد، نسائی ، ابن ماجہ، دارمی)

حضرت ابو درداء (رض) کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا جمعہ کے دن کثرت سے مجھ پر درود پڑھا کرو کیونکہ اس دن کثرت سے ملائکہ حاضر ہوتے ہیں اور جب بھی کوئی شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس کے فارغ ہونے سے پہلے وہ درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔ میں نے عرض کیا وفات کے بعد بھی؟ حضور نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے اجساد کو حرام کردیا ہے۔ پس اللہ کا نبی (اپنے مزار میں) زندہ ہے اسے رزق دیا جاتا ہے ۔ اور حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات فوت ہوتا ہے قبر کے فتنے سے اللہ پاک اسے محفوظ رکھتا ہے ۔(رواہ ابن ماجہ






17903819_1645895418757137_7336581090212177325_n.jpg
 
Last edited by a moderator: