ایک مشہور صحافی کی داستانِ شْہرت

Zafar Bukhari

Politcal Worker (100+ posts)

جیسا کہ میں شہ سرخی میں تعارف کرواچکا ہوں،میں انسانوں کی اس نابغہ روزگار جنس سے تعلق رکھتاہوں جسے "صحافی" یا "ناقدرے" پاکستانیوں کی زبان میں "لفافی" بھی کہا جاتا ہے۔بہت دنوں سے ایک خلش سی تھی کہ کتنے شرفأ کا کچا چٹھا کھولا اور کتنے ہی سفید پوشوں کو ننگ دین یا ننگ وطن بنا دیا مگر آج تک اپنا تعارف اس "ناقدری" قوم کے ساتھ نہیں کروایا کہ جو مجھے صرف لفافی ہی سمجھتی ہے درآنحالیکہ میں لفافی ہونے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوں۔اسی لیے آج میں نے فیصلہ کرلیا کہ اپنے "پیشے" کے بارے سب کچھ آپ کی نذر کردوں تاکہ آپ لوگ بھی ہماری اہمیت کا "شکار" ہوسکیں۔

میری کہانی کا آغاز ظاہر ہے کہ میری پیدائش سے ہوتا ہے۔میرے والد ایک پروفیسر تھے اور سوائے لیکچر دینے کے اور کوءیی"ڈھنگ" کاکام نہیں کرسکےتھے۔میں نے مگر اپنے لیے ایک الگ اور افسانوی دنیا کا انتخاب بچپن میں ہی کرلیاتھا۔بچپن میں چونکہ والد صاحب کو اونگھنے ,کھانے اور لیکچر دینے سے فراغ نہیں ملتا تھا اس لیے میں نے ان کی لاعلمی یا سستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے"انقلابی" سرگرمیاں شروع کردیں۔آپ کو یہ جان کر شاید ہی حیرت ہو کہ میں نے محض آٹھ برس کی عمر میں ہی اپنے اندر کے صحافی کی پرورش پایہءِ تکمیل تک پہنچادی تھی۔دس برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے میں درجن بھر خاندانی لڑائیاں,دو درجن گھریلو ناچاقیاں اور دو تین طلاقیں کرواچکا تھا۔مگر یہ سب میں نے فی سبیل ا للہ ہر گز نہیں کیا تھا۔ایک ایماندار اور پروفیشنل لفافی کی طرح میں پہلے بکنگ کرتا تھا , پراجیکٹ کو سٹڈی کرتا تھا اور منصوبہ بنا کر اسے انجام تک پہنچاتا تھا۔یہی چیز بعد میں میرے کام آئی اور تب مجھے یہ خیال آیا کہ میرے والد نے یہ کام اتنی دیر سے کیوں شروع کیا۔خیر جہاں یہ سارا کچھ ہورہا تھا وہیں میرے سست الوجود والد نے اچانک اپنے آس پاس کی بدلتی دنیا پہ نظر دوڑائی اور میری بڑھتی ہوئی اہمیت کو محسوس کیا۔پھر رفتہ رفتہ وہ بھی میرے قدردان بن گئےاور میرے ہی مشورے سے ایک موءقر اردو جریدے میں کالم لکھنے لگ گئے۔ہماری اہمیت دوچند ہو چکی تھی۔زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہماری بیٹھک میں آنے لگ گئے اور میرے والد کے "افکارِ عالیہ" سے مستفید ہوتے رہے۔کیا سیاستدان کیا ادیب کیا شاعر غرض ہر وہ شخص جس کو اس بےڈھنگی قوم سے اعراض برتنے کا شوق ہوتا اور مشروبِ مغرب سے شغف رکھتے,ان کے لیے ہمارے دروازے ہمیشہ وا رہتے۔ان دنوں اپنے والد کے رفقاء کی زبانی اکثر "سرخ" انقلاب کی اصطلاح سننے کو ملتی۔میں اپنے والد کے تعلقات اور اپنی "لفافی" صلاحیتوں کے بل بوتے پہ میٹرک تو کر چکا تھا مگر حالاتِ حاضرہ سے مکمل طور پہ غافل تھا ,اس لیے مجھے سرخ انقلاب کی اصطلاح بالکل اجنبی سی محسوس ہوتی مگر میرے والد کے بعض رفقاء بالخصوص اعتراض احمد,مسرت جاوید اور چند شعراء انقلاب کے لفظ پہ جھوم جھوم جاتے یہ اور بات ہے کہ جھومنا کسی مشروب کے زیرِاثر ہوتا۔پھر والد کی زبانی پتہ چلا کہ ہمارے بدنصیب ملک میں ایک ظالمانہ نظام رائج تھا(سن کے بہت حیرت ہوئی تھی کیونکہ میرے سست والد اسی نظام سےہمہ قسمی مراعات بھی لے رہے ہوتے تھے) اور ہماری نجات ہند کی سرپرستی,روس کی باجگزاری اور افغانوں کی گالیاں کھانے میں ہے۔اسی عرصے میں روس سے تعلق رکھنے والی چند ادباء میرے والد سے ملنے کے لیے آنے لگ گئیں۔انکی رنگت دیکھ کے مجھے پہلی بار تو بہت عجیب سا محسوس ہوا کیونکہ وہ اتنی گوری تھیں کہ لگتا تھا کہ ابھی ان کے رخساروں سے خون کی پھوار نکلے گی مگر پھر رفتہ رفتہ ہم سب کی "سیٹنگ" ہوگئی۔کچھ عرصہ والد کے گیان کو برداشت کرنے کے بعد رفتہ رفتہ وہ لوگ میرے والد کو احکامات دینے لگ گئے۔ان احکامات میں اکثر بنگالی قوم کی مظلو میت اور پاکستان کے مظالم کا ذکر ہوتا۔بس پھر کیا تھا میرے والد کے قلم نےآگ (اور روسی واڈکا) اگلنا شروع کردیا۔کچھ عرصے کی پراسرار خامشی کے بعد ایک بنگالی خاتون میرے والد کی زندگی میں آگئی اور ان کو انگریزی زبان میں ایک دستاویز لا کردی۔چونکہ انگریزی میں والد بھی میری طرح کورے تھے اس لیے ہم نے

ia نام کے ایک صاحب سے ترجمہ کروایا تو ہمیں اگلے ایک ڈیڑھ سال کے لیے لکھے لکھائے کالم مل گئے۔

والد کی اہمیت اور حکومت کے دبو ہونے کا احساس اس دن شدت سے ہوا جب خفیہ اداروں کے کچھ لوگ آئے اور ہمیں سامنے بٹھاکر ہماری ایک ایک "لفافی" سرگرمی کے بارے آگاہ کیا۔میرے اونگھنے والے والد جھرجھری لے کر بیدار ہوئے اور ہاتھ کی انگلی کھڑی کرکے بیت ا لخلاء جانے کی اجازت طلب کی مگر ان اہلکاروں میں سے ایک نپے تلے قدم اٹھاتا ابا حضور کے پیچھے آن کھڑا ہوا اور نیچے کی جانب جھک کر اپنے دونوں ہاتھ والد کے کندھوں پہ رکھے۔اس غیر متوقع اقدام سے میرے سراسیمگی کی حالت میں مبتلا والدکا "تراہ" نکل گیا مگر اس اہلکار کا نرم اور مشفقانہ لہجہ دیکھ کر والد صاحب سنبھل کر بیٹھ گئے۔

بجائے ہمیں شرمندہ کرنے کے ان اہلکاروں نے بیرونی سازشوں سے محتاط رہنے اور بنگالیوں کے دیس جاکر حقائق دیکھنے کی دعوت دی۔اس دعوت کے ساتھ ہی والد کی ایک طلباء وفد کے ساتھ بنگالیوں کے دیس جانےکے جملہ انتظامات سے آگاہ کیا گیا۔جاتے جاتے انتہائی نرمی سے انہوں نے والد کو بندہ اور مجھے بندے کا بچہ بننے کی تاکید بھی کی۔والد صاحب مگر والد صاحب تھے روس کی حسیناءوں نے پھر ایک خفیہ دستاویز (اس بار اردو میں) بھیجی۔والد گئےاور واپس آتے ہی انتہائی فخریہ انداز میں بتایا کہ کس طرح "مظلوم" اور مفلوک ا لحال لوگ ظالم پاکستانیوں کے ٹکڑے کرکے جلارہے تھے اور کس طرح ظالم پاکستانی بچے سنگینوں میں پروئےجارہے تھے۔ان اطلاعات کے بعد انتہائی کرب کے عالم میں (واڈکاکا گھونٹ لیتے ہوءے)یہ بھی بتلایا کہ مظلوم بنگالیوں کو شر پسندی پھیلانے کے بنیادی انسانی حق سے بزور محروم رکھا جارہاتھا۔یہ سب کچھ بتانے کے بعد والد نے روسی فلسفیوں کے انداز میں دونوں ہاتھ پیچھے باندھ کر کمرے کا ایک چکر لگایا اور پیشین گوئی کی کہ پاکستانی بنگالیوں کے دیس میں پیدا ہونے والی چائے اور پٹ سن پہ عیش کررہے ہیں وگرنہ ان کے پاس ہے کیا؟اس کے بعد اک آنکھ بند کرکے سوفے پہ بیٹھ گئے اور یہ اعتراف کیا کہ میں ان سے کہیں بڑا لفافی ہوں اور ساتھ ہی ساتھ چند وصیتیں بھی کیں جن میں سے چند کا تعلق روسی حسیناءوں کی بدقماشی سےتھااور باقی میں مجھے تلقین کی کہ شرپسندی اور انتشار پھیلانابنیادی انسانی حقوق ہیں اور ان کے تحفظ کے لیے مجھے ہر رکاوٹ کو عبور کرنا ہوگا۔میرے والد تو کچھ عرصہ بعد واڈکا میں نسوار کی ملاوٹ(جو یقیناًکسی خفیہ ادارے کا کام تھا)کے نتیجے میں "شہادت" کے مرتبے پہ فائزہوئےمگر میرا شاندار سفر نئے راستوں اور نئی منزلوں کے ساتھ جاری رہا اور ابھی تک جاری ہے۔

مجھے یہ افسوس بہرحال ہے کہ لفافی بننے کا باقاعدہ آغاز میں نے خفیہ اہلکاروں کی مدد سے ہی کیا جب انہوں نے مجھے افغانیوں کے دیس جانے کی آفر کی اور میرے ساتھ مسرت جاوید نامی لفافی کو بھی بھیجنا چاہا مگر وہ حضرت اس بازار میں موجود بیسواؤں کی مظلومیت پہ تحقیق کرنے(اور انکی مظلومیت سے فائدہ اٹھانے)میں مصروف تھے اس لیے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھاسکے۔خیر افغانیوں کے دیس جاکر میں نے ایک ملا اور ایک عرب سرمایہ دار کا انٹرویو کیا جس کی بناء پہ میں شہرت کی بلندیوں پہ پہنچ گیا۔مگر ایک اچھے لفافی کی طرح میں نے خفیہ والوں کو ڈسنے کا بھی فیصلہ کرلیا۔

خفیہ والوں کو ڈسنے کا موقع بھی مجھے جلد ہی مل گیا جب خونی مسجد کے ملاؤں نے بغاوت کی اور ان کی سرکوبی سے پہلے ملک کے صدر نے بڑے بڑے لوگ بلوائے جن میں میں بھی شامل تھا۔میں نے ان پہ زور دیا کہ آپ خونی مسجد کی بجلی اور گیس منقطع کرکے محصورین کو باہر نکلنے کا موقع دیں اور جو نہ نکلے اس کو ماردیں۔

میرے دل کی آرزو پوری ہوئی اور خونی مسجد میں خون خرابہ ہوگیا۔اگلے دن میں نے خونی مسجد میں بنیادی حقوق برائےفروغِ شرپسندی کی پامالی اور ملاؤں کی مظلومیت پہ ایسے پروگرام کیے کہ ہر طرف کہرام مچ گیا۔میرے پروگرام آگ اگلنے لگ گئے اور خفیہ ادارے مجھ سے خائف ہوگئے۔

میں بامِ عروج پہ پہنچ چکا تھا اور اب مجھے اپنے سست ا لوجود والد کی وصیت پوری کرنی تھی میں سیاستدانوں کو آپس میں لڑواتا,ان کی پگڑیاں اچھالتا اور ان کے سربستہ راز فاش کرتا۔میری دیکھا دیکھی میرے دوست بھی یہی کچھ کرنے لگ گئے۔ایک طرف مسرت اور منحوس غراتے تو دوسری جانب نافرمان خان اور سامری دھاڑتے مگر کسی کی مجال نہیں تھی کہ کچھ کرسکے کیونکہ اب ہم سب دانشور کہلاتے تھےسیاستدان اور خفیہ ادارے ہم سے ڈرنے لگ گئےتھے۔میں دانشوروں کا سرغنہ بن گیااور اب میری خواہش تھی کہ میں حکومت بدلوا لوں۔

اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد مجھے ایک اور موقع مل گیا جب ایک جج کے خلاف صدر نے برطرفی کا حکم نامہ جاری کیا۔اس کے بعد وکلاء نے ہنگامہ مچادیا۔ہرطرف ماردھاڑ اور سرپھٹول شروع ہوگئی۔ہم دانشوروں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش شروع کردی کہ جج صاحب دراصل ایک مسیحا ہیں جن کے بحال ہوتے ہی ہرسو چین کی بنسی بجنے لگے گی۔

اور پھر جج صاحب بحال ہوگئے پھر معزول ہوئے اور پھر بحال ہوگئے,صدر نے استعفی ।دے دیا اور ایک نئی حکومت آگئی۔اس دوران بلوچوں نے بنگالیوں کی طرح شورش کی اور اپنے ایک مقتول رہنما کے خون کا بدلہ ہر اس پاکستانی ظالم سے لینے لگ گئے جو بغرضِ روزگار بلوچستان جاتا۔میں بھلا کب پیچھے رہنے والا تھا۔میں نے خفیہ اداروں کی طرف سےبنیادی حقوق برائے فروغِ شرپسندی کی خلاف ورزیوں پہ ایک طوفان کھڑا کردیا اور سوال کیا کہ ایک مظلوم بگٹی سردار جس نے انگریزوں سے جاگیر لی ,ان کی نگرانی میں تعلیم حاصل کی اور اپنے قبیلے کے ساٹھ ہزار باشندے باہر نکال دیےاس کو کس جرم میں مارا گیا؟ایک ایسا سردار جو کھلے بندوں لوگوں کو تعلیم کی لت سےمحفوظ اور سڑکوں کی عیاشی سے پرےرکھتاہو,جو وزارتِ اعلیَ ملنے کےباوجود ہل من مذید کا نعرہ لگاتا رہا , اس معصوم کو آخر کیوں مارا گیا؟اس کا جرم یہی تھا ناں کہ اس نے دس کروڑ کی رائلٹی پوری کی پوری اپنے لیے مانگی تھی اور کم عقل محکوموں کو اس کا حصہ دینے سے انکاری تھا؟اس نے ہند کو مدد کے لیے پکارا تھا ناں تو یہ کونسی بری بات تھی؟میں اپنے والد کی سیٹ سنبھال چکاتھاجو کام انہوں نے کیا تھا میں بھی وہی کرنے کے چکر میں تھا مگر پھر ظالم پاکستانیوں نے مظلوم شرپسندوں کو پکڑنا شروع کردیا۔میں بیوہ عورتوں کی طرح رویا اور کسی ایسے بندے کو ڈھونڈنے لگا جس کے کندھے پہ رکھ کے بندوق چلائی جاسکے۔


اس کام میں پھر میرے دانشور دوست میری مدد کو آئے ۔میرے ایک سینیر دوست استغفراللہ خان ان میں پیش پیش تھے۔انہوں نے پوری قوم کو "ناراضی" کا مفہوم اپنے ادھ گنجے سر پہ ایک گومڑ دکھا کر سمجھایا جو ان کے بقول ان کے اپنے فرزند کی محنتِ شاقہ کا نتیجہ تھا کیونکہ وہ اپنے بیٹے کی غوں غاں نہیں سمجھ پارہے تھے۔میرے اس دوست نے میری والدہ کا ایک نیا بھائی دریافت کرکے دیا جسے میں "ماما" کہنے لگ گیا۔میرے اس نئےرشتے پہ خفیہ والوں نے پھر میری "تراہ" نکالی مگر میں اس نئے رشتے کو نبھانے کا عزم کرچکا تھااس لیے میں نے یہ مشہور کردیا کہ مجھے شہادت کے "خطرے" کاسامنا تھامیں نے بہت سے شرپسند دوستوں سے مدد کی اپیل کی اور ان سے درخواست کی کہ وہ میرے اوپر ایک بے ضرر سا حملہ کریں مگر افسوس کہ جس کو بھی میں سپاری دیتا,خفیہ ادارے اسے نہ صرف گرفتار کرلیتے بلکہ "تراہ" نکالنے کے لیے مجھے فون پہ اس کی آواز بھی سنواتے۔میں جھنجلا گیا اور اسی کیفیت میں اپنی گاڑی کے سائلنسر کے ساتھ ایک پٹاخہ باندھا اور ٹی وی چینلز پہ خبر چلوادی۔مجھے شہرت ملی اور ایسی ملی کہ گورے بھی مجھے دانشور کہنے لگ گئے۔اپنی شہرت کو اور بڑھانے کے لیے میں نے ہمدمِ دیرینہ جنابِ طالبان پنجابی کو اپنی "سپاری" دی۔میں نے کم بختوں کو سمجھایا بھی تھا مگران کانشانہ چوک گیا اور ایک گولی مجھےلگ گئی۔میرےہمدم جناب فاترلیاقت نےمیرے کلمہء شہادت اور پاکستان زندہ باد کہنے کی گواہی دی حالانکہ میں اس وقت طالبان پنجابی کو ماں بہن کی گالیاں دے رہاتھا۔میری ہدایت کے بموجب مجھے لگنے والی گولیوں کی تعداد پہلے چار پھر چھ اور پھر دس رکھنے پہ اتفاق ہوا اور آج بھی چھ گولیاں میرے جسم میں موجود رہ کر پتہ نہیں کیا کررہی ہیں۔

سچی بات یہ ہے کہ اس گولی سے جہاں درد ہوا وہیں شہرت بھی بے تحاشا ملی اور میں آج بھی ہل من مزید کا نعرہ لگا رہا ہوں۔آخر میں میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے والد کی وصیت بھی یاد ہے اور اپنے نئے"ماما" کی بھی یاد آتی ہے جو مجھے اکیلا چھوڑ کر نیویارک کی حبشیوں کو لائن مار رہے ہیں۔
 
Last edited by a moderator:

Back
Top