Khair Andesh
Chief Minister (5k+ posts)
ایک خبر کی مار حکومت
ٓآپ خواہ کچھ بھی سمجھتے ہوں کہ پاکستان میں کس کی حکومت ہے، مگر حقیقت یہ ہے ملک پر اصل سکہ بین الاقوامی میڈیا کا چلتا ہے۔
سرل المیڈا کا نام صحیح طور پر ای سی ایل میں ڈالا جاتا ہے، مگر بی بی سی پر ایک خبر لگنے کی دیر ہے، کہ حکومت نام نکال دیتی ہے۔
ایک شخص کو پھانسی ہوتی ہے، اور ملک کی اعلی ترین عدلیہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ سکٹزوفرینیا کوئی ایسا دماغی مرض نہیں کہ جس کی بنیاد پر سزائے موت روکی جائے، بلیک وارنٹ تک اشو ہو جاتے ہیں، لیکن ادھر خبر میڈیا میں چلتی ہے، اور ادھر پھانسی رک جاتی ہے۔
کتنے ہی ایسے قوانین ہیں، جو کہ سراسر بدبودار مغربی تہذیب سے میل کھاتے ہیں، نہ صرف ہماری ضرورت نہیں، بلکہ معاشرہ کے لئے انتہائی نقصان دہ اور زہر قاتل ہیں، مگر مغرب، میڈیا کے زور پر ہماری ہی اسمبلیوں سے پاس کروا چکا ہے۔(حدود آرڈیننس میں ترمیم، حقوق نسواں بل، تحفظ نسوں بل، اور اب تحفظ اقلیت کے نام پر، " اسلامی" جمہوریہ پاکستان میں، اسلام قبول کرنے پر پاپندی کا شرمناک بل)۔
جعلی شناختی کارڈ بنانے والی افغان مہاجر،شربت گلہ کا معاملہ بھی مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
اور اس کی سب سے حالیہ مثال سپریم کورٹ کا ایک اسلامی ملک میں شراب کی فروخت کی اجازت دینے کی ہے(اگرچہ فاضل عدلیہ کا اسرار ہے کہ اس حکم کو اجازت پر محمول نہ کیا جائے۔ اب خدا جانے اس کا اس کے علاوہ اور کیا مطلب بنتا ہے)۔
یہ تو صرف حالیہ عرضہ میں گزرنے والے چند واقعات ہیں، ورنہ اگر اس قسم کے واقعات کو جمع کیا جائے تو پوری ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے، جو ہمیں بتائے گی کہ ہم آزاد ہو کر بھی غلام ہیں، اور اپنی مرضی کے مالک نہیں۔اور میڈیا میں صرف ایک خبر نشر ہونے کی دیر ہے، اورمعاملہ خواہ کتنا ہی حق پر کیوں نہ ہو، ملکی حکومت تنکوں کی طرح بکھر جاتی ہے۔
پس تحریر؛۔
اسی میڈیا نے ترکی اساتذہ کو نکالنے کے معاملے پر اپنا پورا زور لگایا ہے،اور مجھے واقعی حیرت ہے کہ آخر حکومت کیونکراس ضمن میں مذاحمت کر پا رہی ہے۔ اور ابھی تک گھٹنے نہیں ٹیکے۔
سرل المیڈا کا نام صحیح طور پر ای سی ایل میں ڈالا جاتا ہے، مگر بی بی سی پر ایک خبر لگنے کی دیر ہے، کہ حکومت نام نکال دیتی ہے۔
ایک شخص کو پھانسی ہوتی ہے، اور ملک کی اعلی ترین عدلیہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ سکٹزوفرینیا کوئی ایسا دماغی مرض نہیں کہ جس کی بنیاد پر سزائے موت روکی جائے، بلیک وارنٹ تک اشو ہو جاتے ہیں، لیکن ادھر خبر میڈیا میں چلتی ہے، اور ادھر پھانسی رک جاتی ہے۔
کتنے ہی ایسے قوانین ہیں، جو کہ سراسر بدبودار مغربی تہذیب سے میل کھاتے ہیں، نہ صرف ہماری ضرورت نہیں، بلکہ معاشرہ کے لئے انتہائی نقصان دہ اور زہر قاتل ہیں، مگر مغرب، میڈیا کے زور پر ہماری ہی اسمبلیوں سے پاس کروا چکا ہے۔(حدود آرڈیننس میں ترمیم، حقوق نسواں بل، تحفظ نسوں بل، اور اب تحفظ اقلیت کے نام پر، " اسلامی" جمہوریہ پاکستان میں، اسلام قبول کرنے پر پاپندی کا شرمناک بل)۔
جعلی شناختی کارڈ بنانے والی افغان مہاجر،شربت گلہ کا معاملہ بھی مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
اور اس کی سب سے حالیہ مثال سپریم کورٹ کا ایک اسلامی ملک میں شراب کی فروخت کی اجازت دینے کی ہے(اگرچہ فاضل عدلیہ کا اسرار ہے کہ اس حکم کو اجازت پر محمول نہ کیا جائے۔ اب خدا جانے اس کا اس کے علاوہ اور کیا مطلب بنتا ہے)۔
یہ تو صرف حالیہ عرضہ میں گزرنے والے چند واقعات ہیں، ورنہ اگر اس قسم کے واقعات کو جمع کیا جائے تو پوری ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے، جو ہمیں بتائے گی کہ ہم آزاد ہو کر بھی غلام ہیں، اور اپنی مرضی کے مالک نہیں۔اور میڈیا میں صرف ایک خبر نشر ہونے کی دیر ہے، اورمعاملہ خواہ کتنا ہی حق پر کیوں نہ ہو، ملکی حکومت تنکوں کی طرح بکھر جاتی ہے۔
پس تحریر؛۔
اسی میڈیا نے ترکی اساتذہ کو نکالنے کے معاملے پر اپنا پورا زور لگایا ہے،اور مجھے واقعی حیرت ہے کہ آخر حکومت کیونکراس ضمن میں مذاحمت کر پا رہی ہے۔ اور ابھی تک گھٹنے نہیں ٹیکے۔