ایک بھولی بسری رخصتی!

CanPak2

Minister (2k+ posts)

[TABLE="width: 500, align: center"]
[TR]
[TD="width: 97%"]
ایک بھولی بسری رخصتی!...نقش خیالعرفان صدیقی
[/TD]
[TD="width: 3%, bgcolor: f9f9f9"]
headlinebullet.gif
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 2, align: right"]
shim.gif
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 2, align: right"]
dot.jpg
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 2, align: right"]
shim.gif
[/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="colspan: 2, align: right"]
127444_s.jpg
[/TD]
[TD] [/TD]
[/TR]
[TR]
[TD="class: small_txt, align: justify"]ایوان صدر سے جناب آصف علی زرداری کی رخصتی ایک باب رقم کر گئی۔ جہاں وزیراعظم نے ان کے اعزاز میں ایک پروقار الوداعی ظہرانہ دیا اور لالہ و گل سے آراستہ ایک دل آویز تقریر کی، وہاں ایوان صدر کے سبزہ زار میں مسلح افواج نے انہیں شاندار گارڈ آف آنر پیش کیا۔ آج تک یہ دونوں اعزازات کسی جمہوری صدر کا توشہ تقدیر نہیں بنے۔ بلاشبہ تمام تر کمزوریوں کے باوجود ہماری جمہوریت، بلوغت کی منزلیں طے کررہی ہے۔ کتاب سیاست میں کچھ ایسے اوراق کا اضافہ ہونے لگا ہے جنہیں سنہری نہ بھی کہا جائے تو بھی ہمارے لئے باعث فخر ضرور ہیں۔ ورنہ ریاست کے بلند ترین منصب پر فائز شخصیات کو جس انداز سے رخصت کیا جاتا رہا، اسے شرمناک نہیں تو افسوسناک ضرور کہا جاسکتا ہے۔
ایک صدر کی رخصتی کا میں عینی شاہد ہوں۔ یہ جون 2001ء کے پہلے ہفتے کا ذکر ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے معتمد خاص اور نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکرٹری جناب طارق عزیز صدر رفیق تارڑ سے ملنے آئے۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد کہنے لگے جنرل مشرف صاحب چاہتے ہیں کہ کسی روز آپ کے ہاں کھانا کھائیں صدر تارڑ نے کہا ضرور۔ مہمانوں کی فہرست آگئی۔ طے پایا کہ جنرل مشرف 13جون کو ایوان صدر میں، صدر تارڑ کی رہائش گاہ پر عشایئے میں شریک ہوں گے۔ عشایئے کے دوران خوشگوار گپ شپ ہوتی رہی۔ دسترخوان سمیٹتے ہی ماحول پر ایک پُراسرار سی گمبھیرتا طاری ہوگئی۔جنرل مشرف کے ہمراہ آنے والوں میں جنرل یوسف، جنرل محمود ، جنرل عزیز اور طارق عزیز بھی تھے۔ پھر سکوت کی مہرٹوٹی اور یکایک ایک جرنیل نے کلام کا آغاز کیا۔ لمبی چوڑی تمہید اور لطافت سے عاری تقریر کا مطلوب و مقصود یہ تھا کہ ملک غیریقینی کیفیت میں مبتلا ہے۔ سپریم کورٹ کے عطا کردہ تین سال تمام ہونے کو ہیں، سرمایہ کاری رک گئی ہے۔ سب پوچھتے ہیں کہ آپ تو جارہے ہیں۔ بعد میں نہ جانے کیا ہوگا؟ سو ملک و قوم کے عظیم تر مفاد کے لئے ضروری محسوس کیا جارہا ہے کہ جنرل پرویز مشرف، چیف ایگزیکٹو کے ساتھ ساتھ صدر مملکت کا منصب بھی سنبھال لیں۔ صدر تارڑ نے سب کچھ تحمل سے سنا اور پوچھا یہ کیسے ہوگا مشرف صاحب بولے ۔ سر آپ جج رہے ہیں، قانون قاعدے کو سمجھتے ہیں،آپ خود کوئی راستہ تجویز کردیں۔ صدر نے کہا مجھے تو ایسا کوئی آئینی و قانونی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر جنرل یوسف یکایک گویا ہوئے۔ ان کی آوازمیں قدرے تلخی کا عنصربھی تھا اور خاصی بلند تھی۔ آپ استعفیٰ دے دیں۔ صدر تارڑ نے مڑ کر قدرے مضطرب جرنیل کی طرف دیکھا اور کہا۔ آئین کے تحت میں قومی اسمبلی کے اسپیکر کو استعفیٰ دے سکتا ہوں۔ آپ نے نہ قومی اسمبلی چھوڑی ہے نہ اسپیکر۔ استعفیٰ کس کو دوں؟ مکالموں کی گرمی بڑھتی گئی۔ استعفے پر زور دیا جاتا رہا۔ صدر تارڑ نے حتمی طور پرکہا دیکھے، میں آپ کا سپریم کمانڈر ہوں۔ بحیثیت صدر میں اپنے کسی ماتحت کو استعفیٰ نہیں دوں گا یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔ جنرل یوسف نے تلخی میں مزید زہرناکی گھولتے ہوئے کہا تو پھر کیا راستہ ہے۔ صدر تارڑ نے کہا۔ راستہ تلاش کرنا آپ کا درد سر ہے اور آپ اس میں مہارت رکھتے ہیں۔ عشائیہ تمام ہوگیا، مہمانان گرامی رخصت ہوگئے۔
اگلے دن 14جون2001ء کی صبح، ملٹری سیکرٹری کو جنرل محمود کا فون آیا۔ وہ ایک دو دنوں میں صدر تارڑ سے ملنا چاہتے تھے۔ صدر نے کہا آج ہی بلالو۔ دوپہر کو جنرل محمود تشریف لے آئے۔ انہوں نے صدر کو آگاہ کیا کہ آپ کی رخصتی اور جنرل مشرف کے منصب صدارت سنبھالنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ 20جون کو آپ رخصت ہوجائیں۔ جنرل محمود نے ایک بار پھر صدر تارڑ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ مستعفی ہوجائیں تو اچھا ہوگا۔ صدر تارڑ اپنی بات پر قائم رہے۔ دو دن بعد طارق عزیز صدر سے ملنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف آپ کو الوداعی کھانا دینا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ آپ سرکاری اعزاز و اکرام کے ساتھ رخصت ہوں۔ صدر تارڑ نے اس بے ذوق اور پرفریب لیپا پوتی کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔
19جون کو جنرل پرویزمشرف کی طرف سے پی سی او کی شکل میں ایک فرمان جاری ہوا۔ جس کے تحت صدر مملکت محمد رفیق تارڑ کو اپنے منصب سے فارغ کردیا گیا پھر ایک اور فرمان طلوع ہوا جس کے تحت چیف ایگزیکٹو اور چیف آف آرمی اسٹاف نے اپنے آپ کو منصب صدارت پر فائز کرلیا۔ 20جون کی صبح پرویز مشرف صدر تارڑ سے ملنے آئے۔ اس رسمی ملاقات کے کچھ ہی دیر بعد ایوان صدر کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک گاڑی لگی،ہم سب وہاں کھڑے تھے۔ صدر تارڑ گاڑی میں بیٹھے۔ جنرل پرویز مشرف نے انہیں سلیوٹ کیا لیکن تارڑ صاحب نے نہ ان کی طرف دیکھا، نہ سلیوٹ کا جواب دیا۔ گاڑی آہستہ آہستہ خارجی گیٹ کی طرف روانہ ہوگئی۔ سرشام ایوان صدر کے سبزہ زار میں ایک چمن آراستہ ہوا۔ چیف آف آرمی اسٹاف اور چیف ایگزیکٹو، جنرل پرویز مشرف تشریف لائے۔ انہیں پرشکوہ گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ ایوان صدر کے آراستہ پیراستہ ہال میں ایک تقریب سجی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ، عالی مرتبت ارشاد حسن خان نے جنرل سے صدارت کا حلف لیا اور پرویز مشرف صدر پاکستان بن گئے۔ صدور کی فہرست میں ان کا دسواں نمبرتھا۔ چیف جسٹس آف پاکستان ہونے کے ناتے، جسٹس ارشاد حسن خان کے ذہن میں سوال پیدا ہونا چاہئے تھا کہ یہ سب کیسے ہورہا ہے لیکن ان کے چہرے پہ کھلی بشاشت سے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ ایسے سوالوں کی جنجال میں پڑے بغیر اپنے عزائم پر نگاہ رکھتے ہیں۔ بعد میں کسی نے تارڑ صاحب سے پوچھا آپ کو عدالت چلے جانا چاہئے تھا۔ انہوں نے اپنی مخصوص شگفتہ مزاجی سے کام لیتے ہوئے کہا۔ جانا چاہتا تھا لیکن جج صاحبان جنرل مشرف کی تقریب حلف وفاداری میں مصروف تھے۔
کم و بیش دس برس بعد جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پیراگراف 41میں لکھا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اگرچہ صدر تارڑ نے ماورائے آئین بندوبست کے تحت کام جاری رکھا لیکن جب انہیں صدارتی جانشینی آرڈر مجربہ 2001 کے ذریعے آئینی میعاد کی تکمیل سے پہلے ہی اپنے عہدے سے ہٹا دیا گیا تو انہوں نے منصب صدارت سے استعفی نہیں دیا لہٰذا آئینی و قانونی طور پر صدر کا عہدہ خالی ہی نہیں ہوا تھا کہ کوئی اور شخص اسے پُر کرتا۔
جناب محمد رفیق تارڑ نے مارچ 2012ء کو لاہور ہائیکورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی۔ استدعا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے مطابق قرار دیا جائے کہ پرویز مشرف نامی شخص کبھی پاکستان کا صدر نہیں رہا۔ ڈیڑھ برس سے یہ رٹ پٹیشن لاہور ہائیکورٹ کی کسی بوسیدہ الماری میں پڑی گل سڑ رہی ہے۔
جناب آصف زرداری خوش نصیب ٹھہرے کہ ان کی رخصتی احتشام کے ساتھ ہوئی۔ جناب رفیق تارڑ کی غریب و سادہ اور بے آب و رنگ جبری رخصتی بھی ان کے احترام و مقام میں اضافہ کرگئی۔ بے آبروئی اور بے توقیری صرف اس کے حصے میں آئی جو آج ایوان صدر سے کچھ ہی دور چک شہزاد کی ایک حراست گاہ میں رسوائیوں کی بکل مارے بیٹھا دل و نگاہ میں خنجر کی طرف پیوست ہوتے ان منظروں کو دیکھ رہا ہے۔ جو سب سے بڑی عدالت کے سزا یافتہ مجرموں کا مقدر ٹھہرتے ہیں۔
[/TD]
[/TR]
[/TABLE]

http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=127444
 

CanPak2

Minister (2k+ posts)
[h=3]Ek hi shaks tha jahaan mai kya[/h]

Umer guzre gi imtihaan mai kya?
Daag hi mile gay mujhe daan mai kya?

Kyun bolte nahi mere haq mai,
Ablay par gay zuban mai kya?

Meri her baat bay-asar hi rahi,
Nuks hai kuch mere biyaan mai kya?

Kyun dekhta rehta hai asmaan ki taraf,
Koi rehta bhi hai asmaan mai kya?

ye mujhe chain kyun anhi parta,
Ek hi shaks tha jahaan mai kya.
http://famousurdupoetry.blogspot.ca/2013/03/ek-hi-shaks-tha-jahaan-mai-kya.html

 

CanPak2

Minister (2k+ posts)
[h=3]Barason ke baad dekhaa ik shakhs dilruba sa[/h]

Barason ke baad dekhaa ik shakhs dilruba sa
Ab zahan mein nahin hai par naam tha bhalaa sa

Abaruu khinche khinche se ankhein jhuki jhuki si
Baatein ruki ruki si lehaja thaka thaka sa

Alfaaz the ke jugnu aawaz ke safar mein
Ban jaaye jangalon mein jis tarah raasta sa

Khawabon mein Khawaab us ke yaadon mein yaad us ki
Neendon mein ghul gaya ho jaise ke rat-jaga sa


Pehle bhi log aaye kitne hi zindagi mein
Wo har tarah se lekin auron se tha judaa sa

Aglii muhabbaton ne wo na.muraadiyan dein
Taza rafaaqaton se dil tha dara dara sa

Kuch ye ke muddaton se ham bhi nahin the roye
Kuch zehar mein bujha tha ehbaab ka dilaasa

Phir yun hua ke saavan aankhon mein aa base the
Phir yun hua ke jaise dil bhi tha aabla sa

Ab sach kahen to yaaro ham ko khabar nahin thi
Ban jayega qayaamat ik waqea zara sa

Tevar the berukhi ke andaaz dosti ke
Wo ajnabi tha lekin lagta tha aashna sa

Ham dasht the ke dariya ham zehar the ke amrit
Naahaq tha zoum ham ko jab wo nahin tha pyasa

Ham ne bhi us ko dekha kal shaam ittefaaqan
apna bhi haal hai ab logo 'Faraz' ka sa

 

Back
Top