dangerous tears
Senator (1k+ posts)

پنجاب میں رمضان سے قبل دو مسجد اماموں کو نفرت انگیز تقاریر پر مختلف المعیاد قید کی سزا، پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کی پچھلی برسی پر ایک مظاہرے پر حملہ کرنے والے جوشیلوں کو تین تا پانچ برس کے لیے جیل اور اب کالعدم لشکرِ جھنگوی کے رہنما ملک محمد اسحاق اور ان کے دو صاحبزادوں سمیت چودہ افراد کی پنجاب پولیس سے مقابلے میں ہلاکت؟
تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر جزوی اور نیم دلانہ عمل درآمد کے بجائے اب اس منصوبے پر جامع انداز میں عمل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟پشاور کے آرمی پبلک سکول کے قتلِ عام کے بعد کم ازکم اس بارے میں تو قومی اتفاقِ رائے ہوگیا تھا کہ اب کہنے کا وقت گزر گیا، کرنے کا وقت آگیا۔مگر جس طرح سے جیلوں میں طویل عرصے سے پڑے سزائے موت کے منتظر مجرموں کو پھانسی پر لٹکانے کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ بات سامنے آئی کہ یہ پھانسیاں دہشت گردی کے خلاف ابتدائی سیاسی اتفاق رائے کے برعکس اُن مجرموں کو زیادہ دی جا رہی ہیں جنھیں انفرادی جرائم میں سزا سنائی گئی تھی۔
آج تک جتنے مجرموں کو لٹکایا گیا ان میں ہر چھ میں سے پانچ مجرم اسی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ چنانچہ سوال اٹھا کہ کیا اس انداز سے پھانسیاں دینے سے اُن دہشت گردوں کو کچھ کان ہو جائیں گے کہ جن کی تمنا ہی موت ہے۔دوسرا سوال یہ ابھرا کہ انفرادی وارداتوں کے مجرموں کے خلاف تو کوئی نہ کوئی گواہی دینے پر آمادہ ہوجاتا ہے لیکن دہشت گردوں کے خلاف کون گواہی دے گا کہ جن کے مقدمے سننے سے جج بھی گھبراتے ہیں اور ان میں سے کچھ دہشت گردوں کو مبینہ طور پر سیاسی حکومتوں کے اندر ایک خاص طرح کی لابی کی پشت پناہی یا نرم گوشے کی سہولت اور بعض حساس اداروں کی بھی حسبِ ضرورت و مصلحت جزوقتی و کل وقتی حمایت حاصل ہے یا رہی ہے۔
اس سوال کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ اگر تو نیشنل ایکشن پلان کی ترجیحات میں مذہب و عقیدے کے نام پر دہشت گردی اور ان کے پشت پناہوں کی گردن زدنی کے ساتھ ساتھ علاقائی و قوم پرست انتہا پسندی کی بیخ کنی بھی شامل ہوگئی ہے تو پھر پنجاب، خیبر پختونخواہ اور کراچی کے برعکس بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ یہ پالیسی کیوں نہیں اپنا رہی کہ انتہا پسندی کا جواب صرف سیکورٹی ادارے اپنی قانونی حیثیت میں دیں اور اس کام میں طفیلی پرائیویٹ ملیشیائیں استعمال کرنے سے گریز کریں۔یقیناً ضربِ عضب اور انٹیلی جینس کی بنیاد پر ٹارگٹڈ آپریشنز سے مجموعی طور پر بہتری آئی ہے۔
یقیناً یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ روایتی جنگ کے برعکس ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد ہے۔ مگر یہ جنگ صرف درخت کے پتے جھاڑنے سے نہیں جیتی جا سکتی جب تک جڑوں پر پوری توجہ نہیں دی جائے۔ اور جڑیں اکھاڑنے کے لیے ضروری ہے کہ سوچ کا دھارا بدلنے پر بھی اسی قدر توجہ دی جائے جتنی توجہ پتے جھاڑنے پر ہے۔ان لوگوں کے پیچھے جانے کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے جو بندوق چلانے سے زیادہ خطرناک کام کرتے ہیں یعنی دماغ مسلح کرتے ہیں۔ فرسودہ نظامِ انصاف کو بھی لیپا پوتی کے بجائے ازسرِ نو تعمیر کی ضرورت ہے تاکہ بالائے قانون پولیس مقابلوں اور جبری گمشدگی کے دھبوں سے بچا جا سکے اور گیہوں سے زیادہ گھن نہ پس جائے۔اور اس سب سے بھی زیادہ اس مسئلے کو گریبان سے پکڑنے کی ضرورت ہے کہ عام آدمی کی ناامیدی رفتہ رفتہ امید میں بدلے۔
یہ صرف کہنے سے نہیں ہوگا۔ جب تک اس کا سماجی، سیاسی، اقتصادی اور نفسیاتی احساسِ محرومی ختم نہیں ہوگا بھلے ختم نہ بھی ہو تب بھی اس کو یہ احساس ضرور ہونا چاہیے کہ اس سمت کچھوے کی رفتار سے ہی سہی مگر کام ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس جملے کو بھی فیصلہ سازوں کو اپنے دماغ سے کھرچنے کی ضرورت ہے کہ اے ساڈا بندہ اے تے او اونہاں دا بندہ ہے۔ اینوں چھڈ دیو تو اونہوں مار دیو۔ورنہ تو یہی باتیں ہوتی رہیں گی کہ سب کچھ وقتی ہے یا ان پھرتیوں کا تعلق پاک چائنا اکنامک کاریڈور سے ہے یا پھر عالمی برادری کی نظروں میں اپنا امیج بہتر بنانے کی ایک اور کوشش ہے۔
بی بی سی اردو
Last edited by a moderator: